کسی ملک کے نادہندہ ہونے سے کیا مراد ہے


Kashif Hussain December 30, 2022

کسی ملک کے نادہندہ ہونے سے مراد اس کے ملکی یا غیرملکی قرضوں اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت کا ختم ہو جانا ہے، یعنی کوئی ملک بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیا گیا قرض واپس کرنے کی سکت کھو بیٹھے یا ریاست کی ضمانت سے جاری کردہ بانڈز کی بھنوائی کے قابل نہ رہے۔

حالیہ عرصے میں ارجنٹائن، یوکرین، لبنان اور سری لنکا کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، اس سے قبل روس، وینزویلا، ایکواڈور، یونان بھی نادہندہ ہو چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی وضع کردہ تعریف کیمطابق نادہندگی وعدے کی عدم پاسداری یا کسی معاہدے کے خلاف ورزی ہے۔

کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کی ساورن ڈیٹ ڈیٹا بیس کیمطابق 1960 سے اب تک دنیا کی 147 حکومتیں نادہندہ ہو چکی ہیں۔ کسی ملک کے نادہندہ ہونے کی بنیادی وجوہات میں قرضوں پر زیادہ انحصار اور معاشی جمود یا انحطاط، سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بدانتظامی شامل ہیں۔

سیاسی عدم استحکام اور مالیاتی بد انتظامی کے ساتھ کاروباری جمود، بینکاری نظام کی کمزوری اور شرح مبادلہ کے بحران کے علاوہ کسی ملک کی سالمیت کو سنگین خطرات لاحق ہونا بھی وہ تمام عوامل ہیں جو کسی ملک کی نادہندگی کے خطرات میں اضافہ کرتے ہیں۔

کسی ملک کے نادہندہ ہونے کی صورت میں اس ملک کے لیے اندرونی یا بیرونی ذرائع سے قرض یا سرمائے کا حصول مشکل تر ہو جاتا ہے جس سے معاشی حالات اور زیادہ دگرگوں ہو جاتے ہیں، خاص کر وہ ممالک جن کا زیادہ انحصار درآمدات پر ہوتا ہے سرمائے کے حصول کے لیے زیادہ کڑی شرائط ماننے اور زیادہ سود ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، نادہندہ ملک کے بینکاری کے نظام پر سے دنیا کا اعتبار اٹھ جاتا ہے جس کے نتیجے میں عالمی تجارت اور لین دین مشکل ہو جاتا ہے اور اس ملک کی تجارت اور صنعت کا پہیہ بھی جام ہو جاتا ہے۔

نادہندہ ملک کی معیشت پر سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی ختم ہو جاتا ہے جس کے اثرات سرمائے کے انخلائ، اسٹاک مارکیٹ کی تنزلی کی شکل میں سامنے آتا ہے، نادہندہ ملک کی کرنسی بھی اپنی قدر کھو بیٹھتی ہے۔

نادہندگی کا ایک بڑا نقصان ملک کی ساکھ کو پہنچنے والا نقصان ہوتا ہے جو کافی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے جس سے اس ملک کے لیے بیرونی ذرائع سے سرمایہ حاصل کرنا (سرمایہ کاری یا قرض) مشکل تر ہو جاتا ہے اور اس ملک کو اپنی ساکھ بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں اور عالمی اداروں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کئی دہائیوں تک جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ درحقیقت کسی ملک کے نادہندہ ہونے کے اثرات اس ملک کے عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں جن میں خوفناک مہنگائی، اشیاء ضرورت کی قلت اور بے روزگاری سرفہرست ہیں۔

کیا پاکستان نادہندہ ہو چکا ہے یا ہونے کے قریب ہے؟ قرضوں کے بحران کا انتہائی انجام نادہندگی ہے، کسی ملک کی معیشت قرضوں کے بحران کا شکار ہے یا نہیں اس کا تعین تین تکنیکی اشاریوں سے کیا جاتا ہے۔

۱۔ زرمبادلہ کے ذخائر کا تشویشناک حد تک کم ہونا۔ ۲۔ اس ملک کی کرنسی کی قدر میں غیرمعمولی گراوٹ۔ ۳۔ اس ملک کے جاری کردہ بانڈز پر منافع یا سود کی شرح کا ایک ہزار بیسس پوائنٹس سے بڑھ جانا، یعنی سرمایہ داروں کا اس ملک کے بانڈز کی خریداری کے لیے زیادہ منافع یا سود طلب کرنا شامل ہیں۔ ان تین تکنیکی اشاریوں کے لحاظ سے اس وقت دنیا کے 17 ممالک کو نادہندگی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

