عیسوی نیا سال کیا ہمیں یہ زیب دیتا ہے
نئے سال کی آمد پرایک مسلمان کو دو چیزیں لازمی کرنی چاہئیں، ماضی کا احتساب اور مستقبل کا لائحہ عمل
آج کا مسلمان نئے سال کی آمد پر اسراف کرکے جشن مناتا ہے۔ (فوٹو: فائل)
اسلام ایک ایسا پاکیزہ اور مکمل دین ہے جو انسانیت کی اصلاح و فلاح کےلیے اتارا گیا۔ اس کے اندر تمام تر انسانی وسائل کا حل موجود ہے، خواہ ان کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، خواہ ان کا تعلق خوشی کے افعال سے ہو یا غم کے احوال سے۔ اسلام ہر مسئلے کو بہت ہی نرالے اور واضح انداز میں بیان کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں دو قسم کے کیلنڈر موجود ہیں۔ ایک ہجری کیلنڈر اور دوسرا عیسوی کیلنڈر۔ مسلمانوں کا اصلی کیلنڈر عیسوی نہیں ہجری ہے۔ ہجری کیلنڈر کا آغاز محرم سے ذی الحجہ مہینہ کے اختتام پر ہوتا ہے اور اس اسلامی نئے سال کے آغاز میں عرب ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں اور اس اسلامی نئے سال کے آغاز میں ہمیں دو کام کرنے چاہئیں:
(1) ماضی کا محاسبہ
(2) مستقبل کا لائحہ عمل
جبکہ عیسوی کیلنڈر کا آغاز جنوری سے اور اختتام دسمبر کے مہینے پر ہوتا ہے۔ لوگ بڑی شدت سے نئے سال کا انتظار کررہے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ بہت سے مسلمان حتیٰ کہ بعض حکومتیں بھی اس نئے سال کا جشن منانے کی تیاری کرتی ہیں۔
آئیے! پہلے ہم اس ''نیو ایئر'' کی تاریخ دیکھتے ہیں:
دراصل اس نیو ایئر نائٹ کا آغاز انیسویں صدی کے آغاز میں نیوی کے نوجوان کی طرف سے کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل نیوی کے نوجوانوں کا زیادہ حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا، یہ لوگ سمندر کے تھکا دینے والے سفر سے بیزار ہوجاتے تھے تو جہازوں کے اندر ہی اپنی دلچسپی کا سامان تیار کرلیتے تھے۔ یہ لوگ تقریبات کے مواقع تلاش کرتے رہتے تھے۔ سالگرہ، ویک اینڈ اور کرسمس کا اہتمام کرتے۔ انہیں تقریبات کے دوران کسی نے یہ کہا: کیوں نہ ہم سب مل کر نئے سال کو خوش آمدید کہیں۔ انہیں یہ تجویز اچھی لگی، لہٰذا دسمبر کی 31 تاریخ کو سارا عملہ اکٹھا ہوا اور جہاز کا ہال روم سجا کر میوزک کا انتظام کرکے ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارک باد دی۔ برٹش رائل نیوی کے جہاز سے شروع ہونے والا یہ تہوار دوسرے جہازوں پر پہنچا، اور اس طرح یہ دنیا میں منایا جانے والا تہوار بن گیا۔ اگرچہ یہ عیسائیوں کی ایک رسم ہے جو اب مسلمانوں میں بھی مقبول ہوچکی ہے۔
نئے سال کی آمد پر استقبالیہ جشن کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی ہیں۔ دنیا بھر میں رنگ برنگی لائٹوں اور برقی قمقموں سے سجاوٹ ہورہی ہے۔ 31 دسمبر کی رات میں 12 بجنے کا شدت سے انتظار کیا جائے گا اور 12 بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جائے گی، کیک کاٹا جائے گا، ہر طرف ہیپی نیو ایئر کی صدا گونجے گی، آتش بازیاں کی جائیں گی، فضول خرچی کے ریکارڈ توڑے جائیں گے، آتش بازی اور پارٹیوں کے نام پر سبقت اور رب کی ناراضی مول لی جائے گی۔
افسوس! صد افسوس، اس امت کے کروڑوں روپے صرف ایک رات میں ضائع ہوجاتے ہیں۔ خوشیاں منانے کے نام پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرکے اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں، اور کئی لوگوں کو اس موقعے پر اپنی جان تک گنوانی پڑتی ہے۔ آج مسلم قوم بھی اس رات کےلیے ہزاروں لاکھوں خرچ کررہی ہے۔ اگر ان کا یہی مال غریبوں اور مجبوروں کے کاموں میں ان کی مدد میں خرچ ہو تو اس سے اللہ بھی راضی اور زندگی کا کچھ مقصد بھی حاصل ہو۔
یاد رکھیے! کتاب و سنت کے مطابق کیا گیا لمحہ کا عمل کتاب و سنت کے خلاف کیے ہوئے صدیوں کے عمل سے بہتر ہے۔
مالک کائنات نے ہر چیز کی ایک حد مقرر فرمائی ہے، کہ اس حد سے آگے نہ بڑھو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (الاعراف:31)
ترجمہ: ''اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
یعنی جو تمہارے لیے حدود مقرر کی گئی ہیں انہیں میں رہو اور ان سے نکلنے کی کوشش مت کرو، کیونکہ حد سے نکلنے کی ادا رب کو پسند نہیں۔ مال کا اسراف کرنا یعنی فضول خرچی کرنا یہ مسلمان کا شیوہ نہیں بلکہ اسراف کرنے والے کو رب تعالیٰ نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (الاسراء:26 -27)
ترجمہ: ''اور مال کو بے جا خرچ نہ کرو، بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔''
علامہ نحلاوی لکھتے ہیں:
ترجمہ: ''اسراف کی مذمت کی اصل وجہ یہ ہے کہ مال دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت اور آخرت کےلیے کھیتی کے مانند ہے، جب مال اللہ کی نعمت ہے تو اس میں اسراف دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بے توقیری، ناقدری اور ناشکری ہے جو اللہ کی ناراضی، غصہ اور عتاب کا ذریعہ ہے۔ ناقدری اور ناحق شناسی کی وجہ سے ملنے والے سے واپسی کا تقاضا کرتی ہے، جیسا کہ قدردانی اور نعمت کی حفاظت کی وجہ سے نعمت برقرار اور زیادہ ہوتی ہے۔''
باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
لَٮِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّـكُمْ
ترجمہ: ''اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا۔'' (سورۃ ابراہیم 7)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ۔ (ترمذی 2/58 قدیمی)
ترجمہ: ''آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔''
لیکن آج کا مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے، اسراف کرتا ہے، خوشیاں مناتا ہے، کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسین یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے۔ سال ختم ہوتا ہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔
ہمیں تو یہ جشن منانا، یہ آتش بازی کرنا، یہ فضول خرچی کے پہاڑ توڑنا نہیں سکھایا گیا، بلکہ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ اگر دن گزر جائے اور تم اپنے اعمال میں اضافہ نہ دیکھ سکو تو نادم ہوجاؤ کہ ایک قیمتی دن رخصت ہوگیا اور میرے اعمال میں نیکی کا اضافہ اور گناہوں میں کمی نہ ہوئی۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ (قیمة الزمن عند العلماء، ص: 27)
حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔ (قیمة الزمن عند العلماء، ص: 27)
مسلمانوں کو دوسری قوموں کی مشابہت سے بچنے کی سخت ضرورت ہے؛ اس لیے کہ ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔ (ابودوٴد 2/203 رحمانیہ)
ترجمہ: ''جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔
نئے سال کی آمد پرایک مسلمان کو دو چیزیں لازمی کرنی چاہئیں۔ سب سے پہلے ماضی کا احتساب، کیونکہ نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
حَاسِبُوْا أنْفُسَکُمْ قَبْلَ أنْ تُحَاسَبُوْا۔ (ترمذی 4/247 ابواب الزہد، بیروت)
ترجمہ: ''تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے۔''
اس لیے ہم سب کو ایمان داری سے اپنا اپنا مواخذہ اور محاسبہ کرنا چاہیے اور ملی ہوئی مہلت کا فائدہ اٹھانا چاہیے، اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے۔
دوسرا کام جو ایک مسلمان کو کرنا چاہیے وہ ہے ''لائحہ عمل''۔ اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان خطا کا پتلا ہے، اس سے غلطیاں تو ہوں گی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔ یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ھَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ۔ (مشکاة المصابیح 2/441 کتاب الرقاق)
ترجمہ: ''پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔''
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ۔ (سورہٴ نجم، آیت/ 39,40,41)
ترجمہ: ''اور ہر انسان کےلیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بے شک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔''
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نئے سال کے موقع پر مسلمانوں کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟
بعض کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے تھے:
اللّٰھُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ (المعجم الاوسط للطبرانی 6/221 حدیث: 1426 دارالحرمین قاہرہ)
ترجمہ: ''اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن و ایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔''
اس دعا کو پڑھنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ جشن منا کر غیروں کی تقلید سے بچنا چاہیے۔ فضولیات اور اسراف سے بچتے ہوئے گزشتہ گناہوں پر نادم ہوکر رب تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے، اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کےلیے غروب ہوجائے کچھ کرلینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے، اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔
دعا ہے رب تعالیٰ ان فضولیات و اسراف سے بچتے ہوئے ہم سب کو اسلام کی حقیقی معنوں میں سمجھ اور اس پر عمل کرتے ہوئے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم امین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