غلط رسوم و رواج کے خاتمے کا قانون
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر بیس منٹ میں ایک عورت کی زچگی کے دوران موت واقع ہوتی ہے۔۔۔
قومی اسمبلی کی مختلف کمیٹیوں اورخود اسمبلی میں تین سال تک زیر التوا رہنے کے بعد بالآخر نومبر 2011 میں عورتوں کے خلاف رسوم و رواج کے خاتمے کا بل منظور ہوا۔ اس قانون کا مسودہ مسلم لیگ (ق) کی ڈاکٹر دونیا عزیز نے تیار کیا تھا جسے چند ترامیم کے بعد ایک خاتون اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی سربراہی میں قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس بل کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے عورتوں کے خلاف سماجی ممنوعات جیسے عورتوں کو وراثت سے محروم کرنا یا جھگڑوں کا تصفیہ کرنے کے لیے ان کی زبردستی شادی کرنا جیسے مسائل کے بارے میں مشترکہ طور پر دردمندی اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ اس قانون کے تحت ونی، سوارا یا بدل صلح جیسے رواجوں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئیں۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ عورتوں کے خلاف رسوم و رواج پر عمل درآمد کرنیوالوں کے لیے کم ازکم سزائیں مقرر کی گئیں لیکن بات گھوم پھر کے وہیں آجاتی ہے کہ جب تک کسی قانون پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جائے گا، اس کی افادیت سوالیہ نشان رہے گی۔
کوئی ایسا طریقہ کار ہونا ضروری ہے کہ اس طرح کے کیسز کی رپورٹنگ کو یقینی بنایا جائے اور عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے کیونکہ اس طرح کے جرائم بلاروک ٹوک جاری رہتے ہیں۔ عورتوں کے خلاف ہونے والی سماجی ناانصافیوں کو کم کرنے کے لیے سخت سزائیں دینا ضروری ہے۔اس قانون نے پاکستان کے ضابطہ تعزیر میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اس میں عورتوں کے خلاف ہونیوالے تین جرائم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک تو عورت کو وراثت کے جائز اور قانونی حق سے دھوکے سے یا غیر قانونی طریقے سے محروم کرنا۔ اس کے لیے پانچ تا دس سال قید کی سزا اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کسی سول یا کریمنل جھگڑے کو طے کرنے کے لیے عورت کا رشتہ کرانا یا اسے زبردستی شادی پر مجبور کرنا بھی جرم ہے۔ اس کے لیے تین تا سات سال قید کے ساتھ 5 لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
اسی طرح قرآن کے ساتھ عورت کی شادی کرانا بھی جرم ہے۔ اس کے لیے تین تا سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت پاکستان کے کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کرکے زنا بالجبر کے مجرموں کی سزا کو معطل یا معاف کرنا صوبائی حکومتوں کے لیے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اب صوبائی حکومتیں اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکیں گی۔اس طرح کے قوانین عورتوں کے حقوق کے حصول اور ان پر تشدد کے خاتمے کے لیے برسوں سے کی جانیوالی انفرادی اور تنظیمی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق صنفی بنیاد پر کیا جانے الا کوئی بھی تشدد جس کا نتیجہ عورتوں کی جسمانی، ذہنی یا جنسی تکلیف کی صورت میں نکلے یا اس طرح کے کسی اقدام کی دھمکی دینا اور عورت کی آزادی پر قدغن لگانا تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں جذباتی زیادتی، اقتصادی زیادتی، مردانہ دھونس، بچوں کو مہرہ بنانا، تشدد کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے اسے ثقافت کا حصہ قرار دینا، تشدد کا اعتراف نہ کرنا یا عورت کو ہی مورد الزام ٹھہرانا۔ عورت فاؤنڈیشن سمجھتی ہے کہ جبری شادی اور عورت کو وراثت سے محروم کرنا بھی تشدد کی ایک شکل ہی ہے۔
اس کے علاوہ دوسری شکلیں بھی ہیں جن کا تعلق مرد کے اختیارات اور کنٹرول سے ہے۔پاکستانی معاشرے میں مرد کے اختیارات سب سے زیادہ شادی کے ادارے میں نظر آتے ہیں۔ شادی دو فریقوں کے ملاپ کا نام ہے اور یہ دو بالغ افراد کی باہمی رضامندی سے طے پاتی ہے۔ اسلامی قانون کیمطابق عورت اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔ زور زبردستی سے کرائے جانے والے نکاح کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔Pakistan Child Marriage Restraint Act 1929 کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کا لڑکا اور سولہ سال سے کم عمر کی لڑکی کو بچہ مانا جاتا ہے جب کہ سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ شادی کے لیے لڑکا اور لڑکی دونوں کی کم سے کم عمر 18 سال قرار دی جائے۔ پاکستان کے آئین کیمطابق قانون کی نظر میں سارے شہری برابر ہیں اور جنس کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے، شادی، خاندان اور ماں اور بچے کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔ پاکستانی ضابطہ تعزیرات کے سیکشن 310-A کے مطابق اگر کسی عورت کی زبردستی شادی جیسے بدل صلح، ونی یا سوارا یا کسی دوسری رسم کے تحت کی جائے گی تو اس کے لیے کم سے کم 3 سال اور زیادہ سے زیادہ 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ہوسکتا ہے۔
پی پی سی سیکشن 498-B کے تحت زور و جبر کے ذریعے کسی عورت کو شادی پر مجبور کرنے کی سزا 3 تا دس سال اور جرمانہ 5 لاکھ ہے۔ 498-C کے مطابق قرآن سے شادی کرانے کی سزا 3 تا سات سال اور پانچ لاکھ جرمانہ ہے۔ قرآن سے شادی سے مراد کسی عورت کو قرآن پر ہاتھ رکھ کے یہ قسم اٹھانے پر مجبور کرنا ہے کہ وہ زندگی بھر غیر شادی شدہ رہے گی اور وراثت میں اپنا حصہ نہیں مانگے گی۔پاکستان میں شادیاں یا تو والدین طے کراتے ہیں یا نوجوان محبت کی شادی کرتے ہیں یا پھر زبردستی شادی کرائی جاتی ہے جیسے ادلے بدلے کی شادی یا بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی طے کرلینا کہ ان کی شادی کی جائے گی۔ یا قتل یا کسی جھگڑے کے تصفیہ یا قرض معاف کرانے کے لیے اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر کردینا۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں اس رسم کے مختلف نام ہیں۔ پنجاب میں اسے ونی، سندھ میں سنگ چٹی، خیبر پختونخوا میں سوارا اور بلوچستان میں اسے لجائی یا خاسانیے ثور کہتے ہیں۔بچپن کی شادی بھی لڑکی کی مرضی کے بغیر ہوتی ہے جب کہ اسلام میں فریقین کی رضامندی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق شادی کرنیوالے شخص کے قانونی سرپرست کو ولی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر والد، چچا، بھائی اور شادی کے بعد شوہر کو عورت کا ولی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن عورت کو شادی کے لیے ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ جبری شادیوں کے عورتوں کی صحت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں انھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر بیس منٹ میں ایک عورت کی زچگی کے دوران موت واقع ہوتی ہے۔سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے حقوق کو انسانی حقوق سمجھا جائے رسوم و رواج کی آڑ میں دونوں کی انسانی ترقی کے مواقعے کو سلب نہ کیا جائے اور عورتوں کے خلاف رسوم و رواج کے خاتمے کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