جن میں پاکستان بھی شامل ہیں۔ پاکستان پہلے ہی توازن ادائیگی کے بحران کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع کر چکا ہے، کورونا کی وباء کے بعد سیلاب کے نقصانات نے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا اور توازن ادائیگی کا بحران شدت اختیار کر گیا دوسری جانب توانائی کے لیے مہنگے درآمدی ذرائع پیٹرولیم مصنوعات ایل این جی کوئلے کی درآمد نے پاکستان کو مالیاتی بحران کے ساتھ توانائی کے بحران سے بھی دوچار کر دیا۔

پاکستان پر چھائے نادہندگی کے بادلوں کے پس پش عوامل کو شمار کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان نے جدید مالیاتی تاریخ میں نادہندہ ہونیوالے ملکوں کی تمام غلطیاں تسلسل کے ساتھ دہرائیں اور ستر سال میں پاکستان کی معیشت پائیدار بنیادوں پر استوار نہ ہو سکی اور اس کی ساختی خامیاں دور ہونے کے بجائے سنگین ہوتی چلی گئیں جن میں قرضوں پر زیادہ انحصار اور ان قرضوں کا غیرپیداواری مقاصد پر خرچ ہونا، معاشی جمود یا انحطاط، مالیاتی بدانتظامی، سیاسی عدم استحکام اور علاقائی اور بین الاقوامی مسائل میں الجھنے کی وجہ سے سکیورٹی خدشات کا برقرار رہنا شامل ہیں۔

پاکستان کے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں جس سے محض پانچ ہفتوں کا درآمدی بل ادا کیا جا سکتا ہے، روپے کی قدر ریکارڈ سطح تک کم ہو چکی ہے جب کہ حکومت وسائل کی کمی اور آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے سے قاصر ہے اور حکومت کی 40 فیصد آمدن قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو رہی ہے۔ ستمبر 2022 تک پاکستان پر غیر ملکی قرضوں اور واجبات کی مالیت لگ بھگ 127 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ 31 دسمبر 2021 پر بیرونی قرضوں اور واجبات کی مالیت 130 ارب 63 کروڑ ڈالر تک بڑھ چکی تھی اس طرح پاکستان نے رواں سال کے نو ماہ کے دوران اصل قرض کی مد میں ساڑھے تین ارب ڈالر ادا کیے جب کہ سود کی مد میں کی جانیوالی ادائیگیاں اس سے بہت زیادہ ہیں۔

پاکستان کو رواں مالی سال جون 2023 تک تقریباً 33 ارب ڈالر درکار ہیں جس میں سے جاری کھاتے کا خسارہ (ڈالر کی طلب و رسد کے فرق) کو پورا کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر اور غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار 23 ارب ڈالر شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک گھبرانے والی کوئی بات نہیں کیونکہ پاکستان نے قرضوں کی واپسی کے لیے سرمائے کا بندوبست کر لیا ہے زیادہ تر سرمایہ دوست ملکوں کی مدد سے اکٹھا کیا گیا جس میں تین ارب ڈالر کے نئے ڈپازٹ (ممکنہ طور پر سعودی عرب سے) اور پرانے ڈپازٹ یا قرضوں کی مدت میں اضافہ (رول اوور) شامل ہیں۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضوں میں قابل ادائیگی 23 ارب ڈالر میں سے پاکستان پہلے ہی 6 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے واپس کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ متعلقہ ممالک کے تعاون سے 4 ارب ڈالر کے دو طرفہ قرضے کو رول اوور (roll over) کر دیا گیا ہے۔ مزید 8.3 ارب ڈالر کے maturing واجبات رول اوور ہونے کی توقع ہے کیونکہ مذاکرات جاری ہیں۔ مالی سال کی باقی مدت میں بقیہ قابل واپسی واجبات کی مالیت تقریباً 4.7 ارب ڈالر بنتی ہے۔

ان میں 1.1 ارب ڈالر کے کمرشل قرضے بھی شامل ہیں جو بیرونی بینکوں کو ادا کیے جانے ہیں، جب کہ باقی 3.6 ارب ڈالر کثیر فریقی قرضوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کو 4 ارب ڈالر کی زرمبادلہ رقوم (علاوہ مذکورہ 4 ارب ڈالر کے رول اوور کے) موصول ہو چکی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں