انتخابات کی منسوخی کے نقصانات

بلدیاتی انتخابات میں التوا کے لیے بار بار مختلف حیلوں بہانوں سے کوششیں کی جارہی ہیں


ضیا الرحمٰن ضیا December 29, 2022
بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ رویہ قابل مذمت ہے۔ (فوٹو: فائل)

اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات دوسری مرتبہ بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔ اس سے قبل مئی میں الیکشن کمیشن نے انتخابات کا اعلان کیا اور امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے لیکن یونین کونسلوں کی تعداد کو مسئلہ بنا کر انتخابات کو ملتوی کردیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے یونین کونسلوں کی تعداد پچاس سے بڑھا کر ایک سو ایک کردی اور اکتوبر میں دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا۔ امیدواروں نے انتہائی جوش و خروش سے فارم لیے اور پُر کرکے جمع کروائے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاری زور و شور سے شروع کردی۔ انتخابات کی تاریخ 31 دسمبر مقرر کی گئی۔ الیکشن کمیشن اپنی طرف سے تیاریاں کررہا تھا اور امیدوار اپنے طور پر تیاریوں میں مشغول تھے۔ بالآخر الیکشن کمیشن نے تیاریاں تقریباً مکمل کرلیں، بیلٹ پیپر بھی تیار ہوچکے ہوں گے اور اس کے علاوہ بھی الیکشن کےلیے جتنی بھی ضروریات ہوتی ہیں ان کا انتظام بھی ہوچکا ہوگا۔

اسی طرح امیدواروں نے بھی بہت بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلائی اور بہت خرچ بھی کیا۔ ظاہر ہے انتخابات کی تیاری میں خرچہ تو بہت ہوتا ہے۔ اس کےلیے جلسے کرانا، کارنر میٹنگز رکھنا، لوگوں کے پاس آنا جانا، کھلانا پلانا وغیرہ۔ اشتہارات، بینروں اور پینافلیکس پر ہونے والا خرچہ اس کے علاوہ ہے۔ یوں الیکشن پر کروڑوں روپے خرچ ہوگئے۔

الیکشن کمیشن کا خرچہ علیحدہ ہوتا ہے اور امیدواروں کا علیحدہ اور محنت ومشقت الگ سے اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے ایک بار پھر الیکشن ملتوی کرانے کےلیے کوششیں شروع کردیں اور عدالت میں یہ درخواست دائر کی کہ اسلام آباد میں یونین کونسلوں کی اصل تعداد 125 ہے لیکن الیکشن 101 یونین کونسلوں پر کرائے جارہے ہیں۔

ان درخواست دہندگان سے یہ پوچھا جائے کہ جب الیکشن کمیشن نے انتخابات کا اعلان کیا تھا تب وہ کہاں تھے؟ تب انہیں معلوم نہیں تھا کہ یونین کونسلوں کی تعداد کتنی ہے اور کتنی یونین کونسلوں پر انتخابات ہورہے ہیں؟ ٹھیک ہے جتنی یونین کونسلیں ہونی چاہئیں انہی پر انتخابات ہوں مگر یہ بات تو پہلے سوچنی چاہیے تھی جب انتخابی امیدواروں نے ابھی فارم بھی نہیں لیے تھے یا فارم لے لیے تھے لیکن جمع نہیں کروائے تھے، اس وقت یہ اقدام کرنا چاہیے تھا۔ اب جبکہ انہوں سب کچھ کرلیا، انتخابات کی تیاریاں بھی مکمل ہوگئیں اور انتخابی مہم ختم ہونے کا وقت ہوا تب انہیں خیال آیا کہ یونین کونسلوں کی تعداد درست نہیں اور انتخابات ایک بار پھر منسوخ ہوجانے چاہئیں۔

انتخابات کی تیاری میں کتنا زیادہ خرچ آتا ہے جو الیکشن کمیشن کرتا ہے وہ تو براہ راست ملکی اور قومی خزانے سے ہوتا ہے۔ بیلٹ پیپرز کی فراہمی، بیلٹ باکس کی فراہمی، انتخابی فہرستوں کی تیاری ، پولنگ اسٹیشنز کی تیاری، ان سب چیزوں پر کروڑوں روپے کا خرچ آتا ہے۔ اسلام آباد میں 101 یونین کونسلیں ہیں اور ہر یونین کونسل میں چھ وارڈ جنرل ہیں، یوتھ کونسلر، لیڈی کونسلر، کسان کونسلر، اقلیتی کونسلر، چیئرمین اور وائس چیئرمین الگ ہیں۔ ہر یونین کونسل میں کم از کم دو، تین یا چار اور کہیں اس سے بھی زیادہ پینل بنے ہوئے ہیں، تین سے کم پینل شاید ہی کسی یونین کونسل میں ہوں۔ تو اتنے زیادہ پینلوں اور امیدواروں کےلیے اتنی زیادہ یونین کونسلوں اور ان کے امیدواروں کےلیے انتخابات کی تیاری پر اچھا خاصا خرچہ ہوتا ہے۔ اس سب تیاری کے بعد انتخابات کو منسوخ کردینا بڑی زیادتی ہے۔

انتخابات کی منسوخی کے بعد ایک بار پھر یہ سارے اخراجات اٹھانا پڑیں گے۔ یا تو بلدیاتی انتخابات ہی نہ کروائیں لیکن وہ بھی تو عوام کے ساتھ زیادتی ہے کہ ان کے حقیقی نمائندے جو بلدیاتی نمائندے ہوتے ہیں وہ انہیں حاصل نہ ہوں اور عوامی سطح پر اختیارات منتقل نہ ہوں تو یہ جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ اور جب انتخابات کروانے ہی ہیں تو پھر اس پر دوبارہ سے یہ سب اخراجات اور محنت ہوگی۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے یہ رویہ قابل مذمت ہے۔ اس فیصلے سے ہٹ کر بھی اگر ہم اپنے معاشرتی رویوں پر بات کریں تو یہ انتہائی نامناسب حرکت ہے کہ جب انتخابات کی تیاری مکمل ہوجائے تو اس کے بعد انتخابات کو منسوخ کروا دیا جائے۔

بلدیاتی انتخابات جو ہر پانچ سال کے بعد منعقد ہونے چاہئیں وہ پہلے ہی سات سال کے بعد منعقد ہونے جارہے تھے۔ لیکن ان میں بھی بار بار مختلف حیلوں بہانوں سے رخنہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کبھی یونین کونسلوں کی تعداد کا بہانہ، کبھی دہشت گردی کا بہانہ اور کبھی سیکیورٹی کے معاملات کا بہانہ بنا کر حکومت ان کو ملتوی کروانا چاہتی ہے کیونکہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ حکومتیں بلدیاتی انتخابات نہیں کروانا چاہتیں۔ ہمارے ایم این ایز اور اے ایم پی ایز خاص طور پر اس میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس طرح سے ان کے اختیارات کم ہوجاتے ہیں، انہیں اپنے کام یعنی قانون سازی میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ بھی گلیاں اور نالیاں بنوا کر ہی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنا کام یعنی ملک کےلیے بہترین قوانین لانے کا فریضہ سر انجام دیں اور بلدیاتی انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالیں اور عوام کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے دیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