کنجوسی کے بادشاہ
کسی فلاحی کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں۔ بلکہ ہر سہولت ان کے قدموں میں پڑی ہوئی ہے
زبیدہ بنت جعفر، عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ تھی۔ فلاحی کاموں پر توجہ دینے والی بے مثال خاتون۔ حج کرنے کے لیے مکہ گئی تو معلوم پڑا کہ زم زم کے کنویں میں پانی کی حد کم ہو چکی ہے۔ ساتھ ساتھ اہل مکہ اور حاجیوں کے لیے پانی حددرجہ کم مقدار میں موجود ہے۔
مکہ میں بڑے عرصے سے بارش نہیں ہوئی تھی اور قحط کا عالم تھا۔ فوراً کنویں کے پاس گئی اور حکم دیا کہ کنویں کو گہرا کیا جائے تاکہ پانی وافر طور پر میسر رہے۔ سلطنت سے بہترین انجینئر بلائے گئے۔ انھوں نے جو تخمینہ دیا وہ حد سے زیادہ تھا، تقریباً بیس لاکھ دینار۔ زبیدہ نے کسی کاغذ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور فوراً تمام رقم مہیا کر دی۔
زم زم کے کنویں کو حددرجہ عمدہ طریقے سے کھودا گیا اور پانی کا فیض آج تک ہر خاص و عام کے لیے جاری ہے۔ اب پانی کی مسلسل فراہمی کا مرحلہ تھا۔ مکہ سے پچانوے کلومیٹر دور ہنیان کا چشمہ تھا۔ شہر اور چشمہ کے درمیان حد درجہ دشوار پہاڑ اور صحرا تھے۔ زبیدہ نے حکم دیا کہ ہنیان کے چشمہ سے ایک نہر نکالی جائے جو مکہ تک پانی لے کر آئے۔
انجینئر اور دیگر عملہ نے ملکہ کو بتایا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے اور اگر ایسے کیا بھی جائے تو یہ حددرجہ مہنگا منصوبہ ہو گا۔ حکم دیا کہ نہر ہر قیمت پر کھودی جائے۔ اس کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو آج تک تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ ''اگر تیشہ کی ایک ضرب کی قیمت ایک دینار بھی ہوتی ہے پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں۔'' یہ ایک سو اسی ہجری کا وقت تھا۔ خزانے کے منہ کھول دیے گئے۔
ملکہ نے اپنے ذاتی کاروبار میں سے خطیر رقم اس نہر کی کھدائی کے لیے وقف کر ڈالی۔ ابن خلقان لکھتا ہے کہ اس زمانہ میں پوری دنیا میں اتنی دولت خرچ کر کے نہر بنوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہر نے اہل مکہ کے مکینوں اور حاجیوں کے لیے فقید المثال آسانی پیدا کر ڈالی۔ فلاحی کاموں اور سخاوت کا دریا صرف اس نہر تک محدود نہیں تھا۔ بغداد سے مکہ تقریباً نو سو میل کی مسافت پر تھا۔
ملکہ نے دنوں شہروں کے درمیان حددرجہ اعلیٰ سطح کی سڑک بنوائی۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ ان گنت کنویں کھدوائے گئے۔ ساتھ ساتھ تالاب تعمیر کروائے تاکہ ان میں بارش کا پانی محفوظ ہو جائے اور سیلاب کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ابن بطوطہ نے اس سڑک پر سفر کیا اور وہ ششدر رہ گیا۔ قافلوں کی حفاظت کا سرکاری نظام، پانی اور کھانے کی فراہمی نے حاجیوں اور عام آدمی کے لیے حد درجہ سہولتیں پیدا کر دیں۔
ابن بطوطہ نے خاص طور پر پانی کے دو ذخائر کا ذکر کیا ہے۔ برکت ال مرجوم اور ال قاردرا۔ یہاں خلق خدا کے لیے صاف اور ٹھنڈا پانی ہر دم موجود رہتا تھا۔ روایت ہے کہ جب تمام فلاحی کاموں کے اخراجات کا گوشوارا ملکہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کاغذات کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بے اعتناعی سے انھیں محل کی بالکونی سے نیچے پھینک ڈالا۔ کہنے لگی کہ اے خدا جس طرح میں نے تیری راہ میں خرچ ہونے والی رقم کا حساب نہیں لیا۔ اسی طرح روز قیامت مجھے بھی حساب کے بغیر بخش دینا۔
زبیدہ بنت جعفر جیسی اعلیٰ ظرف ملکہ بہت کم سلطنتوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ملکہ نے اور بہت سے کام کروائے مگر آج اس غیرعمولی عورت کی سخاوت اور عام آدمی کی بھلائی کے کاموں کا ذکر کروں گا۔ عام آدمی کے درد اور تکلیف کو محسوس کرنا اور اس کے بعد سہولتیں مہیا کرنا بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔
ارتکاز دولت، انسانوں کی جبلت میں موجود ہے مگر دولت کو مفاد عامہ میں خرچ کرنے کی مثالیں حددرجہ کم نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے سو امیر ترین آدمیوں کی فہرست بنایئے۔ آپ کو اس میں سیاست دان، کاروباری افراد، تجارتی دیوہیکل افراد نظر آئیں گے۔ ان کی تجوریوں میں بے حساب دولت موجود ہو گی۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے جیسے ملک کا قرضہ تک ادا کر سکتے ہیں۔ پر ان میں سے اکثریت آپ کو مزید دولت کمانے کے مرض میں مبتلا نظرآئے گی۔ عام لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خال خال ہی نظر آتا ہے۔
اگر کوئی نیک کام ہو ہی جائے تو اس کی تشہیر اس زورشور سے کی جاتی ہے جس میں ذاتی نیک نامی کو پروپیگنڈے کے ذریعے ترویج دینا اصل مقصد نظر آتا ہے۔ ہاں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے متمول لوگوں کی اکثریت ذاتی دولت سے فیض پہنچانے کو شاید گناہ تصور کرتی ہے۔ یہی حالت ہماری این جی اوز کی کثیر تعداد کا ہے۔ لوگوں اور حکومت سے مال بٹور کر بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں۔ پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ میڈیا پر اپنی نیک نامی کے اشتہارات دیتے ہیں مگر اپنے ذاتی سرمایہ سے ایک ٹکا بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔ ملک میں خوفناک سیلاب آیا ہے۔
سندھ کا تین چوتھائی حصہ پانی میں ڈوبا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کے پی اور جنوبی پنجاب میں نقصانات کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب نے ہمارے ملک کو حددرجہ برباد کیا ہے۔ مختلف تنظیموں نے نقصان کا حجم پندرہ سے بیس بلین ڈالر بتایا ہے۔ ہمارے سربراہ مملکت اور اکابرین سیلاب کی بحالی کے لیے نیویارک سے لے کر مشرق وسطیٰ کے ہر امیر ملک میں گئے، امداد مانگتے رہے مگر کسی ایک خاندان نے یہ نہیں کیا کہ اپنی ذاتی دولت سے سیلاب زدگان کی بحالی کا کام شروع کر دے۔
امیر ترین خاندانوں کے سربراہان اور بچوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے اپنی تجوری سے رقم نکال کر لوگوں میں تقسیم کریں۔ اس کے بالکل متضاد یہ لوگ سرکاری اخراجات پر ملکوں سے امداد مانگنے پر لگ گئے۔ مگر کسی ملک نے بھی انھیں وافر امداد نہیں دی۔
غیرملکی سربراہان کے ذہن میں سو فیصد یہ بات ہو گی کہ ہمارے اکثر سیاست دان ملکی دولت کو چوری کرنے کے ماہر ترین افراد ہیں۔ یہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے ملنے والی غیرملکی امداد پر بھی ہاتھ صاف کر سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی دوست ملک نے ان کی مالی مدد نہیں کی۔ خیر موجودہ سیاست دانوں کی اکثریت تو فلاحی کاموں سے ہزاروں نوری سال دور نظر آتی ہے مگر متمول طبقے کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔
سندھ کے ایک صوبائی وزیر کشتی میں بیٹھ کر سیلاب زدگان میں گئے۔ وہاں چند بالکل مفلوک الحال، پانی سے برباد شدہ لوگوں نے ان سے کوئی التجا کی۔ جواب میں وزیر موصوف نے انھیں بری طرح سے ڈانٹا جو کسی بھی شریف آدمی کا مقام نہیں۔ پھر صاف ستھری کشتی میں سوار، بڑے آرام سے ان غریب لوگوں کو بے سہارا چھوڑ کر آگے نکل گئے۔ اس کا ویڈیو کلپ پوری دنیا نے دیکھا مگر وزیر صاحب نے قطعاً اپنے منفی رویہ پر معذرت نہیں کی۔
خیر سیاست دانوں کو چھوڑیئے۔ ہاں درمیانہ طبقہ، طلباء اور طالبات اور نوجوانوں کی اکثریت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کافی محنت کی۔ اپنے زور بازو پر چندہ اکٹھا کیا اور دل کھول کر بحالی کے لیے کام کیا۔ مگر ذمہ داری تو حکومت کی ہی بنتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس بحالی میں کیوں ناکام رہی۔ سرکاری ہوائی جہاز پر براجمان ہو کر یہ آسمان سے تباہی کو دیکھتے رہے اور پھر بے جان قسم کے بیانات دیتے رہے۔ مگر عملی کام میں بری طرح ابتری میں مبتلا رہے۔ ملک کے دولت مند طبقے کی طرف دیکھتا ہوں تو دل بیٹھتا ہے۔
اربوں روپے کمانے والے افراد بھی غریب کا درد محسوس نہیں کرتے۔ شاید آپ میری بات تسلیم نہ فرمائیں۔اگر صرف پرائیویٹ لوگوں کی گھریلو تجوریوں کو سرکاری طرز سے کھولا جائے تو اس میں اتنا کثیر ناجائز سرمایہ موجود ہے کہ ملک کی قسمت سنور سکتی ہے۔ مگر ان کی ذاتی دولت لوہے کی الماریوں میں محفوظ موجود رہتی ہے۔ کسی ٹیکس یا کسی سرکاری پہنچ سے دور۔ بہرحال اس سچ کو سب جانتے ہیں مگر بیان کوئی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حمام میں تمام ننگے ہیں۔ ہمارا ملک امیر آدمی کے لیے جنت سے کم نہیں۔ کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں۔
کسی فلاحی کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں۔ بلکہ ہر سہولت ان کے قدموں میں پڑی ہوئی ہے۔ ہاں، بیانات کی حد تک یہ حددرجہ درد مند دل کے مالک نظر آتے ہیں۔ پر یہ صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی آدمی دن کے پانچ سو کماتا ہے اور اس میں سے پانچ یا دس روپے کسی مفلس کی دادرسی کے لیے خرچ کرتا ہے تو وہ حقیقت میں امیر اور سخی ہے۔ مگر ان کا کیا کریں جو ہمارے ملک میں دولت کے انبار پر سانپ کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں اور کارخیر پر ایک دھیلہ بھی خرچ کرنے کے روا نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ ملکہ زبیدہ سے زیادہ امیر ہوں مگر زبیدہ بنت جعفر جیسی اعلیٰ ظرفی کہاں سے لائیں گے۔ ان کا گمان ہے کہ انھوں نے کبھی نہیں مرنا یا شاید قبر میں اپنی دولت سمیت دفن ہوں گے۔ بہرحال یہ کنجوسی کے بادشاہ ہیں۔ ان سے کسی نیکی کی توقع کرنا عبث ہے۔
مکہ میں بڑے عرصے سے بارش نہیں ہوئی تھی اور قحط کا عالم تھا۔ فوراً کنویں کے پاس گئی اور حکم دیا کہ کنویں کو گہرا کیا جائے تاکہ پانی وافر طور پر میسر رہے۔ سلطنت سے بہترین انجینئر بلائے گئے۔ انھوں نے جو تخمینہ دیا وہ حد سے زیادہ تھا، تقریباً بیس لاکھ دینار۔ زبیدہ نے کسی کاغذ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا اور فوراً تمام رقم مہیا کر دی۔
زم زم کے کنویں کو حددرجہ عمدہ طریقے سے کھودا گیا اور پانی کا فیض آج تک ہر خاص و عام کے لیے جاری ہے۔ اب پانی کی مسلسل فراہمی کا مرحلہ تھا۔ مکہ سے پچانوے کلومیٹر دور ہنیان کا چشمہ تھا۔ شہر اور چشمہ کے درمیان حد درجہ دشوار پہاڑ اور صحرا تھے۔ زبیدہ نے حکم دیا کہ ہنیان کے چشمہ سے ایک نہر نکالی جائے جو مکہ تک پانی لے کر آئے۔
انجینئر اور دیگر عملہ نے ملکہ کو بتایا کہ ایسا کرنا ناممکن ہے اور اگر ایسے کیا بھی جائے تو یہ حددرجہ مہنگا منصوبہ ہو گا۔ حکم دیا کہ نہر ہر قیمت پر کھودی جائے۔ اس کا ایک تاریخی فقرہ ہے جو آج تک تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ ''اگر تیشہ کی ایک ضرب کی قیمت ایک دینار بھی ہوتی ہے پھر بھی کوئی مسئلہ نہیں۔'' یہ ایک سو اسی ہجری کا وقت تھا۔ خزانے کے منہ کھول دیے گئے۔
ملکہ نے اپنے ذاتی کاروبار میں سے خطیر رقم اس نہر کی کھدائی کے لیے وقف کر ڈالی۔ ابن خلقان لکھتا ہے کہ اس زمانہ میں پوری دنیا میں اتنی دولت خرچ کر کے نہر بنوانے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ نہر نے اہل مکہ کے مکینوں اور حاجیوں کے لیے فقید المثال آسانی پیدا کر ڈالی۔ فلاحی کاموں اور سخاوت کا دریا صرف اس نہر تک محدود نہیں تھا۔ بغداد سے مکہ تقریباً نو سو میل کی مسافت پر تھا۔
ملکہ نے دنوں شہروں کے درمیان حددرجہ اعلیٰ سطح کی سڑک بنوائی۔ شاہراہ کے ساتھ ساتھ ان گنت کنویں کھدوائے گئے۔ ساتھ ساتھ تالاب تعمیر کروائے تاکہ ان میں بارش کا پانی محفوظ ہو جائے اور سیلاب کی صورت میں جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ابن بطوطہ نے اس سڑک پر سفر کیا اور وہ ششدر رہ گیا۔ قافلوں کی حفاظت کا سرکاری نظام، پانی اور کھانے کی فراہمی نے حاجیوں اور عام آدمی کے لیے حد درجہ سہولتیں پیدا کر دیں۔
ابن بطوطہ نے خاص طور پر پانی کے دو ذخائر کا ذکر کیا ہے۔ برکت ال مرجوم اور ال قاردرا۔ یہاں خلق خدا کے لیے صاف اور ٹھنڈا پانی ہر دم موجود رہتا تھا۔ روایت ہے کہ جب تمام فلاحی کاموں کے اخراجات کا گوشوارا ملکہ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کاغذات کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ بے اعتناعی سے انھیں محل کی بالکونی سے نیچے پھینک ڈالا۔ کہنے لگی کہ اے خدا جس طرح میں نے تیری راہ میں خرچ ہونے والی رقم کا حساب نہیں لیا۔ اسی طرح روز قیامت مجھے بھی حساب کے بغیر بخش دینا۔
زبیدہ بنت جعفر جیسی اعلیٰ ظرف ملکہ بہت کم سلطنتوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ملکہ نے اور بہت سے کام کروائے مگر آج اس غیرعمولی عورت کی سخاوت اور عام آدمی کی بھلائی کے کاموں کا ذکر کروں گا۔ عام آدمی کے درد اور تکلیف کو محسوس کرنا اور اس کے بعد سہولتیں مہیا کرنا بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔
ارتکاز دولت، انسانوں کی جبلت میں موجود ہے مگر دولت کو مفاد عامہ میں خرچ کرنے کی مثالیں حددرجہ کم نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے سو امیر ترین آدمیوں کی فہرست بنایئے۔ آپ کو اس میں سیاست دان، کاروباری افراد، تجارتی دیوہیکل افراد نظر آئیں گے۔ ان کی تجوریوں میں بے حساب دولت موجود ہو گی۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو ہمارے جیسے ملک کا قرضہ تک ادا کر سکتے ہیں۔ پر ان میں سے اکثریت آپ کو مزید دولت کمانے کے مرض میں مبتلا نظرآئے گی۔ عام لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خال خال ہی نظر آتا ہے۔
اگر کوئی نیک کام ہو ہی جائے تو اس کی تشہیر اس زورشور سے کی جاتی ہے جس میں ذاتی نیک نامی کو پروپیگنڈے کے ذریعے ترویج دینا اصل مقصد نظر آتا ہے۔ ہاں ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے متمول لوگوں کی اکثریت ذاتی دولت سے فیض پہنچانے کو شاید گناہ تصور کرتی ہے۔ یہی حالت ہماری این جی اوز کی کثیر تعداد کا ہے۔ لوگوں اور حکومت سے مال بٹور کر بڑی بڑی گاڑیاں خریدتے ہیں۔ پرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ میڈیا پر اپنی نیک نامی کے اشتہارات دیتے ہیں مگر اپنے ذاتی سرمایہ سے ایک ٹکا بھی دینا گوارا نہیں کرتے۔ ملک میں خوفناک سیلاب آیا ہے۔
سندھ کا تین چوتھائی حصہ پانی میں ڈوبا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کے پی اور جنوبی پنجاب میں نقصانات کا بھی کوئی اندازہ نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب نے ہمارے ملک کو حددرجہ برباد کیا ہے۔ مختلف تنظیموں نے نقصان کا حجم پندرہ سے بیس بلین ڈالر بتایا ہے۔ ہمارے سربراہ مملکت اور اکابرین سیلاب کی بحالی کے لیے نیویارک سے لے کر مشرق وسطیٰ کے ہر امیر ملک میں گئے، امداد مانگتے رہے مگر کسی ایک خاندان نے یہ نہیں کیا کہ اپنی ذاتی دولت سے سیلاب زدگان کی بحالی کا کام شروع کر دے۔
امیر ترین خاندانوں کے سربراہان اور بچوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کے لیے اپنی تجوری سے رقم نکال کر لوگوں میں تقسیم کریں۔ اس کے بالکل متضاد یہ لوگ سرکاری اخراجات پر ملکوں سے امداد مانگنے پر لگ گئے۔ مگر کسی ملک نے بھی انھیں وافر امداد نہیں دی۔
غیرملکی سربراہان کے ذہن میں سو فیصد یہ بات ہو گی کہ ہمارے اکثر سیاست دان ملکی دولت کو چوری کرنے کے ماہر ترین افراد ہیں۔ یہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے ملنے والی غیرملکی امداد پر بھی ہاتھ صاف کر سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی دوست ملک نے ان کی مالی مدد نہیں کی۔ خیر موجودہ سیاست دانوں کی اکثریت تو فلاحی کاموں سے ہزاروں نوری سال دور نظر آتی ہے مگر متمول طبقے کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔
سندھ کے ایک صوبائی وزیر کشتی میں بیٹھ کر سیلاب زدگان میں گئے۔ وہاں چند بالکل مفلوک الحال، پانی سے برباد شدہ لوگوں نے ان سے کوئی التجا کی۔ جواب میں وزیر موصوف نے انھیں بری طرح سے ڈانٹا جو کسی بھی شریف آدمی کا مقام نہیں۔ پھر صاف ستھری کشتی میں سوار، بڑے آرام سے ان غریب لوگوں کو بے سہارا چھوڑ کر آگے نکل گئے۔ اس کا ویڈیو کلپ پوری دنیا نے دیکھا مگر وزیر صاحب نے قطعاً اپنے منفی رویہ پر معذرت نہیں کی۔
خیر سیاست دانوں کو چھوڑیئے۔ ہاں درمیانہ طبقہ، طلباء اور طالبات اور نوجوانوں کی اکثریت نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے کافی محنت کی۔ اپنے زور بازو پر چندہ اکٹھا کیا اور دل کھول کر بحالی کے لیے کام کیا۔ مگر ذمہ داری تو حکومت کی ہی بنتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس بحالی میں کیوں ناکام رہی۔ سرکاری ہوائی جہاز پر براجمان ہو کر یہ آسمان سے تباہی کو دیکھتے رہے اور پھر بے جان قسم کے بیانات دیتے رہے۔ مگر عملی کام میں بری طرح ابتری میں مبتلا رہے۔ ملک کے دولت مند طبقے کی طرف دیکھتا ہوں تو دل بیٹھتا ہے۔
اربوں روپے کمانے والے افراد بھی غریب کا درد محسوس نہیں کرتے۔ شاید آپ میری بات تسلیم نہ فرمائیں۔اگر صرف پرائیویٹ لوگوں کی گھریلو تجوریوں کو سرکاری طرز سے کھولا جائے تو اس میں اتنا کثیر ناجائز سرمایہ موجود ہے کہ ملک کی قسمت سنور سکتی ہے۔ مگر ان کی ذاتی دولت لوہے کی الماریوں میں محفوظ موجود رہتی ہے۔ کسی ٹیکس یا کسی سرکاری پہنچ سے دور۔ بہرحال اس سچ کو سب جانتے ہیں مگر بیان کوئی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حمام میں تمام ننگے ہیں۔ ہمارا ملک امیر آدمی کے لیے جنت سے کم نہیں۔ کوئی اخلاقی ذمہ داری نہیں۔
کسی فلاحی کام میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں۔ بلکہ ہر سہولت ان کے قدموں میں پڑی ہوئی ہے۔ ہاں، بیانات کی حد تک یہ حددرجہ درد مند دل کے مالک نظر آتے ہیں۔ پر یہ صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ میرے خیال میں اگر کوئی آدمی دن کے پانچ سو کماتا ہے اور اس میں سے پانچ یا دس روپے کسی مفلس کی دادرسی کے لیے خرچ کرتا ہے تو وہ حقیقت میں امیر اور سخی ہے۔ مگر ان کا کیا کریں جو ہمارے ملک میں دولت کے انبار پر سانپ کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں اور کارخیر پر ایک دھیلہ بھی خرچ کرنے کے روا نہیں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ ملکہ زبیدہ سے زیادہ امیر ہوں مگر زبیدہ بنت جعفر جیسی اعلیٰ ظرفی کہاں سے لائیں گے۔ ان کا گمان ہے کہ انھوں نے کبھی نہیں مرنا یا شاید قبر میں اپنی دولت سمیت دفن ہوں گے۔ بہرحال یہ کنجوسی کے بادشاہ ہیں۔ ان سے کسی نیکی کی توقع کرنا عبث ہے۔