سچ اندر سے ملتا ہے
بھکشو نے بدھ سے پوچھا ''کامیاب ہونے کی راہ کیا ہے'' جواب آیا لڑکے، کامیابی لمحہ موجود کو معنی دینا ہے۔ سوال کیا گیا ''کیا معنی باہر سے آتا ہے؟'' تھوڑا تامل اور پھر جواب ملا معنی کے لیے جستجوکرنا پڑتی ہے، اجالے کی سہائتا کی جاتی ہے۔ بھکشو نے بے بسی سے کہا ''مہاراج مجھے سچ کہاں سے ملے گا'' جواب دیا۔
اپنے اندر رہ اور باہر پر آنکھ رکھ۔ زمین پر آوازیں بہت ہیں۔ ساگر میں مچھلیاں بہت ہیں اور سچ کی صورت لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے۔ ہیں مہاراج؟ پیڑ اور مکان گذرتے جا رہے ہیں اور سفیدی تو اب مرغی کے انڈے برابر رہ گئی ہے۔ بدھ نے امید باندھتے ہوئے وعدہ دیا۔ ''تو فکر مت کر، گیان کی ترائیوں میں برگد کے پیڑ بہت ہیںاور رات ابھی باقی ہے۔''
ول ڈیورنٹ نے کہا تھا ''زیادہ تر لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دماغ کی بجائے اپنی امیدوں یا خوف یا خواہشات کے ساتھ سوچتے ہیں۔'' نوجوانی میں جان لینن سے اسکول میں ان کے استاد نے پوچھا ''آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' جان لینن نے جواب دیا ''خوش رہنا چاہتا ہوں۔'' استادـ ''آپ شاید سوال نہیں سمجھے''
لینن: ''اور آپ، شاید زندگی کو نہیںسمجھے۔''
ایک بار ایک ٹرین ٹکٹ چیکر جو ممبئی سے بنگلور جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر تھا نے ایک لڑکی کو پکڑ لیا جو ایک سیٹ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔
اس کی عمر تقریباً 13 یا 14 سال تھی۔ ٹی ٹی ای نے لڑکی سے اپنا ٹکٹ پیش کرنے کو کہا، لڑکی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا کہ ''اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے'' ٹی ٹی ای نے لڑکی کو فوراً ٹرین سے اترنے کو کہا۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی ''میں اس کے ٹکٹ کی قیمت ادا کروں گی'' یہ آواز تھی مسز اوشا بھٹا چاریہ کی، جو پیشے سے کالج کی لیکچرار تھیں۔ مسز بھٹا چاریہ نے لڑکی کے ٹکٹ کی ادائیگی کی اور اسے اپنے پاس بیٹھنے کی درخواست کی۔ اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ ''چترا'' لڑکی نے جواب دیا ''آپ کہاں جا رہی ہو'' لڑکی نے کہا ''میرے پاس جانے کو کہیں نہیں ہے۔'' ''تو میرے ساتھ چلو'' مسز بھٹا چاریہ نے اسے کہا بنگلور پہنچنے کے بعد مسز بھٹا چاریہ نے لڑکی کو ایک این جی او کے حوالے کر دیا جس کی دیکھ بھال کی جائے گی۔ بعد میں مسز بھٹا چاریہ دہلی شفٹ ہو گئیں اور دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ گیا۔
تقریباً 20 سال کے بعد مسز بھٹا چاریہ کو ایک کالج میں لیکچر دینے کے لیے سان فرانسسکو امریکا مدعو کیا گیا۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہی تھیں۔ کھانے کے ختم ہونے کے بعد اس نے بل مانگا لیکن اسے بتایا گیا کہ اس کا بل پہلے ہی ادا ہو چکا ہے، جب وہ واپس مڑی تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے مسز بھٹا چاریہ نے جوڑے سے پوچھا ''آپ نے میرا بل کیوں ادا کیا؟'' نوجوان عورت نے جواب دیا ''ماں'' میں نے جو بل ادا کیا ہے وہ بہت کم ہے اس کے مقابلے میں جو آپ نے مجھے ممبئی سے بنگلور تک ٹرین کا سفر کے لیے ادا کیا تھا۔ دونوں خواتین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
''او چترا۔ یہ تم ہو؟'' مسز بھٹا چاریہ نے خوشی سے حیران ہوتے ہوئے کہا ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نوجوان خاتون نے کہا ''میڈم اب میرا نام چترا نہیںہے میں سودھا مورتی ہوں اور یہ میرا شوہر ہے نارائن مورتی۔'' حیران نہ ہوں آپ انفوسس لمیٹڈ کی چیئرمین مسز سودھا مورتی اور ملٹی ملین انفو سس سافٹ وئیر کمپنی قائم کرنیوالے مسٹر نارائن مورتی کی سچی کہانی پڑھ رہے ہیں۔
جو تھوڑی سی مدد آپ دوسروں کو دیتے ہیں وہ ان کی پوری زندگی بدل سکتی ہے۔ اکشتا مورتی اس جوڑے کی بیٹی ہے اور اسکی شادی رشی سنک سے ہوئی ہے۔ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔
لیو بسکا گلیا کہتا ہے ''اکثر ہم ایک لمس، ایک مسکراہٹ، ایک مہربان لفظ، ایک سننے والے کان، ایک ایماندار نہ تعریف یا دیکھ بھال کے سب سے چھوٹے عمل کی طاقت کو کم سمجھتے ہیں لیکن یہ سب زندگی کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔'' کامیابی اور خوشیاں اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتیں یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی اور خوشیاں انتخاب ہوتی ہیں، اتفاق نہیں۔ زندگی کی سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بقول اولیور وینڈل ہومز ''بیشتر لوگ قبر میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کے اندر کی موسیقی اندر ہی مقید رہتی ہے۔''
ہماری زندگی بازگشت جیسی ہے ہم وہی پاتے ہیں جو دیتے ہیں تمہارے خیالات ہوں، اعمال و افعال ہوں یا رویے جلد یا بدیر وہ تمہاری طرف واپس آتے ہیں۔ ایمرسن کہتا ہے ''زندگی کا ایک خوبصورت رخ یہ ہے کہ کوئی شخص خلوص کے ساتھ دوسرے کی مدد اپنی مدد کیے بغیر نہیں کر سکتا۔'' ہم چیزوں کو ویسے نہیں دیکھتے جیسی وہ ہوتی ہیں بلکہ ویسے دیکھتے ہیں جیسے ہم ہوتے ہیں۔
عظیم ادیب Paulo Coelho نے کہا تھا ''اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک اصول کا احترام کرنا چاہیے کہ اپنے آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولیں۔''
Edgar Guest ایک مشہور امریکی شاعر تھا جو Detroit فری پریس میں 30 سالوںسے ہر روز اپنی ایک نظم شائع کر تا تھا۔ لوگ اسے ایک عوامی شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ اس نے لکھاہے ''یہ بات بخوبی جان لو اے دوست تمہارے پاس بھی وہ سب ہی کچھ ہے جو دنیا کی عظیم ہستیوں کے پاس تھا دو بازو، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، دو آنکھیں اور ایک ذہن۔ بشرطیکہ کہ تم اسے استعمال کرو۔
ان ہی لوازمات کے ساتھ ان عظیم ہستیوں نے رخت سفر باندھا تھا تم بھی کامیابیوں کی راہ پر چل سکتے ہو، گر نکلو گے اس یقین کے ساتھ کہ سرفرازی میرا بھی مقدر ہو سکتی ہے۔ دانشمند اور عظیم ہستیوںکی زندگیوں پر غور کرو ان میں سے اکثر عام پلیٹ میں ہی کھانا کھاتے تھے، عام چھری اور کانٹا استعمال کرتے تھے، عام لوگوں کی طرح ہی وہ جوتوں کے تسمے باندھتے تھے۔
آج دنیا جنھیں رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہے جب کامیابی کے زینے پر انھوں نے پہلا قدم رکھا تھا تو ان کے پاس بھی محض وہ ہی کچھ تھا جو تمہارے پاس ہے اگر چاہو تو تم بھی عظمت و شہرت کی منزلیں طے کر سکتے ہو۔ سوچیں، ارادے، حوصلے اور جذبے منزلوں کا تعین کرتے ہیں فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم نے زمین کی دھول ہونا ہے یا آسمان کی کہکشاں بننا ہے زندگی کیسے جینا ہے کیا کھونا ہے کیا پانا ہے تمہارے ہاتھ میں ہے۔
