ہتک عزت کا مقدمہ
پاکستان میں ویسے تو ہتک عزت کا فوجداری قانون بھی ہے۔ لیکن اس کا حل دیوانی قانون کی طرح برا ہی ہے
سپریم کورٹ نے شہباز شریف کے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمہ میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق دفاع ختم کیے جانے والے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ میں شامل دو ججوں نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے فیصلہ میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ وہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے حق میں تھیں۔ جبکہ بنچ کے باقی دو ججز نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
پانامہ اسکینڈل جب عروج پر تھا توعمران خان نے شہباز شریف پر الزام لگایا تھا کہ شہباز شریف نے ان کو منہ بند رکھنے کے عوض رشوت کی پیشکش کی ہے۔ شہباز شریف نے عمران خان کے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا اور قانون کے مطابق عمران خان پر دس ارب روپے کا ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔ شہباز شریف کی بہت کوشش رہی 2018ء کے انتخابات سے قبل اس ہتک عزت کے مقدمہ کا فیصلہ ہو جائے۔ لیکن شہباز شریف کی شدید کوشش کے باوجود وہ اس مقدمہ کا فیصلہ نہ کروا سکے۔ وہ خود عدالت میں پیش ہوتے رہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین میں صاف لکھا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا نوے دن میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ان مقدمات کی اہمیت کے پیش نظر یہ بھی قانون بنایا گیا ہے کہ ان مقدمات کی ایڈیشنل سیشن جج سماعت کرے گا۔ ورنہ عمومی طور پر سول جج دیوانی مقدمات کی سماعت کرتا ہے۔ لیکن ہتک عزت کے دیوانی مقدمات کی سماعت بھی ایڈشنل سیشن جج ہی کرتا ہے۔ تاہم پھر بھی ہم نے دیکھا ہے کہ قانون میں لکھنے کے باوجود بھی ملک میں ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ نہیں ہوتا۔
آج کل پاکستان کے عدالتی نظام اور برطانوی عدالتی نظام کا ہتک عزت کے مقدمات کے حوالے سے بھی ایک موازنہ شروع ہے۔ برطانیہ میں حالیہ چند سالوں میں پاکستان سے متعلق ہتک عزت کے مقدمات دائر ہوئے ہیں جن کا بروقت فیصلہ ہوا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کو مثالی جرمانے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی ڈیلی میل کے خلاف مقدمہ جیتا ہے۔ حالانکہ ڈیلی میل نے اس مقدمہ کے بہت بعد میں خبر شائع کی تھی۔ لیکن وہاں فیصلہ جلد ہو جاتا ہے۔
اس لیے ایک عمومی رائے یہی بن گئی ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کو اس طرح سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جیسے پوری دنیا میں لیا جاتا ہے۔ حالانکہ میں بھی سمجھتا ہوں کہ صرف میڈیا کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرہ کو سچ پر قائم رکھنے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ فعال ہتک عزت کا قانون اور عدلیہ کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمات کے بروقت فیصلے نہ صرف میڈیا بلکہ پورے معاشرے کو سچ پر قائم رکھتے ہیں۔ نہ کوئی جھوٹی خبر دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جھوٹا الزام لگا سکتا ہے۔
شہباز شریف کے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمہ میں عمران خان نے ٹرائل کورٹ سے 140بار التوا لیا۔ ملک میں تاریخ پر تاریخ پر کلچر کی اس سے بہترین کوئی مثال نہیں ہو سکتی ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ عدالت سے 140بار التوا لینے کے بعد بھی جب حق دفاع ختم کیا گیا ہے تو عمران خان کو اس پر بھی اعتراض ہے۔
حالانکہ کیا یہ ممکن تھا کہ برطانوی عدالت سے وہ ایک سے دوسری بار التوا مانگ سکتے۔ لیکن یہ پاکستان ہی تھا جہاں حق دفاع ختم کرنے سے پہلے انھیں 140بار التوا دیا گیا۔ 140بار تاریخ دی۔ 140 مواقع دیے۔ لیکن عمران خان کے لیے یہ کافی نہیں تھے۔ وہ اور موقع لینے کے بھی خواہش مند تھے۔ اور ان کے خیال میں ٹرائل کورٹ نے مزید مواقع نہ دیکر ان کے ساتھ بہت زیادتی کر دی ہے۔
