مالی سال کی پہلی ششماہی ایف بی آر ٹیکس ہدف پانے میں ناکام

ٹیکس وصولی صرف3.4ٹریلین روپے رہی، 220ارب کے ریکارڈشارٹ فال کاسامنا


Shahbaz Rana December 31, 2022
انکم ٹیکس وصولی 1.5 ٹریلین رہی، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 481 ارب زائد ہے۔ فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی گزشتہ روز تک ٹیکس وصولی صرف 3.4 ٹریلین روپے رہی۔

حکومت کو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران اپنے ٹیکس ہدف کے حصول میں تقریباً 220 ارب روپے کے ریکارڈ شارٹ فال کا سامنا ہے، جس کی بڑی وجوہات میں منفی معاشی پالیسیاں، تاجروں کو دی جانے والی چھوٹ اور قانونی طور پر قابل اعتراض ٹیکسیشن وغیرہ شامل ہیں۔

جولائی تا دسمبر کے 3.65 ٹریلین روپے کے ہدف کے مقابلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے جمعے تک محض 3.4 ٹریلین روپے اکٹھے کیے، جو ریکارڈ مارجن کے ساتھ ہدف سے کم رہے۔ تاہم اس ریکارڈ کمی کو دیکھتے ہوئے حکومت کے ٹیکس دفاتر ہفتہ (آج) کو چھٹی والے دن بھی کھلے رہیں گے، یوں حکومت کی ٹیکس وصولی میں مزید 20 سے 25 ارب روپے تک اضافہ ہونے کی توقع ہے۔

اس میں ایک گورنمنٹ ہولڈنگ کمپنی کی جانب سے تقریباً 8.5 ارب روپے بشمول سپر ٹیکس کی ادائیگی بھی شامل ہے، جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی ہے۔ 965.2 ارب روپے کے ماہانہ ہدف کے مقابلے میں ایف بی آر جمعہ تک 713 ارب روپے ہی جمع کرسکا تھا۔

ٹیکس حکام کا خیال ہے کہ ہدف کے حصول میں رہ جانے والی کمی کو وہ رواں مالی سال کے دوسرے نصف میں پورا کرلیں گے لیکن یہ امر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پاکستان کو اضافی ٹیکس اقدامات پر مجبور کرنے کے لیے اضافی مددگار مواد فراہم کرسکتا ہے۔

ایف بی آر میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ہفتہ (آج) کی شام تک ماہانہ وصولی کو 740 ارب روپے تک بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن پھر بھی وصولی میں تقریباً 220 ارب روپے کی کمی کے باعث حکومت نئے دباؤ کا شکار ہوجائے گی۔

ایف بی آر حکام کے مطابق پچھلے سال کی اسی مدت میں 2.92 ٹریلین روپے کے محصولات اکٹھے کیے گئے تھے، جس کے مقابلے میں اس سال 3.4 ٹریلین روپے وصول کیے گئے ہیں، جو کہ گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 16.5 فیصد زائد ہے۔

ایف بی آر نے گزشتہ سال کے 149 ارب روپے کے مقابلے میں رواں سال 175.5 ارب روپے کے ریفنڈز بھی جاری کیے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں انکم ٹیکس کی وصولی 1.5ٹریلین روپے رہی، جو گزشتہ مالی سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں 481 ارب روپے یا 48 فیصد زیادہ ہے۔ تاہم یہ وصولی بھی ہدف سے 44 ارب روپے کم رہی۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے سپر ٹیکس کے نفاذ کے خلاف فیصلہ دیا ہے لیکن پھر بھی حکومت نے ''او جی ڈی سی ایل'' جیسی پبلک لسٹڈ سرکاری کمپنی کو سپر ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا، جس کی سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو تحقیقات کرنی چاہیے کیونکہ یہ شیئر ہولڈرز کا پیسہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں