سرکاری ملازمین کی عارضی بھرتی پر پابندی کا خاتمہ
ملک بھر میں لاکھوں بے روز گار افراد کو روز گار ملے گا۔۔۔
KARACHI:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے سرکاری اداروں میں عارضی ملازمین کی بھرتی پر عائد پابندی ختم کرنے کا حکم خوش آیند ہے۔ اس سے ملک بھر میں لاکھوں بے روز گار افراد کو روز گار ملے گا۔ وزیراعظم کی طرف سے جاری احکامات میں تمام سرکاری' خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاں عارضی اور ڈیلی ویجز کی بنیاد پر بھرتی کی حقیقی ضرورت ہو وہاں میرٹ کی حکومتی پالیسی مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین بھرتی کیے جائیں۔ خبر کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 20 جون 2013ء کو نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام وفاقی وزارتوں' ڈویژنوں اور ملحقہ محکموں اور خود مختار و نیم خود مختار اداروں میں ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی تھی' اس کے بعد 6 فروری 2014ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ میں توسیع دینے پر پابندی لگا دی تھی اور ہدایت کی گئی تھی کہ کنٹریکٹ میں توسیع کی سمری وزیراعظم آفس بھجوائی جائے جس سے ملک بھر کے ہزاروں ملازمین میں اضطراب پھیل گیا تھا' اب وزیراعظم کی جانب سے ڈیلی ویجز سے پابندی اٹھنے سے ہزاروں ملازمین نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان روز گار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر انھیں روز گار نہیں مل رہا۔ ایسی صورت حال نے نوجوانوں میں مایوسی کے عمل کو مہمیز کیا ہے۔ مایوس نوجوان عموماً جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں جرائم کی شرح میں اضافہ کی وجہ بے روز گاری کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں بھرتیوں پر کئی سال سے پابندی عائد تھی جس کے باعث مختلف محکموں میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی تھیں اور سیکڑوں افراد ایسے ہیں جو کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اب پابندی اٹھائے جانے کے بعد وزارت خزانہ' صنعت و پیداوار' تجارت اور دیگر وزارتوں میں بھی بھرتیاں ہو سکیں گی۔ آسامیاں خالی ہونے اور نئی بھرتیاں نہ ہونے کے باعث سرکاری محکموں کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی اور لوگوں کے کام بروقت مکمل نہیں ہو رہے تھے۔ ایسے میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ سرکاری محکموں میں خالی آسامیاں پر کرنے کے لیے فی الفور بھرتیاں کی جائیں۔ انھی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرتیوں سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس سے سرکاری محکموں کی روز مرہ کی کارکردگی مزید بہتر ہونے اور شہریوں کی خدمت کو یقینی بنانے کا عمل ممکن ہو سکے گا۔
معاشی ماہرین کا ایک حلقہ اس بات پر معترض ہے کہ عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کا عمل درست نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ڈیلی ویجز ملازمین پر بے روز گاری کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے اور انھیں ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ انھیں کسی وقت بھی ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی خدمت کو نصب العین بنانے کے بجائے اعلیٰ افسران کی خوشامد اور ان کے ذاتی امور نبٹانے پر لگے رہتے ہیں جس سے سرکاری اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب اس میں یہ قباحت بھی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کنٹریکٹ ملازمین ایمانداری سے سرکاری امور نبٹانے کے بجائے کرپشن اور بدعنوانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں چونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نوکری عارضی ہے اور پھر اس کے بعد بے روز گار ہونے کی صورت میں وہ مالی مسائل کا شکار ہو جائیں گے لہٰذا وہ ''جتنا سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو' کل کا پتہ نہیں'' کی پالیسی پر چلتے ہوئے ملکی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ناگزیر ہے کہ حکومت عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کا سلسلہ فی الفور بند کر کے مستقل بھرتیوں کا عمل شروع کرے اس سے سرکاری محکموں کی کارکردگی زیادہ بہتر ہو گی۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور رشوت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ احتساب کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کا عمل کمزور ہونے کے باعث بھی سرکاری محکموں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کے سلسلہ میں رشوت اور سفارش کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے اور میرٹ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم نے سرکاری محکموں کے سربراہوں کو ہدایت کی ہے کہ بھرتیوں میں قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کیا جائے' بھرتی شفاف انداز میں اور میرٹ پر کی جائے۔ اگر بھرتیاں واقعی میرٹ پر کی جاتی ہیں تو یہ خوش کن امر ہے مگر سرکاری محکموں میں ماضی میں ہونے والی بھرتیوں کے تناظر میں میرٹ کی خلاف ورزی کے خدشات اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی حکومت ہر نوجوان کو روز گار فراہم نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ نجی شعبہ ہی بڑی تعداد میں روز گار فراہم کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ مگر ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال' توانائی کے بحران اور سرکاری محکموں کی جانب سے بے جا رکاوٹوں اور سرخ فیتہ کے باعث نجی شعبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے حکومت بے روز گاری کے خاتمے کے لیے نجی شعبے کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔ نجی شعبہ جتنا مضبوط ہو گا' ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔امید ہے کہ حکومت روزگار کے مسائل حل کرنے کے لیے عارضی کے بجائے مستقل بھرتیوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی طرف سے سرکاری اداروں میں عارضی ملازمین کی بھرتی پر عائد پابندی ختم کرنے کا حکم خوش آیند ہے۔ اس سے ملک بھر میں لاکھوں بے روز گار افراد کو روز گار ملے گا۔ وزیراعظم کی طرف سے جاری احکامات میں تمام سرکاری' خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جہاں عارضی اور ڈیلی ویجز کی بنیاد پر بھرتی کی حقیقی ضرورت ہو وہاں میرٹ کی حکومتی پالیسی مدنظر رکھتے ہوئے ملازمین بھرتی کیے جائیں۔ خبر کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 20 جون 2013ء کو نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام وفاقی وزارتوں' ڈویژنوں اور ملحقہ محکموں اور خود مختار و نیم خود مختار اداروں میں ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی تھی' اس کے بعد 6 فروری 2014ء کو جاری کردہ نوٹیفکیشن کے تحت ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ میں توسیع دینے پر پابندی لگا دی تھی اور ہدایت کی گئی تھی کہ کنٹریکٹ میں توسیع کی سمری وزیراعظم آفس بھجوائی جائے جس سے ملک بھر کے ہزاروں ملازمین میں اضطراب پھیل گیا تھا' اب وزیراعظم کی جانب سے ڈیلی ویجز سے پابندی اٹھنے سے ہزاروں ملازمین نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
اس وقت ملک بھر میں لاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان روز گار کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر انھیں روز گار نہیں مل رہا۔ ایسی صورت حال نے نوجوانوں میں مایوسی کے عمل کو مہمیز کیا ہے۔ مایوس نوجوان عموماً جرائم کی راہ پر چل نکلتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں جرائم کی شرح میں اضافہ کی وجہ بے روز گاری کو قرار دیا جا رہا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں بھرتیوں پر کئی سال سے پابندی عائد تھی جس کے باعث مختلف محکموں میں ہزاروں آسامیاں خالی پڑی تھیں اور سیکڑوں افراد ایسے ہیں جو کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ملازمتیں کر رہے ہیں۔ اب پابندی اٹھائے جانے کے بعد وزارت خزانہ' صنعت و پیداوار' تجارت اور دیگر وزارتوں میں بھی بھرتیاں ہو سکیں گی۔ آسامیاں خالی ہونے اور نئی بھرتیاں نہ ہونے کے باعث سرکاری محکموں کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی اور لوگوں کے کام بروقت مکمل نہیں ہو رہے تھے۔ ایسے میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ سرکاری محکموں میں خالی آسامیاں پر کرنے کے لیے فی الفور بھرتیاں کی جائیں۔ انھی امور کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرتیوں سے پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا جس سے سرکاری محکموں کی روز مرہ کی کارکردگی مزید بہتر ہونے اور شہریوں کی خدمت کو یقینی بنانے کا عمل ممکن ہو سکے گا۔
معاشی ماہرین کا ایک حلقہ اس بات پر معترض ہے کہ عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کا عمل درست نہیں کیونکہ ایسی صورت میں ڈیلی ویجز ملازمین پر بے روز گاری کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے اور انھیں ہر وقت خدشہ رہتا ہے کہ انھیں کسی وقت بھی ملازمت سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی خدمت کو نصب العین بنانے کے بجائے اعلیٰ افسران کی خوشامد اور ان کے ذاتی امور نبٹانے پر لگے رہتے ہیں جس سے سرکاری اداروں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب اس میں یہ قباحت بھی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کنٹریکٹ ملازمین ایمانداری سے سرکاری امور نبٹانے کے بجائے کرپشن اور بدعنوانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں چونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نوکری عارضی ہے اور پھر اس کے بعد بے روز گار ہونے کی صورت میں وہ مالی مسائل کا شکار ہو جائیں گے لہٰذا وہ ''جتنا سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو' کل کا پتہ نہیں'' کی پالیسی پر چلتے ہوئے ملکی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ناگزیر ہے کہ حکومت عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کا سلسلہ فی الفور بند کر کے مستقل بھرتیوں کا عمل شروع کرے اس سے سرکاری محکموں کی کارکردگی زیادہ بہتر ہو گی۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اور رشوت کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بھی ناگزیر ہے کہ احتساب کا عمل شروع کیا جائے کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کا عمل کمزور ہونے کے باعث بھی سرکاری محکموں کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔
معاشی ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عارضی اور ڈیلی ویجز پر بھرتیوں کے سلسلہ میں رشوت اور سفارش کا عمل دخل بڑھ جاتا ہے اور میرٹ پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے وزیراعظم نے سرکاری محکموں کے سربراہوں کو ہدایت کی ہے کہ بھرتیوں میں قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کیا جائے' بھرتی شفاف انداز میں اور میرٹ پر کی جائے۔ اگر بھرتیاں واقعی میرٹ پر کی جاتی ہیں تو یہ خوش کن امر ہے مگر سرکاری محکموں میں ماضی میں ہونے والی بھرتیوں کے تناظر میں میرٹ کی خلاف ورزی کے خدشات اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی حکومت ہر نوجوان کو روز گار فراہم نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔ نجی شعبہ ہی بڑی تعداد میں روز گار فراہم کرنے کا ضامن ہوتا ہے۔ مگر ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال' توانائی کے بحران اور سرکاری محکموں کی جانب سے بے جا رکاوٹوں اور سرخ فیتہ کے باعث نجی شعبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے حکومت بے روز گاری کے خاتمے کے لیے نجی شعبے کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔ نجی شعبہ جتنا مضبوط ہو گا' ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کرے گا۔امید ہے کہ حکومت روزگار کے مسائل حل کرنے کے لیے عارضی کے بجائے مستقل بھرتیوں پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