ویسے تو لاہور ہائی ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا حق دفاع ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ عمران خان کی اپیل لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔ حالانکہ لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں مثالی ریلیف دیے ہیں۔ لیکن پھر بھی لاہور ہائی کورٹ کا یہی خیال تھا کہ 140مواقع کافی ہوتے ہیں۔ تاہم عمران خان نے اس پر سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر دی۔میں سمجھتا ہوں یہ ٹرائل کورٹ کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں تھا۔ یہ دوران سماعت ایک ضمنی حکم تھا۔ ٹرائل ابھی جاری ہے۔
ٹرائل کورٹ میں سماعت ابھی جاری ہے۔ تاہم ہمارے عدالتی نظام میں آپ ٹرائل کورٹ کے ایک ضمنی حکم کو بھی سپریم کورٹ تک چیلنج کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ممکن نہیں۔ یہ ٹرائل کورٹ کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ جب ٹرائل کورٹ کا ضمنی حکم بھی چیلنج کرتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں گے تو ٹرائل مکمل کیسے ہوگا۔ اس مقدمہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مقدمہ کو لمبا کرنے کے لیے حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ مقدمہ نہیں ہے۔ اگر عمران خان کو کسی نے بھی شہباز شریف کی طرف سے رشوت کی پیشکش کی ہے تو عمران خان کو اس کا نام سامنے لانا چاہیے تھا۔
پہلی تاریخ پر ہی اسے عدالت میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ اس کی گواہی کروانی چاہیے تھی۔ عمران خان کے لیے یہ بات سچ ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا۔ لیکن عمران خان کی جانب سے 140بار التوا نے نہ صرف ان کا کیس کمزور کیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی قائم کیا ہے کہ ان کے پاس اپنے الزام کا نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی گواہی۔ اس لیے وہ مقدمہ کو لمبا کر کے وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے اس مقدمہ کی بہت پیروی کی ہے۔ وہ جیل سے بھی اس مقدمہ کی پیروی کرتے رہے۔ ان کا پہلے دن سے یہ موقف تھا کہ ان کا یہ ایک مضبوط کیس ہے۔
پاکستان میں ویسے تو ہتک عزت کا فوجداری قانون بھی ہے۔ لیکن اس کا حل دیوانی قانون کی طرح برا ہی ہے۔ اس میں عدالت سزائیں دینے میں کوئی خاص سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ہتک عزت کے مقدمات کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔مدعی کو اتنا تھکا دیا جاتا ہے کہ وہ توبہ ہی کرلیتا ہے۔ اس لیے اگر قانون میں نوے دن لکھے ہیں تو فیصلہ نوے دن میں ہونا چاہیے۔ نوے دن میں فیصلہ نہ کرنے والے جج سے بازپرس ہونی چاہیے۔ التوا نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ میں شامل دو ججوں نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے فیصلہ میں اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ وہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے حق میں تھیں۔ جبکہ بنچ کے باقی دو ججز نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
پانامہ اسکینڈل جب عروج پر تھا توعمران خان نے شہباز شریف پر الزام لگایا تھا کہ شہباز شریف نے ان کو منہ بند رکھنے کے عوض رشوت کی پیشکش کی ہے۔ شہباز شریف نے عمران خان کے اس الزام کو جھوٹ قرار دیا اور قانون کے مطابق عمران خان پر دس ارب روپے کا ہتک عزت کا دعویٰ دائر کردیا۔ شہباز شریف کی بہت کوشش رہی 2018ء کے انتخابات سے قبل اس ہتک عزت کے مقدمہ کا فیصلہ ہو جائے۔ لیکن شہباز شریف کی شدید کوشش کے باوجود وہ اس مقدمہ کا فیصلہ نہ کروا سکے۔ وہ خود عدالت میں پیش ہوتے رہے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین میں صاف لکھا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا نوے دن میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ان مقدمات کی اہمیت کے پیش نظر یہ بھی قانون بنایا گیا ہے کہ ان مقدمات کی ایڈیشنل سیشن جج سماعت کرے گا۔ ورنہ عمومی طور پر سول جج دیوانی مقدمات کی سماعت کرتا ہے۔ لیکن ہتک عزت کے دیوانی مقدمات کی سماعت بھی ایڈشنل سیشن جج ہی کرتا ہے۔ تاہم پھر بھی ہم نے دیکھا ہے کہ قانون میں لکھنے کے باوجود بھی ملک میں ہتک عزت کے مقدمات کا بروقت فیصلہ نہیں ہوتا۔
آج کل پاکستان کے عدالتی نظام اور برطانوی عدالتی نظام کا ہتک عزت کے مقدمات کے حوالے سے بھی ایک موازنہ شروع ہے۔ برطانیہ میں حالیہ چند سالوں میں پاکستان سے متعلق ہتک عزت کے مقدمات دائر ہوئے ہیں جن کا بروقت فیصلہ ہوا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کو مثالی جرمانے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی ڈیلی میل کے خلاف مقدمہ جیتا ہے۔ حالانکہ ڈیلی میل نے اس مقدمہ کے بہت بعد میں خبر شائع کی تھی۔ لیکن وہاں فیصلہ جلد ہو جاتا ہے۔
