حلال کمائی کی فضیلت
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’حلال مال کا طلب کرنا (دیگر) فرائض (کی ادائی) کے بعد فرض ہے
اسلام کے پانچ بڑے ارکان (کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) جیسے فرائض کے بعد حلال مال کمانا فرض ہے اور یہ صرف اُس شخص کے ذمّے فرض ہے جو اپنے اور اپنے اہل و عیال کے ضروری خرچ کے لیے مال کا محتاج ہو۔
باقی وہ شخص جس کے پاس ضرورت کے بہ قدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یا کسی اور طرح سے اُس کو مال میسر ہے تو اُس کے ذمے یہ فرض نہیں رہتا۔ اِس لیے کہ ﷲ تعالیٰ نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے پیدا فرمایا ہے، تاکہ بندہ اپنی ضروری حاجتیں پوری کرکے ﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے، کیوں کہ رہنے سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے ﷲ تعالیٰ کی عبادت نہیں ہوسکتی۔
گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ کی عبادت میں یک سوئی سے مشغول ہونا مطلوب ہے۔
قرآنِ مجید میں ﷲ تعالیٰ انسانوں پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:
''ہم نے دن کمائی کرنے کے لیے بنایا۔'' (سورۃالنبا)
''ہم نے زمین میں تم کو جگہ دی اور اُس میں تمہارے لیے روزیاں مقرر کردیں، تم بہت کم شُکر کرتے ہو۔'' (سورۃ الاعراف)
''کتنے لوگ زمین میں ﷲ تعالیٰ کا فضل (رزق) ڈھونڈنے کے لیے پھریں گے۔''
(سورۃ المزمل)
''زمین میں پھیل جاؤ اور ﷲ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو۔'' (سورۃ الجمعہ)
شریعتِ اسلام نے کسبِ حلال کو عبادات میں شمار فرمایا ہے اور اس کے بے شمار فضائل بتلائے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔''
(المعجم الاوسط للطبرانی)
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''حلال مال کا طلب کرنا (دیگر) فرائض (کی ادائی) کے بعد فرض ہے۔'' (المعجم الکبیر للطبرانی)
حضرت ابُوسعید خدری رضی ﷲ عنہ حضورِ اقدس صلی ﷲ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس آدمی نے بھی حلال مال کما کر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ ﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوگا۔'' (صحیح ابن حبان)
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا۔ اور ﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔''
(صحیح بخاری)
اِس سے معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں، بلکہ حلال اور جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے۔ حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو کجا اُلٹا سخت گناہ اور ﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن افسوس! آج کل لوگ مال کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں کرتے کہ حلال طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے۔ بلکہ آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب، دھوکا دہی اور جعل سازی کے ذریعے مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے اپنی ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں، حالاں کہ حقیقت میں یہ دوسروں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکا اور فریب ہے اور ''نیکی برباد گناہ لازم'' کا مصداق ہے۔
حضرت ابُوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم: بے شک! ﷲ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے شک ﷲ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مؤمن بندوں دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے۔
اُس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ! اس کے بعد حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہُوا ہو، آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب! یارب! کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے۔۔۔ ؟ (صحیح مسلم۔ جامع ترمذی)
مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ''مستجاب الدعائ'' لوگوں کی ایک جماعت تھی۔ جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لیے بَد دعا کرتے، وہ ہلاک ہوجاتا۔ حجاج ظالم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے کہا کہ میں ان لوگوں کی بَد دعا سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ میں داخل ہوگئی۔'' (فضائل رمضان)
حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ عنہ نے عرض کیا: یارسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم! میرے لیے دُعا کیجیے کہ میں ''مستجاب الدعوات'' ہوجاؤں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''اپنے کھانے کو پاک کرو! ﷲ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک ﷲ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔ جس شخص کا بدن حرام مال بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔'' (المعجم الاوسط للطبرانی)
اِس سے معلوم ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے عبادات اور نیک کاموں کے کرنے اور گناہوں اور بُرے کاموں سے بچنے کی توفیق ملنے میں بھی حلال اور پاکیزہ کمائی کو بڑا دخل ہے۔
اسی طرح حلال اور پاکیزہ کمائی سے انسان کو جو راحت و سکون اور آرام نصیب ہوتا ہے وہ حرام کی کمائی اور ناجائز کمائی سے کسی بھی طرح حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا حرام اور ناجائز کمائی کے تمام راستوں (جُوا، سُود، رشوت، جھوٹ، دھوکا اور فریب وغیرہ جملہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچا کر حلال اور جائز کمائی سے پاکیزہ مال کما کر دُنیا و آخرت کی حقیقی خوشیاں و کام یابیاں اور اُن کا راحت و آرام اور سکون حاصل کرکے زندگی گزارنا درحقیقت زندگی کا صحیح معنوں میں اصل لطف و مزا ہے۔