نیا آئی جی پرانے چیلنجز
اگر پولیس سے انصاف مل جائے تو لوگ عدالتوں میں دھکے نہیں کھائیں گے۔ جھوٹے پرچوں کا اندراج رکنا چاہیے
آج کل سیاست اتنی گرم ہے کہ غیر سیاسی موضوعات پر لکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ روزانہ کوئی ایسا سیاسی موضوع سامنے ہوتا ہے اور اس پر لکھنا آسان اور ضروری بھی نظر آتا ہے۔
سیاسی قیادت اور ورکرز کی بھی ساری توجہ سیاست پر ہے ، دیگر موضوعات پر ان کی توجہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہیں۔ لیکن کسی کی بھی اپنے اقتدار اور گورننس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ جس کے پاس جو ہے وہ کافی ہے ،اگر کام کرنے کی کوشش کی جائے۔
پنجاب پولیس میں اصلاحات ہمیشہ سے ہی ایسا موضوع رہا ہے جس پر کام کم اور سیاست زیادہ ہوئی ہے،ماضی میں پولیس اصلاحات کا مینڈیٹ لے کر آنے والے کئی آئی جی صاحبان سیاست کی ہی نذر ہو گئے۔ انھوں نے اصلاحات کو سیاسی موضوع سمجھا اور سیاسی انداز میں ہینڈ ل کر نے کی کوشش کی، اس لیے ناکام ہوئے۔
تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات کی گئی لیکن نتائج سامنے نہیں آئی۔ اب پنجاب میں نئے آئی جی عامر ذوالفقار نے چارج سنبھال لیا ہے۔ سیاسی تناؤ کے اس ماحول میں ان کے نام پر اتفاق ہونا یہ بتا رہا ہے کہ وہ ایک غیر سیاسی پولیس سربراہ ہیں۔
ان کا کسی طرف کوئی سیاسی جھکاؤ نہیں ہے، پنجاب میں سیاسی کشمکش عروج پر ہے،اس ماحول میں کام خاصا مشکل ہے ۔ وہ کسی کے مخصوص ایجنڈے پر چلیں گے نہ کسی کے خلاف استعمال ہوںگے۔
وہ خود مکمل غیر سیاسی ہیں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو غیر سیاسی کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی پولیس اصلاح یہی ہو گی کہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا جائے۔
سنا ہے پنجاب پولیس کے نئے سربراہ سیاسی اثرو رسوخ پرٹرانسفر پوسٹنگ کے سخت خلاف ہیں۔اگر موجودہ سیاسی بحران میں وہ پولیس کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ ان کا پہلا امتحان یہی ہو گا کہ جب دونوں طرف ووٹ پورے کرنے کا شور ہے ایسے میں پولیس اس کام سے باہر رہے۔
پولیس اصلاحات میں اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ سارا قصور پولیس کا ہی ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سارا کچھ پولیس پر ڈالنا بھی درست نہیں ہے ۔سیاسی اثرورسوخ ایک حقیقت ہے ' عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو بھی پولیس کو اپنی پسند نا پسند کے حساب سے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان میں پولیس سسٹم کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ عامر ذوالفقار کے پاس کتنا وقت ہے۔ کیونکہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہوتے ہیں کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق رہتا ہے۔
وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حق میں ہیں۔ جب وہ سی پی او لاہور تھے تو انھوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ایسا نظام قائم کیا تھا ، آپ آئی جی آفس میں بیٹھ کر پنجاب بھر کے تھانوں کی کیمروں کے ساتھ ماینٹرنگ کر سکتے تھے۔ وہ میڈیا کو اس مانیٹرنگ روم میں بھی لے کر گئے تھے۔
ان کا خیال ہے آئی ٹی کی مدد سے نہ صرف کرپشن کے دروازے بھی بند کیے جا سکتے ہیں بلکہ عوام کی شکایات بھی دور کی جا سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پولیس کا قبلہ درست کیا جا سکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی نگرانی کی ہے اور جرائم کے ساتھ ساتھ مجرموں کا پتہ بھی لگانے میں پولیس اہلکاروں کو گائیڈ لائن فراہم کی ہے۔پولیس ڈیپارٹمنٹ عوام کو انصاف دینے کا پہلا قدم ہے۔
اگر پولیس سے انصاف مل جائے تو لوگ عدالتوں میں دھکے نہیں کھائیں گے۔ جھوٹے پرچوں کا اندراج رکنا چاہیے۔
پولیس کو جھوٹے پرچے درج کرانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کرنی چاہیے، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری بند ہونا چاہیے۔ صرف ایف آئی آر کا اندراج گرفتاری کے لیے کافی نہیں ہونا چاہیے۔یہ کلچر ختم کرنا ہوگا کہ ادھر ایف آئی آر درج ہوئی ادھر گرفتاری کے لیے پولیس چڑھ دوڑے۔ راتوں کو چھاپوں کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ بہرحال چیلنجز کافی ہیں۔ جس کے لیے تسلسل چاہیے۔