اس لیے ایک عمومی رائے یہی بن گئی ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کے مقدمات کو اس طرح سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جیسے پوری دنیا میں لیا جاتا ہے۔ حالانکہ میں بھی سمجھتا ہوں کہ صرف میڈیا کو ہی نہیں بلکہ پورے معاشرہ کو سچ پر قائم رکھنے کے لیے ہتک عزت کے قانون کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ فعال ہتک عزت کا قانون اور عدلیہ کی جانب سے ہتک عزت کے مقدمات کے بروقت فیصلے نہ صرف میڈیا بلکہ پورے معاشرے کو سچ پر قائم رکھتے ہیں۔ نہ کوئی جھوٹی خبر دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جھوٹا الزام لگا سکتا ہے۔
شہباز شریف کے عمران خان کے خلاف ہتک عزت کے مقدمہ میں عمران خان نے ٹرائل کورٹ سے 140بار التوا لیا۔ ملک میں تاریخ پر تاریخ پر کلچر کی اس سے بہترین کوئی مثال نہیں ہو سکتی ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ عدالت سے 140بار التوا لینے کے بعد بھی جب حق دفاع ختم کیا گیا ہے تو عمران خان کو اس پر بھی اعتراض ہے۔
حالانکہ کیا یہ ممکن تھا کہ برطانوی عدالت سے وہ ایک سے دوسری بار التوا مانگ سکتے۔ لیکن یہ پاکستان ہی تھا جہاں حق دفاع ختم کرنے سے پہلے انھیں 140بار التوا دیا گیا۔ 140بار تاریخ دی۔ 140 مواقع دیے۔ لیکن عمران خان کے لیے یہ کافی نہیں تھے۔ وہ اور موقع لینے کے بھی خواہش مند تھے۔ اور ان کے خیال میں ٹرائل کورٹ نے مزید مواقع نہ دیکر ان کے ساتھ بہت زیادتی کر دی ہے۔
ویسے تو لاہور ہائی ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا حق دفاع ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ عمران خان کی اپیل لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔ حالانکہ لاہور ہائی کورٹ نے حال ہی میں مثالی ریلیف دیے ہیں۔ لیکن پھر بھی لاہور ہائی کورٹ کا یہی خیال تھا کہ 140مواقع کافی ہوتے ہیں۔ تاہم عمران خان نے اس پر سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کر دی۔میں سمجھتا ہوں یہ ٹرائل کورٹ کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں تھا۔ یہ دوران سماعت ایک ضمنی حکم تھا۔ ٹرائل ابھی جاری ہے۔
ٹرائل کورٹ میں سماعت ابھی جاری ہے۔ تاہم ہمارے عدالتی نظام میں آپ ٹرائل کورٹ کے ایک ضمنی حکم کو بھی سپریم کورٹ تک چیلنج کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ممکن نہیں۔ یہ ٹرائل کورٹ کی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ جب ٹرائل کورٹ کا ضمنی حکم بھی چیلنج کرتے ہوئے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں گے تو ٹرائل مکمل کیسے ہوگا۔ اس مقدمہ میں بھی یہی صورتحال ہے۔ مقدمہ کو لمبا کرنے کے لیے حربہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ مقدمہ نہیں ہے۔ اگر عمران خان کو کسی نے بھی شہباز شریف کی طرف سے رشوت کی پیشکش کی ہے تو عمران خان کو اس کا نام سامنے لانا چاہیے تھا۔
پہلی تاریخ پر ہی اسے عدالت میں پیش کرنا چاہیے تھا۔ اس کی گواہی کروانی چاہیے تھی۔ عمران خان کے لیے یہ بات سچ ثابت کرنے کا بہترین موقع تھا۔ لیکن عمران خان کی جانب سے 140بار التوا نے نہ صرف ان کا کیس کمزور کیا ہے بلکہ یہ تاثر بھی قائم کیا ہے کہ ان کے پاس اپنے الزام کا نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی گواہی۔ اس لیے وہ مقدمہ کو لمبا کر کے وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ شہباز شریف نے اس مقدمہ کی بہت پیروی کی ہے۔ وہ جیل سے بھی اس مقدمہ کی پیروی کرتے رہے۔ ان کا پہلے دن سے یہ موقف تھا کہ ان کا یہ ایک مضبوط کیس ہے۔
پاکستان میں ویسے تو ہتک عزت کا فوجداری قانون بھی ہے۔ لیکن اس کا حل دیوانی قانون کی طرح برا ہی ہے۔ اس میں عدالت سزائیں دینے میں کوئی خاص سنجیدہ نظر نہیں آتی ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق ہتک عزت کے مقدمات کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔مدعی کو اتنا تھکا دیا جاتا ہے کہ وہ توبہ ہی کرلیتا ہے۔ اس لیے اگر قانون میں نوے دن لکھے ہیں تو فیصلہ نوے دن میں ہونا چاہیے۔ نوے دن میں فیصلہ نہ کرنے والے جج سے بازپرس ہونی چاہیے۔ التوا نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر ختم ہونا چاہیے۔