حوصلہ روح سے جنم لیتا ہے اس لیے اے دوست جیت اور ثابت قدمی کے جذبوں کو پروان چڑھانا سیکھو۔ زندگی میں کیا کرنا ہے کیا بننا ہے فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے''۔ یاد رکھیں عظیم فلسفی Marcus Aurelius نے کہا تھا ''آپ کی زندگی کی خوشی آپ کے خیالات کے معیار پر منحصر ہے۔''
اپنے اندر رہ اور باہر پر آنکھ رکھ۔ زمین پر آوازیں بہت ہیں۔ ساگر میں مچھلیاں بہت ہیں اور سچ کی صورت لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہے۔ ہیں مہاراج؟ پیڑ اور مکان گذرتے جا رہے ہیں اور سفیدی تو اب مرغی کے انڈے برابر رہ گئی ہے۔ بدھ نے امید باندھتے ہوئے وعدہ دیا۔ ''تو فکر مت کر، گیان کی ترائیوں میں برگد کے پیڑ بہت ہیںاور رات ابھی باقی ہے۔''
ول ڈیورنٹ نے کہا تھا ''زیادہ تر لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دماغ کی بجائے اپنی امیدوں یا خوف یا خواہشات کے ساتھ سوچتے ہیں۔'' نوجوانی میں جان لینن سے اسکول میں ان کے استاد نے پوچھا ''آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' جان لینن نے جواب دیا ''خوش رہنا چاہتا ہوں۔'' استادـ ''آپ شاید سوال نہیں سمجھے''
لینن: ''اور آپ، شاید زندگی کو نہیںسمجھے۔''
ایک بار ایک ٹرین ٹکٹ چیکر جو ممبئی سے بنگلور جانے والی ٹرین میں ڈیوٹی پر تھا نے ایک لڑکی کو پکڑ لیا جو ایک سیٹ کے نیچے چھپی ہوئی تھی۔
اس کی عمر تقریباً 13 یا 14 سال تھی۔ ٹی ٹی ای نے لڑکی سے اپنا ٹکٹ پیش کرنے کو کہا، لڑکی نے جھجکتے ہوئے جواب دیا کہ ''اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے'' ٹی ٹی ای نے لڑکی کو فوراً ٹرین سے اترنے کو کہا۔ اچانک پیچھے سے آواز آئی ''میں اس کے ٹکٹ کی قیمت ادا کروں گی'' یہ آواز تھی مسز اوشا بھٹا چاریہ کی، جو پیشے سے کالج کی لیکچرار تھیں۔ مسز بھٹا چاریہ نے لڑکی کے ٹکٹ کی ادائیگی کی اور اسے اپنے پاس بیٹھنے کی درخواست کی۔ اور پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ ''چترا'' لڑکی نے جواب دیا ''آپ کہاں جا رہی ہو'' لڑکی نے کہا ''میرے پاس جانے کو کہیں نہیں ہے۔'' ''تو میرے ساتھ چلو'' مسز بھٹا چاریہ نے اسے کہا بنگلور پہنچنے کے بعد مسز بھٹا چاریہ نے لڑکی کو ایک این جی او کے حوالے کر دیا جس کی دیکھ بھال کی جائے گی۔ بعد میں مسز بھٹا چاریہ دہلی شفٹ ہو گئیں اور دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ گیا۔
تقریباً 20 سال کے بعد مسز بھٹا چاریہ کو ایک کالج میں لیکچر دینے کے لیے سان فرانسسکو امریکا مدعو کیا گیا۔ وہ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہی تھیں۔ کھانے کے ختم ہونے کے بعد اس نے بل مانگا لیکن اسے بتایا گیا کہ اس کا بل پہلے ہی ادا ہو چکا ہے، جب وہ واپس مڑی تو دیکھا کہ ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے مسز بھٹا چاریہ نے جوڑے سے پوچھا ''آپ نے میرا بل کیوں ادا کیا؟'' نوجوان عورت نے جواب دیا ''ماں'' میں نے جو بل ادا کیا ہے وہ بہت کم ہے اس کے مقابلے میں جو آپ نے مجھے ممبئی سے بنگلور تک ٹرین کا سفر کے لیے ادا کیا تھا۔ دونوں خواتین کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
''او چترا۔ یہ تم ہو؟'' مسز بھٹا چاریہ نے خوشی سے حیران ہوتے ہوئے کہا ایک دوسرے سے گلے ملتے ہوئے نوجوان خاتون نے کہا ''میڈم اب میرا نام چترا نہیںہے میں سودھا مورتی ہوں اور یہ میرا شوہر ہے نارائن مورتی۔'' حیران نہ ہوں آپ انفوسس لمیٹڈ کی چیئرمین مسز سودھا مورتی اور ملٹی ملین انفو سس سافٹ وئیر کمپنی قائم کرنیوالے مسٹر نارائن مورتی کی سچی کہانی پڑھ رہے ہیں۔
جو تھوڑی سی مدد آپ دوسروں کو دیتے ہیں وہ ان کی پوری زندگی بدل سکتی ہے۔ اکشتا مورتی اس جوڑے کی بیٹی ہے اور اسکی شادی رشی سنک سے ہوئی ہے۔ برطانیہ کے نئے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔
لیو بسکا گلیا کہتا ہے ''اکثر ہم ایک لمس، ایک مسکراہٹ، ایک مہربان لفظ، ایک سننے والے کان، ایک ایماندار نہ تعریف یا دیکھ بھال کے سب سے چھوٹے عمل کی طاقت کو کم سمجھتے ہیں لیکن یہ سب زندگی کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔'' کامیابی اور خوشیاں اتفاقیہ طور پر نہیں ملا کرتیں یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی اور خوشیاں انتخاب ہوتی ہیں، اتفاق نہیں۔ زندگی کی سب سے افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بقول اولیور وینڈل ہومز ''بیشتر لوگ قبر میں پہنچ جاتے ہیں اور ان کے اندر کی موسیقی اندر ہی مقید رہتی ہے۔''
ہماری زندگی بازگشت جیسی ہے ہم وہی پاتے ہیں جو دیتے ہیں تمہارے خیالات ہوں، اعمال و افعال ہوں یا رویے جلد یا بدیر وہ تمہاری طرف واپس آتے ہیں۔ ایمرسن کہتا ہے ''زندگی کا ایک خوبصورت رخ یہ ہے کہ کوئی شخص خلوص کے ساتھ دوسرے کی مدد اپنی مدد کیے بغیر نہیں کر سکتا۔'' ہم چیزوں کو ویسے نہیں دیکھتے جیسی وہ ہوتی ہیں بلکہ ویسے دیکھتے ہیں جیسے ہم ہوتے ہیں۔
عظیم ادیب Paulo Coelho نے کہا تھا ''اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک اصول کا احترام کرنا چاہیے کہ اپنے آپ سے کبھی جھوٹ نہ بولیں۔''
Edgar Guest ایک مشہور امریکی شاعر تھا جو Detroit فری پریس میں 30 سالوںسے ہر روز اپنی ایک نظم شائع کر تا تھا۔ لوگ اسے ایک عوامی شاعر کے طور پر جانتے ہیں۔ اس نے لکھاہے ''یہ بات بخوبی جان لو اے دوست تمہارے پاس بھی وہ سب ہی کچھ ہے جو دنیا کی عظیم ہستیوں کے پاس تھا دو بازو، دو ہاتھ، دو ٹانگیں، دو آنکھیں اور ایک ذہن۔ بشرطیکہ کہ تم اسے استعمال کرو۔
ان ہی لوازمات کے ساتھ ان عظیم ہستیوں نے رخت سفر باندھا تھا تم بھی کامیابیوں کی راہ پر چل سکتے ہو، گر نکلو گے اس یقین کے ساتھ کہ سرفرازی میرا بھی مقدر ہو سکتی ہے۔ دانشمند اور عظیم ہستیوںکی زندگیوں پر غور کرو ان میں سے اکثر عام پلیٹ میں ہی کھانا کھاتے تھے، عام چھری اور کانٹا استعمال کرتے تھے، عام لوگوں کی طرح ہی وہ جوتوں کے تسمے باندھتے تھے۔
آج دنیا جنھیں رشک بھری نظروں سے دیکھتی ہے جب کامیابی کے زینے پر انھوں نے پہلا قدم رکھا تھا تو ان کے پاس بھی محض وہ ہی کچھ تھا جو تمہارے پاس ہے اگر چاہو تو تم بھی عظمت و شہرت کی منزلیں طے کر سکتے ہو۔ سوچیں، ارادے، حوصلے اور جذبے منزلوں کا تعین کرتے ہیں فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم نے زمین کی دھول ہونا ہے یا آسمان کی کہکشاں بننا ہے زندگی کیسے جینا ہے کیا کھونا ہے کیا پانا ہے تمہارے ہاتھ میں ہے۔
حوصلہ روح سے جنم لیتا ہے اس لیے اے دوست جیت اور ثابت قدمی کے جذبوں کو پروان چڑھانا سیکھو۔ زندگی میں کیا کرنا ہے کیا بننا ہے فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے''۔ یاد رکھیں عظیم فلسفی Marcus Aurelius نے کہا تھا ''آپ کی زندگی کی خوشی آپ کے خیالات کے معیار پر منحصر ہے۔''