جماعت کا سراج
مشورہ دیا گیا تھا کہ بزرگ تربیتی امور کے کرتا دھرتا ہوں تو سیاسی معاملات نوجوانوں کے حوالے کردیے جائیں
جماعت اسلامی کے 2014 کے انتخابات میں اراکین نے جناب سراج الحق کو پانچ برسوں کے لیے امیر منتخب کیا ہے۔ پچیس ہزار ممبران کا یہ فیصلہ اپ سیٹ کہا جاسکتا ہے۔ اس مرتبہ ارکان نے دو روایتوں کو توڑا ہے۔ جماعت کی 75 سالہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ موجودہ امیر کو منتخب نہ کیا گیا ہو۔ مولانا مودودی، میاں طفیل محمد اور قاضی حسین کو ان کی زندگی میں ان کی معذرت کے بعد بھی منتخب نہ کیا گیا۔ سید منور حسن نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ روایات کی پاسبان پارٹی کی دوسری روایت شکنی سے قبل اس کی انتخابی تاریخ بیان کرنا لازمی ہے۔
مولانا مودودی نے 41 میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے سیاسی پارٹیوں کی تاریخ میں انتخابی جمہوریت کا انوکھا انداز متعارف کروایا۔ انتخاب کے ساتھ ووٹر اور بیلٹ پیپر تو ہوں لیکن امید وارکوئی نہ ہو۔ عہدے کا طلب گار ''نااہل'' قرار پاتا ہے۔ ناظم انتخاب ہو، ووٹوں کی گنتی ہو اور کامیاب شخص کا نام ہو لیکن نہ کنوینسنگ ہو، نہ ووٹر سے رابطہ اور نہ پروپیگنڈہ۔ ایک عجیب و غریب پارٹی اور انوکھے انتخابات۔ نہ جیتنے والے کو ہار پہنائے جائیں، نہ وکٹری کا نشان ہو اور نہ کوئی ہارنے والا ہو۔ جب کوئی ازخود امیدوار ہی نہ ہو تو ناکامی کیسی؟ گروہ بندی اور انتخابی مہم کے بغیر ہونے والے انتخابات بڑے پھیکے ہوتے ہیں لیکن جب نتیجہ آتا ہے تو سیاست سے دلچسپی رکھنے والے عوام، دانشور، صحافی اور سیاسی کارکن اسے خوشگوار حیرت سے دیکھتے ہیں۔ حلف برداری کے موقعے پر نہ دھوم دھڑکا اور نہ ہنگامہ۔ نہ شور شرابہ اور نہ فوٹو سیشن۔ نہ رقص و بھنگڑے اور نہ مبارک سلامت۔
5+22+15+31 کو دیکھا جائے تو یہ مولانا مودودی، میاں طفیل، قاضی حسین اور منور حسن کا عرصہ امارت قرار پاتا ہے۔ سن 72 میں جماعت کے بانی کی معذرت کے بعد یہ عہدہ میاں طفیل محمد کو ملا۔ وہ تین مرتبہ انتخابات کے ذریعے جماعت کے امیر منتخب ہوئے۔ قاضی حسین احمد پانچ مرتبہ منتخب ہوئے۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کے معاملے پر اختلافات کے سبب استعفے کے بعد قاضی صاحب کو پھر منتخب کیا گیا۔ 2009 میں معذرت کے بعد پانچ برسوں کے لیے سید منورحسن کا انتخاب ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حاضر اور موجود امیر کی عدم معذرت کے باوجود اراکین نے سید منور حسن کے بجائے جناب سراج الحق پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ پہلی روایت تھی جو جماعت کے اراکین نے توڑی۔ دوسری روایت شکنی سے پہلے جماعت کے انتخابی نظام پر یہ دلچسپ گفتگو سیاست کے طالب علموں کے لیے مفید ہوگی۔
امیدوار نہ ہونے کے باوجود جماعت کی شوریٰ اراکین کی آسانی کے لیے تین نام دیتی ہے۔ بیلٹ پیپر پر چوتھا خانہ بھی ہوتا ہے۔ اگر اراکین چاہیں تو تینوں ناموں کو مسترد کرکے چوتھے کو بھی اپنا امیر منتخب کرسکتے ہیں۔ 1999 سے جماعت کے ان تین ناموں پر گفتگو کریں تو نظر آتا ہے کہ قاضی حسین احمد کے ساتھ پروفیسر خورشید اور مولانا جان محمد عباسی کا نام تھا۔ قاضی صاحب نے امیر منتخب ہونے کے بعد دونوں حضرات کو نائب امرا بنایا۔ پانچ برسوں بعد ہونے والے انتخابات میں قاضی حسین کے ساتھ منور حسن اور لیاقت بلوچ کا نام تھا۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تین امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ سیکولر و لبرل طبقے کے دانشور ایک سیاسی پارٹی کے جمہوری نظام کی تعریف کے بجائے شخصیت اور ان کے ناموں کو اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قاضی حسین نے منور حسن کو جنرل سیکریٹری اور لیاقت بلوچ کو نائب امیر نامزد کیا۔ گویا اپنے ہی ''حریفوں'' کو بڑے بڑے عہدے دیے۔ اس طرح شوریٰ نے 2009 کے انتخابات میں منور حسن، لیاقت بلوچ اور سراج الحق کا نام دیا۔ امیر منتخب ہونے والے نے ایک کو جنرل سیکریٹری اور ایک کو نائب امیر بنایا۔
دوسری روایت جو اس مرتبہ جماعت کے اراکین نے توڑی ہے وہ بھی دلچسپ ہے۔ جماعت اپنے موجودہ امیر کو منتخب کرتی ہے اور جب معذرت ہو تو وہ اپنے جنرل سیکریٹری کو امیر منتخب کرلیتی ہے۔ لیاقت بلوچ کو امیر نہ بناکر جماعت نے دوسری روایت بھی توڑ دی ہے۔ مولانا مودودی کے دور میں میاں طفیل جماعت کے جنرل سیکریٹری سے امیر بنے تھے۔ یہی تاریخ قاضی حسین اور منور حسن کے حوالے سے بھی ہے۔ اب تک اراکین معذرت کرنے والے کے نامزد جنرل سیکریٹری کو ذمے داری دینے کو امیر کا اشارہ سمجھتے تھے۔ اس مرتبہ جماعت نے یہ اپ سیٹ کردیا ہے۔ کیا یہ آنجہانی سوویت روس کی بزرگ قیادت کی پے درپے تبدیلی سے سبق ہے؟
نظریاتی تنظیموں میں عام کارکن بڑے عہدے تک آتے آتے بوڑھا ہوجاتا ہے۔ جماعت میں وہی خطرہ تھا جو روس کی کمیونسٹ حکومت کے سربراہوں کو تھا۔ انتہائی بزرگ رہنما برسر اقتدار آکر چند برسوں اور بعض اوقات چند مہینوں میں دنیا سے رخصت ہوجاتے۔ محمود شام نے ایک کتاب کے افتتاح کے موقعے پر مزاحیہ انداز میں کہا کہ بار بار آخری رسومات سے تنگ آکر روس کے پروٹوکول افسران دوسرے ممالک کے سربراہوں سے کہتے کہ ''آپ اکثر آتے ہیں کبھی ہمیں بھی بلائیں''۔ جماعت کے اراکین نے اس خطرے کو بھانپ لیا۔ اس سے قبل کہ گوربا چوف کی طرح ساٹھ سالہ قیادت کو نوجوان کیا جائے، جماعت نے نسبتاً کم عمر قیادت کو ذمے داریاں سونپی ہیں۔ اس حوالے سے راقم کا اگست 2013 میں شایع ہونے والا کالم اور اس کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔ قارئین دیکھیں کہ ووٹر اراکین نے ''ایکسپریس'' کی بات کو کتنی سنجیدگی سے لیا۔
''جماعت اسلامی کامیاب یا ناکام'' میں مشورہ دیا گیا تھا کہ بزرگ تربیتی امور کے کرتا دھرتا ہوں تو سیاسی معاملات نوجوانوں کے حوالے کردیے جائیں۔ چالیس پچاس سال تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل، کمیٹڈ اور تجربہ کار ناموں کی ضرورت نہیں لیکن سمجھانے کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی قیادت سراج الحق، ڈاکٹر معراج الہدیٰ، حافظ نعیم الرحمن، امیرالعظیم، شبیر احمد اور حالیہ برسوں میں فارغ ہونے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمین اعلیٰ کے حوالے کردی جائے۔سیاست شباب کے حوالے تو تربیت تجربے کے سپرد۔ لوہا گرم ہے۔ عوام کرپشن سے تنگ ہیں اور مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بزرگ قیادت میڈیا کی بھرمار اور تیز رفتار ایجادات و ٹیکنالوجی کو نہ سمجھ کر یہ موقع کھودے گی۔ پندرہ منٹ میں دو مرتبہ کالم پڑھنے والے جماعت کے ارکان کو ہاں یا ناں کا فیصلہ پندرہ سیکنڈ میں کرلینا چاہیے۔ پھر بے شک غور کے لیے پندرہ ہفتے میں پندرہ اجلاس ہوجائیں۔ اگر پندرہ ماہ یعنی 2015 تک ہوسکنے والے کام کو پندرہ سال تک پھیلا کر آج کی نوجوان قیادت کو بوڑھا کردیا گیا تو پندرہویں صدی تک بھی جماعت وہیں کی وہیں کھڑی ہوگی۔ چاہے اس کے قیام کو پندرہ عشرے ہی کیوں نہ بیت جائیں۔
اراکین جماعت نے بیلٹ کی اہمیت کو سمجھا اور دو روایات کو توڑ دیا۔ اگر جماعت لکیر کی فقیر بنتی تو سراج الحق کی باری سن 2029 میں آتی۔ باون سالہ شخص کی عمر 70 کے قریب ہوجاتی۔ یہ وہ سبق ہے جو جماعت نے اپنے جمہوری نظام کی بدولت سیکھا۔ پاکستان کی واحد پارٹی کہ نہ جس کا نام بدلا اور نہ مقاصد اور نہ اس میں کوئی گروہ بندی ہوئی۔ دیر میں پیدا ہونے والے کو پنجاب اور کراچی کے ارکان کی اکثریت نے اپنا قائد منتخب کیا ہے۔ صوبے کا وزیر خزانہ چھ برسوں تک عہدے پر رہنے کے باوجود کرائے کے مکان میں رہ رہا ہے۔ حیرت ہے کہ جماعت ان خوبیوں کے باوجود کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرسکی اور نہ دشمن وقت اسے ختم کرسکا۔ آٹھویں عشرے میں داخل ہونے والی جماعت ایک بڑی پارٹی بننے اور کامیابی کا سورج طلوع ہونے کی تمنا رکھتی ہے۔ کیا سراج الحق بنیں گے جماعت کا سراج۔