سیاسی قیادت اور ورکرز کی بھی ساری توجہ سیاست پر ہے ، دیگر موضوعات پر ان کی توجہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہیں۔ لیکن کسی کی بھی اپنے اقتدار اور گورننس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ جس کے پاس جو ہے وہ کافی ہے ،اگر کام کرنے کی کوشش کی جائے۔
پنجاب پولیس میں اصلاحات ہمیشہ سے ہی ایسا موضوع رہا ہے جس پر کام کم اور سیاست زیادہ ہوئی ہے،ماضی میں پولیس اصلاحات کا مینڈیٹ لے کر آنے والے کئی آئی جی صاحبان سیاست کی ہی نذر ہو گئے۔ انھوں نے اصلاحات کو سیاسی موضوع سمجھا اور سیاسی انداز میں ہینڈ ل کر نے کی کوشش کی، اس لیے ناکام ہوئے۔
تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات کی گئی لیکن نتائج سامنے نہیں آئی۔ اب پنجاب میں نئے آئی جی عامر ذوالفقار نے چارج سنبھال لیا ہے۔ سیاسی تناؤ کے اس ماحول میں ان کے نام پر اتفاق ہونا یہ بتا رہا ہے کہ وہ ایک غیر سیاسی پولیس سربراہ ہیں۔
ان کا کسی طرف کوئی سیاسی جھکاؤ نہیں ہے، پنجاب میں سیاسی کشمکش عروج پر ہے،اس ماحول میں کام خاصا مشکل ہے ۔ وہ کسی کے مخصوص ایجنڈے پر چلیں گے نہ کسی کے خلاف استعمال ہوںگے۔
وہ خود مکمل غیر سیاسی ہیں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو غیر سیاسی کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی پولیس اصلاح یہی ہو گی کہ پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کر دیا جائے۔
سنا ہے پنجاب پولیس کے نئے سربراہ سیاسی اثرو رسوخ پرٹرانسفر پوسٹنگ کے سخت خلاف ہیں۔اگر موجودہ سیاسی بحران میں وہ پولیس کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔ ان کا پہلا امتحان یہی ہو گا کہ جب دونوں طرف ووٹ پورے کرنے کا شور ہے ایسے میں پولیس اس کام سے باہر رہے۔
پولیس اصلاحات میں اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ سارا قصور پولیس کا ہی ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو سارا کچھ پولیس پر ڈالنا بھی درست نہیں ہے ۔سیاسی اثرورسوخ ایک حقیقت ہے ' عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو بھی پولیس کو اپنی پسند نا پسند کے حساب سے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان میں پولیس سسٹم کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ عامر ذوالفقار کے پاس کتنا وقت ہے۔ کیونکہ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہوتے ہیں کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق رہتا ہے۔
وہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے حق میں ہیں۔ جب وہ سی پی او لاہور تھے تو انھوں نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ایسا نظام قائم کیا تھا ، آپ آئی جی آفس میں بیٹھ کر پنجاب بھر کے تھانوں کی کیمروں کے ساتھ ماینٹرنگ کر سکتے تھے۔ وہ میڈیا کو اس مانیٹرنگ روم میں بھی لے کر گئے تھے۔
ان کا خیال ہے آئی ٹی کی مدد سے نہ صرف کرپشن کے دروازے بھی بند کیے جا سکتے ہیں بلکہ عوام کی شکایات بھی دور کی جا سکتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پولیس کا قبلہ درست کیا جا سکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی نگرانی کی ہے اور جرائم کے ساتھ ساتھ مجرموں کا پتہ بھی لگانے میں پولیس اہلکاروں کو گائیڈ لائن فراہم کی ہے۔پولیس ڈیپارٹمنٹ عوام کو انصاف دینے کا پہلا قدم ہے۔
اگر پولیس سے انصاف مل جائے تو لوگ عدالتوں میں دھکے نہیں کھائیں گے۔ جھوٹے پرچوں کا اندراج رکنا چاہیے۔
پولیس کو جھوٹے پرچے درج کرانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کرنی چاہیے، بے گناہ لوگوں کی گرفتاری بند ہونا چاہیے۔ صرف ایف آئی آر کا اندراج گرفتاری کے لیے کافی نہیں ہونا چاہیے۔یہ کلچر ختم کرنا ہوگا کہ ادھر ایف آئی آر درج ہوئی ادھر گرفتاری کے لیے پولیس چڑھ دوڑے۔ راتوں کو چھاپوں کا سلسلہ رکنا چاہیے۔ بہرحال چیلنجز کافی ہیں۔ جس کے لیے تسلسل چاہیے۔