فرد جرم

فرد جرم کا آخر کار کوئی انجام نہ ہو گا ماسوائے اس کے کہ مشرف غیر مشروط طور پر باہر جائیں گے ۔۔۔


Anis Baqar April 04, 2014
[email protected]

ملک میں جس جمہوریت کا ڈنکا بج رہا ہے اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کے جتنے لیڈر آج فعال نظرآ رہے ہیں یہ سب کے سب آمریت کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزارت خارجہ کا قلمدان سپرد کیا گیا ۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین کا بھارت پر گہرا اثر تھا۔ اس لیے روس کے شہر تاشقند میں امن معاہدہ کیا گیا جس کے دو فریق تھے۔ ایک بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری دوسری جانب جنرل محمد ایوب خان۔ یہ وہ جنگ تھی جس نے ایوب خان کی ساکھ کو بلند کیا مشرقی پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح مادر ملت کے مقابلے میں ایوب خان کو پسپائی ہوئی تھی مگر 1965ء کی جنگ نے مشرقی پاکستان کو بھی مغربی پاکستان سے قریب تر کر دیا اور وہاں بھی عوام پاکستان کے حق میں مظاہرے کر رہے تھے جس کی ایک مثال بنگلہ دیش کی سر زمین پر حالیہ کرکٹ میچ میں پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچ میں نظر آئی جہاں بنگالی نوجوان پاکستانی پرچم لہراتے پائے گئے اور حسینہ واجد اس کھیل میں ٹریپ ہو گئیں کہ کھیل سیاست کا منظر پیش کرنے لگا۔ دراصل یہ جھنڈے اس بات کے عکاس تھے کہ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات تسلیم کر لیے جاتے اور شیخ مجیب کو وزیر اعظم مان لیا جاتا تو آج بنگلہ دیش پاکستان کی فیڈریشن کا ایک حصہ ہوتا مگر آمریت کی گود میں پروان چڑھنے والی جمہوریت میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہوتی ہے کہ وہ اکثریت پر اقلیت کو غالب رکھنا چاہتی ہے اور اپنی خواہش کو مسلط کرنا چاہتی ہے۔

ایوب خان کی غلطیوں کو ابھار کر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے مگر اس کے باوجود کے پی اور بلوچستان پر نیشنل عوامی پارٹی کا غلبہ رہا اور مشرقی پاکستان کا انجام دیکھنے کے باوجود 1974ء میں بلوچستان پر فوج کشی کی گئی یعنی تاریخ سے کچھ نہ سیکھا گیا، حالانکہ شیخ مجیب کے خلاف آپریشن میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے دونوںدھڑے بھٹو کو برسراقتدار لانے میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے مجیب پر فرد جرم عاید کرنے کے خلاف کراچی میں جلسہ کیا 1971ء میں نیشنل عوامی پارٹی کراچی کے صدر انیس ہاشمی مرحوم کے ساتھ مل کر این ایس ایف جس کی قیادت امیر حیدر کاظمی اور میرے سپرد تھی ایک بڑا جلسہ کیا تھا اور مجیب الرحمن کے موقف کی حمایت کی وجہ سے کراچی میں اردو زبان بولنے والا طبقہ ہمارے خلاف ہو گیا تھا اور بار بار جلسہ گاہ سے غدار کے نعرے لگتے تھے مگر چونکہ مخالفت کرنے والا طبقہ کم تھا اس لیے جلسہ جاری رہا۔ غرض مختصر بات یہ ہے کہ آمریت کی گود سے جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی یہ دراصل ایسا مسئلہ ہے جس کو پینٹر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ بعض رنگوں کو ملانے سے بالکل نیا رنگ سامنے آتا ہے جیسے نیلے اور پیلے رنگ کو ملائیں تو سبز رنگ بن جائے گا۔

آئیے ذرا تاریخ کا ورق پلٹتے ہیں بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ کے بعد اقتدار لیا مگر مسند وزارت میں ایوب خان کے خدوخال موجود تھے، گو کہ ایوب خان کو بعض معنی میں لوگ ترقی پسند لیڈر کہتے تھے کہ انھوں نے چین سے سرحدی مسائل حل کیے، انڈسٹری کو ترقی دی مگر معروف انقلابی لیڈر حسن ناصر کو ان کی حکومت میں قتل کیا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جب بھی کوئی فوجی بغاوت کسی ملک میں ہوتی ہے اس کے پس پردہ سامراجی ممالک کی حمایت ہوتی ہے اور اس کی کابینہ میں شامل لوگ مستقبل کے لیڈر بن جاتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیں گو کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام میں مجموعی طور پر مقبول تھے مگر فروعی قسم کے معاملات کو لے کر مذہبی عناصر نے نظام مصطفیٰ کا نام لے کر تحریک چلائی اور درمیان سے جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا اور ملک میں مذہبی عناصر کو ملا کر انتہائی دائیں بازو کی حکومت قائم کر دی اور آج جو مرکزی حکومت قائم ہے، درحقیقت زیادہ تر وہ لوگ اقتدار میں ہیں جو صدر ضیا الحق کی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہیں گویا موجودہ حکومتوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سندھ کی موجودہ حکومت ایوب خان اور بھٹو کے مرکزی خیالات کی عکاس ہے اس میں شہید بے نظیر کا عکس کم ہے البتہ نیشنل ازم کی مہک زیادہ ہے۔ اسی طرح مرکزی حکومت کا بھی یہی حال ہے کہ نیشنل ازم کا رنگ گہرا ہے اور عوامی مفادات کا رنگ کم اور مذہبی اعتبار سے صدر ضیا الحق کا اثر زیادہ نظر آتا ہے اس کا اندازہ داخلہ اور خارجہ پالیسی کو دیکھ کر نظر آتا ہے بلکہ صورت حال یہ ہے ضیا الحق کے دور کی خارجہ پالیسی نہ صرف آج جاری ہے بلکہ صدر زرداری کے دور میں بھی کم و بیش یہی جاری رہی گویا خارجہ اور داخلہ پالیسی کا منبع ایک ہے کیونکہ ان کا مخرج ایک ہے۔ ذرا غور کریں کہ موجودہ جمہوریت کیا ہے این آر او کا جوس؟

لہٰذا اس کو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کسی جمہوری جدوجہد اور عوامی جدوجہد کا آئینہ دار ہے اور کہا بھی کیسے جا سکتا ہے کہ یہ حقیقی جمہوریت ہے مغل بادشاہوں کے طرز پر قلعے تعمیر کرنا اور اپنے گھر کے سپوتوں کو مسند جمہوریت کے ایوانوں میں پہنچانا۔ انتخابات کی صحت پر بھی کوئی سند عطا نہیں کی جا سکتی۔ آئے دن کوئی سیٹ خالی ہوتی ہے اور دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں اپوزیشن بھی مصنوعی ہوتی ہے ایک نے خود کو بائیں بازو کا ترجمان بنا رکھا ہے تو دوسرے نے دائیں بازو کا ترجمان جب کہ یہ بازو خود ساختہ ہیں ۔ آج کے دور میں بھوک اور پیاس سے قحط زدہ لوگ مر رہے ہوں اور پھر بھی عدل و انصاف کی اسلامی باتیں کرتے ہیں غضب خدا کا حضرت عمرٍ رضی اللہ کا یہ قول کس نے نہیں سنا کہ فرات کے ساحل پر کوئی کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو عمرؓ اس کا ذمے دار ہوگا حضرت علی شیر خدا کا یہ قول بھی ان اسلام پسندوں نے نہیں سنا کہ خدا کی قسم اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ چیونٹی کے منہ سے بھوسے کا یہ ذرہ چھین لو تو میں یہ ترجیح دوں گا کہ تخت خلافت چھوڑ دوں ۔

مگر تھر میں سیکڑوں مر رہے ہیں اور انصاف کی گردن یوں ہی ٹیڑھی ہے کہاں کی جمہوریت کہاں کا انصاف۔ کسی آمر سے جدوجہد کے نتیجے میں کیا یہ جمہوریت آئی ہے؟ بلکہ یہ تو صدر مشرف کا تحفہ ہے جو ایک آمر تھا مگر عام آدمی صبح کا ناشتہ اور دو وقت روٹی کھاتا تھا افسوس کہ ایک ڈیڑھ روپیہ پٹرول پر کم کر کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اس وقت عام آدمی جس کی تنخواہ 10 یا 15 ہزار ہے وہ کرایے کے گھر میں کیسے رہتا ہو گا ان کے اہل خانہ کیا کرتے ہوں گے۔ ان کے بچے اسکول کیسے جاتے ہوں گے وہ چائے روٹی سے ناشتہ کرتے ہیں دوپہر کو بھوکے السر کے مریض بن رہے ہیں، رات کو صرف کھانا کھاتے ہیں۔ کیا یہی جمہوریت ہے اس جمہوریت اور آمریت میں کون سی چیز بہتر ہے یہی وجہ ہے ملک میں شورش، بدنظمی، ہتھیار اٹھانے کا عمل، خودسوزی، بغاوت جاری ہے۔ پرویز مشرف نے بلاشبہ ایک چلتی ہوئی حکومت کو برطرف کیا مگر یہ کیا بہروپ ہے کہ جمہوری قانون شکنی پر فرد جرم عاید کی جا رہی ہے گویا اقتدار کو چیلنج کرنا کوئی جرم نہیں عدلیہ کو چیلنج کرنا جرم ہے۔

یہ عجیب فرد جرم ہے، اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بنیادی جرم اس لیے عاید نہیں کیا گیا کہ آدھا وزن عدلیہ کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا عدلیہ نے مشرف زرداری کیس میں 31 مارچ کو فرد جرم عاید کی مگر پرویز مشرف نے فرد جرم سے انکار کیا کیونکہ ملک کا کمانڈر انچیف اگر غدار ہوتا تو پھر پاکستان قائم نہ رہتا۔ ایک مصنوعی جنگ سے ملک لخت لخت ہو جاتا ابھی تک High Treason کا صحیح ترجمہ بھی سامنے نہ آ سکا کہ مشرف نے قانون شکنی کی یا بغاوت اگر کی تو عوام سے یا حکومت سے اگر حکومت سے کی تو وہ خود حکومت میں تھے خیر یہ بحث لاحاصل ہو رہی ہے ۔ اگر باغی جرنیل ملک پر دس برس رہا تو پھر بھی ملک موجود ہے بغاوت کی منطق عجیب و غریب ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج حکمراں پارٹی خود دو حصوں میں بٹ چکی ہے کیونکہ پاکستان میں جمہوریت کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں محسنؔ بھوپالی نے خوب کہا ہے:

تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے

فرد جرم کا آخر کار کوئی انجام نہ ہو گا ماسوائے اس کے کہ مشرف غیر مشروط طور پر باہر جائیں گے اور نام نہاد جمہوری لیڈروں پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں