خاص آدمی پارٹی
یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ اس الیکشن میں نہیں تو آیندہ الیکشن میں پورے انڈیا میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی حکومت ہوگی
دہلی کے انتخاب میں جیتنے والی ''عام آدمی پارٹی'' جس کے لیڈر اروند کیجری وال ان دنوں اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے ''بے جے پی (BJP)'' کے سینئر رہنما نریندر مودی کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ نریندر مودی کو ان کی جماعت نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے بھی نامزد کیا ہے اور وہ بھارت کے ایک صاحب حیثیت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب کہ اروند کیجری وال ایک بالکل غریب، مفلوک الحال اور مڈل کلاس طبقے کی نمایندگی کرتے ہیں۔ ان کی جماعت ''عام آدمی پارٹی'' واقعی عام لوگوں پر مشتمل ہے۔ پہلے ان کی جماعت نے صرف دہلی کے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ اروند کیجری وال جیت کر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، پھر بوجوہ انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اب ان کی جماعت بھارت میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کا منشور عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہے، ایک غریب شخص کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ موجودہ انتخابات میں ان کی جماعت روز افزوں ترقی پر ہے اور تیزی کے ساتھ عوامی مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس جیسی بڑی جماعتوں کے مقابلے میں تیسری قوت کے طور پر ابھررہی ہے۔ اروند کیجری وال خود بھی ایک منکسر المزاج اور صاف گو انسان ہیں جو بات دل میں ہو اسے فوراً زبان پر لے آتے ہیں۔لہٰذا ان دنوں وہ جہاں جہاں اپنی جماعت کے منشور کو لے کر دورہ کررہے ہیں وہاں ان پر BJPاور کانگریس کے کارکنان حملہ کردیتے ہیں۔ مختلف طور طریقوں سے انھیں ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے۔ لیکن وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب کہ ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی شہرت اور عوامی پذیرائی میں اضافے سے محسوس ہوتاہے کہ عوام ان کے نقطہ نظر سے متاثر ہورہے ہیں۔
جوق در جوق ''عام آدمی پارٹی'' میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ اس الیکشن میں نہیں تو آیندہ الیکشن میں پورے انڈیا میں ''عام آدمی پارٹی'' کی حکومت ہوگی، عام آدمی رکن پارلیمنٹ ہوگا۔ انڈیا کا وزیراعظم ہوگا، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہوں گے اور وہ انقلاب جس کی بنیاد ''عام آدمی پارٹی'' بناکر رکھی جاچکی ہے، بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ جس کے بعد انڈیا کی ترقی کی رفتار کو ناپنا آسان نہ ہوگا۔ کیوں کہ وہاں سوا ارب لوگ حکومت کررہے ہوں گے اور جہاں سوا ارب لوگ یا تو حکومت میں ہوں یا خود کو حکومت کا حصہ سمجھتے ہوں وہاں ہر فرد اتنی شدت کے ساتھ محنت کرے گا اور اس جذبہ حب الوطنی کے ساتھ کام کرے گا کہ بھارت کا نصیب سنور جائے گا۔ جب کہ ''عام آدمی پارٹی'' کی حکومت میں عام آدمی کے مسائل حل ہوں گے اور وہ ترقی کرے گا اور جو طرز معاشرت قائم ہوگی وہ بھی بہت سادگی، خلوص اور اپنائیت لیے ہوئے ہوگی۔ ممکن ہے کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہ محض گمان یا خیال ثابت ہو اور حقیقت اس کے برعکس نکل آئے لیکن میری سوچ کسی ''یوٹوپیا'' کی طرز پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کا اظہار دہلی کے انتخابات میں عوام الناس کی جانب سے ہوچکا ہے۔ جب وہاں پر ووٹرز نے کانگریس ''BJP'' جنتا ؤں سمیت ہر جماعت کو مسترد کرتے ہوئے اکثریت رائے سے ''عام آدمی پارٹی'' کے امیدواران کو منتخب کیا اور کم از کم ایک ریاست میں ان کی حکومت قائم ہوئی اور حکومت کے قیام کے ساتھ ہی منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے فی الفور گیس، بجلی اور پانی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ وہ انڈیا کے 90 فی صد طبقے کے حقیقی اور مخلص نمایندے ہیں۔ میں یہ سب لکھ کر خدانخواستہ فوری طور پر بھارت اور پاکستان کی جمہوریتوں کا کوئی تقابلی جائیزہ لینے نہیں جا رہا۔ بلکہ میرا مقصد اس تحریر سے ایک عام آدمی تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ اگر وہ سب کسی ایک نقطے پر متفق ہوجائیں اور اس نقطے کو باقی تمام چیزوں پر اولیت دیں تو پاکستان میں بھی ایک عام آدمی کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ سردست ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیوں کہ انڈیا میں آزاد ہونے کے بعد شاید صرف ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے ان کی آرمی نے ایمرجنسی Declair کی تھی جب کہ باقی تمام عرصہ وہاں پر جمہوریت قائم رہی ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ الیکشن ہوتے رہے اور ان کی بنیاد پر بننے والی حکومتوں نے کم و بیش اپنی طے شدہ مدت پوری کی ہے۔ یا اگر کسی بر سر اقتدار جماعت کے پاس پارلیمانی اکثریت باقی نہیں رہی تب بھی اس نے وسط مدتی انتخابات کروائے، لیکن نظام صرف... جمہوریت۔ باقی کچھ اور قابل قبول نہیں رہا۔
در اصل ''خاص آدمی پارٹی'' ہی وہ بنیادی فرق ہے جسے لے کر وہ ترقی پر اور ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے 98 فی صد لوگوں نے بد قسمتی سے ملک میں منعقد ہونے والے ہر الیکشن میں امرا، نوابین، جاگیردار، مل مالکان، حتیٰ کہ جرنیلز تک کو منتخب کیا ہے۔ ہر مرتبہ بڑھ چڑھ کر انھیں اپنے ووٹوں سے نوازا بلکہ سر فراز کیا ہے۔ کیوں کیا؟ اس کی وجوہات پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے تو جو ہونا تھا وہی ہوا اس پر بات کرنی چاہیے۔ وہ 2 فی صد طبقہ کبھی بھی کسی بھی طبقے کے مسائل سے واقف نہیں تھا۔ امرا کی یہ معمولی سی تعداد کبھی غربا کے اس جم غفیر میں اٹھی بیٹھی ہی نہیں، لہٰذا مسئلے نہ حل ہونے تھے نہ حل ہوئے۔حکومتی آتی جاتی رہیں۔ مارشل لاء بھی وقتاً فوقتاً لگتے رہے اور 98 فی صد آبادی کا یہ جم غفیر ہر حکومت کو، مارشل لا، ایڈمنسٹریٹر کو اپنا مسیحا جان کر ان کے لیے نعرے لگاتار ہا۔ ان کی حمایت میں جلسے جلوس نکالتا رہا ۔ مظاہرے کرتا رہا اور اپنے ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے غربا کے گھروں اور دکانوں کو توڑتا، جلاتا رہا ۔ ان کے منتخب کردہ آقا ہزاروں ارب لوٹ کر بیرون ملک بھی اپنی ریاستیں قائم کرتے رہے لیکن 98 فی صد اس طبقے کے کان پر جوں نہ رینگ سکی، یہ مست رہا اپنے حالوں میں اور کہتا رہا کہ خدا کی یہی مرضی تھی بھائی جو مل گیا وہی نصیب تھا زیادہ کا کیا کرنا ہے۔ہنسی کی بات یہ ہے کہ کہنے والے کے پاس تھوڑا سا بھی نہیں ہوتا۔ اب آتے ہیں اس وجہ پر کہ پاکستان میں آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہ ابتدا ہی سے ایک بہت بڑا طبقہ ایک قلیل طبقے کو منتخب کرتا رہا اور کر رہا ہے۔ جب کہ فطرت کے بنیادی اور عام اصول کے مطابق بھی جو اکثریت میں ہے حق حکمرانی بھی اسی کو ملنا چاہیے۔
میں اپنی دانست میں اس وجہ کو نسلی، عصبیت، صوبائی، ذات، برادری میں منقسم ہونے کو گردانتاہوں اور برملا کہتاہوں کہ ملک کا یہ 98 فیصد طبقہ مکمل طور پر مندرجہ بالا درجات میں بٹا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ نفس کا ایسا بہکاوا جسے ہم نے خدا بنالیاہے اور جہالت کی ضعیف ترین حالت جہل کا سب سے نچلا درجہ جس کا علم اٹھائے ہم اپنی اپنی ذات، برادری کے فاتح عالم بنے ہوئے ہیں۔ سر ہے کہ غرور سے اکڑ کر جھکنے کے لیے تیار نہیں اور پیٹ ہے کہ مسلسل فاقوں سے کبھی بھرتا نہیں۔یہ تقسیم ہمارے متحد ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یا ہمارے ایک جتھہ بننے کی راہ میں حائل ہے، ہم واقف ہی نہیں کہ ذات برادری یا فرقہ بندی نے ہمیں آج تک دیا ہی کیا ہے۔
ارے بھائی آپ کچھ بھی ہیں کہ کچھ بھی ہونے سے آپ کو آٹا، چینی، گھی، دالیں10 روپے سستے مل گئے ہوں تو کوئی بات ہے۔ مہنگائی کی چکی میں تو سب برابر پسے، ظلم کی بھٹی میں تو سب ایک ساتھ جلے، نا انصافی، اقربا پروری کا شکار تو شیخ و برہمن اکٹھے رہے۔ تو پھر کہاں چلے جارہے ہیں۔ خدارا لوٹ آیئے اور ''خاص آدمی پارٹی'' کو ووٹ دینا بند کیجیے، اپنی جماعت بنایے ''عام آدمی پارٹی'' فطرت نے، قدرت نے آپ کو حق حکمرانی دیا ہے آپ ملک کی اکثریت ہیں، حکومت کرنا آپ کا حق ہے، اب اگر کوئی کہتاہے کہ ہم تعلیم یافتہ نہیں تو وہ تعلیم اور وہ شعور کہاں گیا جو قدرت ایک بچے کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی عطا کردیتی ہے اور یاد رکھیے گا کہ آپ کے موجودہ حالات میں خدا کی کوئی مرضی شامل نہیں ہے، خدا کی مرضی بھی وہی ہے جس کا مشورہ میں نے آپ کو دیا ہے کیوں کہ وہ فطرت کا خدا ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کا منشور عام لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہے، ایک غریب شخص کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ موجودہ انتخابات میں ان کی جماعت روز افزوں ترقی پر ہے اور تیزی کے ساتھ عوامی مقبولیت حاصل کررہی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس جیسی بڑی جماعتوں کے مقابلے میں تیسری قوت کے طور پر ابھررہی ہے۔ اروند کیجری وال خود بھی ایک منکسر المزاج اور صاف گو انسان ہیں جو بات دل میں ہو اسے فوراً زبان پر لے آتے ہیں۔لہٰذا ان دنوں وہ جہاں جہاں اپنی جماعت کے منشور کو لے کر دورہ کررہے ہیں وہاں ان پر BJPاور کانگریس کے کارکنان حملہ کردیتے ہیں۔ مختلف طور طریقوں سے انھیں ڈرایا دھمکایا بھی جارہا ہے۔ لیکن وہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جب کہ ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی شہرت اور عوامی پذیرائی میں اضافے سے محسوس ہوتاہے کہ عوام ان کے نقطہ نظر سے متاثر ہورہے ہیں۔
جوق در جوق ''عام آدمی پارٹی'' میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ اس الیکشن میں نہیں تو آیندہ الیکشن میں پورے انڈیا میں ''عام آدمی پارٹی'' کی حکومت ہوگی، عام آدمی رکن پارلیمنٹ ہوگا۔ انڈیا کا وزیراعظم ہوگا، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ہوں گے اور وہ انقلاب جس کی بنیاد ''عام آدمی پارٹی'' بناکر رکھی جاچکی ہے، بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ جس کے بعد انڈیا کی ترقی کی رفتار کو ناپنا آسان نہ ہوگا۔ کیوں کہ وہاں سوا ارب لوگ حکومت کررہے ہوں گے اور جہاں سوا ارب لوگ یا تو حکومت میں ہوں یا خود کو حکومت کا حصہ سمجھتے ہوں وہاں ہر فرد اتنی شدت کے ساتھ محنت کرے گا اور اس جذبہ حب الوطنی کے ساتھ کام کرے گا کہ بھارت کا نصیب سنور جائے گا۔ جب کہ ''عام آدمی پارٹی'' کی حکومت میں عام آدمی کے مسائل حل ہوں گے اور وہ ترقی کرے گا اور جو طرز معاشرت قائم ہوگی وہ بھی بہت سادگی، خلوص اور اپنائیت لیے ہوئے ہوگی۔ ممکن ہے کہ جو میں سوچ رہا ہوں وہ محض گمان یا خیال ثابت ہو اور حقیقت اس کے برعکس نکل آئے لیکن میری سوچ کسی ''یوٹوپیا'' کی طرز پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کا اظہار دہلی کے انتخابات میں عوام الناس کی جانب سے ہوچکا ہے۔ جب وہاں پر ووٹرز نے کانگریس ''BJP'' جنتا ؤں سمیت ہر جماعت کو مسترد کرتے ہوئے اکثریت رائے سے ''عام آدمی پارٹی'' کے امیدواران کو منتخب کیا اور کم از کم ایک ریاست میں ان کی حکومت قائم ہوئی اور حکومت کے قیام کے ساتھ ہی منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ اروند کیجری وال نے فی الفور گیس، بجلی اور پانی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا اعلان کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ وہ انڈیا کے 90 فی صد طبقے کے حقیقی اور مخلص نمایندے ہیں۔ میں یہ سب لکھ کر خدانخواستہ فوری طور پر بھارت اور پاکستان کی جمہوریتوں کا کوئی تقابلی جائیزہ لینے نہیں جا رہا۔ بلکہ میرا مقصد اس تحریر سے ایک عام آدمی تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ اگر وہ سب کسی ایک نقطے پر متفق ہوجائیں اور اس نقطے کو باقی تمام چیزوں پر اولیت دیں تو پاکستان میں بھی ایک عام آدمی کی حکومت قائم ہوسکتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ سردست ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیوں کہ انڈیا میں آزاد ہونے کے بعد شاید صرف ایک مرتبہ چند گھنٹوں کے لیے ان کی آرمی نے ایمرجنسی Declair کی تھی جب کہ باقی تمام عرصہ وہاں پر جمہوریت قائم رہی ہے۔ باقاعدگی کے ساتھ الیکشن ہوتے رہے اور ان کی بنیاد پر بننے والی حکومتوں نے کم و بیش اپنی طے شدہ مدت پوری کی ہے۔ یا اگر کسی بر سر اقتدار جماعت کے پاس پارلیمانی اکثریت باقی نہیں رہی تب بھی اس نے وسط مدتی انتخابات کروائے، لیکن نظام صرف... جمہوریت۔ باقی کچھ اور قابل قبول نہیں رہا۔
در اصل ''خاص آدمی پارٹی'' ہی وہ بنیادی فرق ہے جسے لے کر وہ ترقی پر اور ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے 98 فی صد لوگوں نے بد قسمتی سے ملک میں منعقد ہونے والے ہر الیکشن میں امرا، نوابین، جاگیردار، مل مالکان، حتیٰ کہ جرنیلز تک کو منتخب کیا ہے۔ ہر مرتبہ بڑھ چڑھ کر انھیں اپنے ووٹوں سے نوازا بلکہ سر فراز کیا ہے۔ کیوں کیا؟ اس کی وجوہات پر بعد میں بات کرتے ہیں لیکن پہلے تو جو ہونا تھا وہی ہوا اس پر بات کرنی چاہیے۔ وہ 2 فی صد طبقہ کبھی بھی کسی بھی طبقے کے مسائل سے واقف نہیں تھا۔ امرا کی یہ معمولی سی تعداد کبھی غربا کے اس جم غفیر میں اٹھی بیٹھی ہی نہیں، لہٰذا مسئلے نہ حل ہونے تھے نہ حل ہوئے۔حکومتی آتی جاتی رہیں۔ مارشل لاء بھی وقتاً فوقتاً لگتے رہے اور 98 فی صد آبادی کا یہ جم غفیر ہر حکومت کو، مارشل لا، ایڈمنسٹریٹر کو اپنا مسیحا جان کر ان کے لیے نعرے لگاتار ہا۔ ان کی حمایت میں جلسے جلوس نکالتا رہا ۔ مظاہرے کرتا رہا اور اپنے ہی طبقے سے تعلق رکھنے والے غربا کے گھروں اور دکانوں کو توڑتا، جلاتا رہا ۔ ان کے منتخب کردہ آقا ہزاروں ارب لوٹ کر بیرون ملک بھی اپنی ریاستیں قائم کرتے رہے لیکن 98 فی صد اس طبقے کے کان پر جوں نہ رینگ سکی، یہ مست رہا اپنے حالوں میں اور کہتا رہا کہ خدا کی یہی مرضی تھی بھائی جو مل گیا وہی نصیب تھا زیادہ کا کیا کرنا ہے۔ہنسی کی بات یہ ہے کہ کہنے والے کے پاس تھوڑا سا بھی نہیں ہوتا۔ اب آتے ہیں اس وجہ پر کہ پاکستان میں آخر ایسا کیوں ہوا؟ کہ ابتدا ہی سے ایک بہت بڑا طبقہ ایک قلیل طبقے کو منتخب کرتا رہا اور کر رہا ہے۔ جب کہ فطرت کے بنیادی اور عام اصول کے مطابق بھی جو اکثریت میں ہے حق حکمرانی بھی اسی کو ملنا چاہیے۔
میں اپنی دانست میں اس وجہ کو نسلی، عصبیت، صوبائی، ذات، برادری میں منقسم ہونے کو گردانتاہوں اور برملا کہتاہوں کہ ملک کا یہ 98 فیصد طبقہ مکمل طور پر مندرجہ بالا درجات میں بٹا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ نفس کا ایسا بہکاوا جسے ہم نے خدا بنالیاہے اور جہالت کی ضعیف ترین حالت جہل کا سب سے نچلا درجہ جس کا علم اٹھائے ہم اپنی اپنی ذات، برادری کے فاتح عالم بنے ہوئے ہیں۔ سر ہے کہ غرور سے اکڑ کر جھکنے کے لیے تیار نہیں اور پیٹ ہے کہ مسلسل فاقوں سے کبھی بھرتا نہیں۔یہ تقسیم ہمارے متحد ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے یا ہمارے ایک جتھہ بننے کی راہ میں حائل ہے، ہم واقف ہی نہیں کہ ذات برادری یا فرقہ بندی نے ہمیں آج تک دیا ہی کیا ہے۔
ارے بھائی آپ کچھ بھی ہیں کہ کچھ بھی ہونے سے آپ کو آٹا، چینی، گھی، دالیں10 روپے سستے مل گئے ہوں تو کوئی بات ہے۔ مہنگائی کی چکی میں تو سب برابر پسے، ظلم کی بھٹی میں تو سب ایک ساتھ جلے، نا انصافی، اقربا پروری کا شکار تو شیخ و برہمن اکٹھے رہے۔ تو پھر کہاں چلے جارہے ہیں۔ خدارا لوٹ آیئے اور ''خاص آدمی پارٹی'' کو ووٹ دینا بند کیجیے، اپنی جماعت بنایے ''عام آدمی پارٹی'' فطرت نے، قدرت نے آپ کو حق حکمرانی دیا ہے آپ ملک کی اکثریت ہیں، حکومت کرنا آپ کا حق ہے، اب اگر کوئی کہتاہے کہ ہم تعلیم یافتہ نہیں تو وہ تعلیم اور وہ شعور کہاں گیا جو قدرت ایک بچے کو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی عطا کردیتی ہے اور یاد رکھیے گا کہ آپ کے موجودہ حالات میں خدا کی کوئی مرضی شامل نہیں ہے، خدا کی مرضی بھی وہی ہے جس کا مشورہ میں نے آپ کو دیا ہے کیوں کہ وہ فطرت کا خدا ہے۔