سال 2022ء ڈالر کے مقابل روپے کی قدر میں 319 فیصد کمی
2022 کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح و بیروزگاری حکومت کیلئے بڑے چیلینجز ثابت ہوئے
سال 2022ء میں انٹربینک میں ڈالر کی بہ نسبت روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 28.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں قدر 31.9 فیصد گھٹ گئی، ساتھ ہی پاؤنڈ، یورو، درہم اور سعودی ریال کی اڑان بھی تیز رفتار رہی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کلینڈر سال 2022ء کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مجموعی طور پر 49.92 روپے کے اضافے سے سال کے اختتام پر 226.43 روپے کی سطح پر بند ہوئی جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 57 روپے کے اضافے سے 235.50 روپے پر بند ہوئی۔
سال 2022 کے دوران انٹربینک میں 7 فروری کو ڈالر کی کم سے کم سطح 174.47 روپے اور 28جولائی کو 239.94 روپے کی بلند سطح ریکارڈ کی گئی۔
2022 کے دوران برطانوی پاؤنڈ کے انٹربینک ریٹ 34.79 روپے کے اضافے سے 273.07 روپے, یورو کرنسی کی قدر 41.67 روپے کے اضافے سے 241.30 روپے, اماراتی درہم کی قدر 13.32 روپے کے اضافے سے 61.65 روپے اور سعودی ریال کی قدر 12.37روپے کے اضافے سے 60.20روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مجموعی طور پر 57روپے کے اضافے سے 23.50روپے, برطانوی پاؤنڈ کی قدر 61روپے کے اضافے سے 300روپے, یورو کی قدر 63.50روپے کے اضافے سے 264.50روپے اماراتی درہم کی قدر 18.90روپے کے اضافے سے 69روپے اور سعودی ریال کی قدر 19.80روپے کے اضافے سے 65.90روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
سال 2022 کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح و بیروزگاری بڑے چیلینجز ثابت ہوئے، ڈالر کی اونچی اڑان, شرح سود میں اضافے, افراط زر کی شرح بڑھنے اور پیٹرولئیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت تنقید کی زد میں رہی اور عوام مشکل حالات سے نبرد آذما رہے۔
2022 کے دوران برآمدات میں کمی سے مہنگائی کی شرح 27.2فیصد بڑھ کر کے 49 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے, ذرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 5.8 ارب ڈالر کے ساتھ 9سال کی کم ترین سطح پر آنے, اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 9فیصد کی کمی اور شرح سود بڑھ کر 16فیصد کے ساتھ 23سال کی بلند سطح پر پہنچنے جیسے عوامل روپیہ کی قدر پر اثرانداز رہے۔
ڈالر کی پڑوسی ملک میں اسمگلنگ کے باعث حکومت کی جانب سے درآمدات کو محدود کرنے سمیت دیگر اقدامات بھی بے سود رہےجبکہ معاشی ماہرین کی جانب سے نادھندگی کی پیشگوئیوں نے پورے سال کے دوران لوگوں نے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی غرض سے ڈالر ودیگر کرنسیوں اور سونے کی خریداری پر توجہ مرکوز رکھی۔
کلینڈر سال 2022 کے دوران سعودی عرب چین ودیگر عالمی وایشیائی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے علاوہ پرانے ڈپازٹس کی وصولیاں موخر کرنے جیسے عوامل کے باعث اگرچہ عارضی بنیادوں پر ڈالر کی قدر میں کمی بھی ہوئی لیکن مستقبل میں کوئی نیا قرضہ نہ ملنے, بیرونی ادائیگیوں کے چیلنجز اور نادھندگی کی لٹکتی تلوار کے باعث روپیہ ڈانواڈول رہا۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور مطلوبہ فارن کرنسی کا بندوبست ہونے کی صورت میں نئے سال کے دوران معیشت قدرے بہتری کی جانب گامزن ہوسکے گی بصورت دیگر ڈالر نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کلینڈر سال 2022ء کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مجموعی طور پر 49.92 روپے کے اضافے سے سال کے اختتام پر 226.43 روپے کی سطح پر بند ہوئی جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 57 روپے کے اضافے سے 235.50 روپے پر بند ہوئی۔
سال 2022 کے دوران انٹربینک میں 7 فروری کو ڈالر کی کم سے کم سطح 174.47 روپے اور 28جولائی کو 239.94 روپے کی بلند سطح ریکارڈ کی گئی۔
2022 کے دوران برطانوی پاؤنڈ کے انٹربینک ریٹ 34.79 روپے کے اضافے سے 273.07 روپے, یورو کرنسی کی قدر 41.67 روپے کے اضافے سے 241.30 روپے, اماراتی درہم کی قدر 13.32 روپے کے اضافے سے 61.65 روپے اور سعودی ریال کی قدر 12.37روپے کے اضافے سے 60.20روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مجموعی طور پر 57روپے کے اضافے سے 23.50روپے, برطانوی پاؤنڈ کی قدر 61روپے کے اضافے سے 300روپے, یورو کی قدر 63.50روپے کے اضافے سے 264.50روپے اماراتی درہم کی قدر 18.90روپے کے اضافے سے 69روپے اور سعودی ریال کی قدر 19.80روپے کے اضافے سے 65.90روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
سال 2022 کے دوران بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح و بیروزگاری بڑے چیلینجز ثابت ہوئے، ڈالر کی اونچی اڑان, شرح سود میں اضافے, افراط زر کی شرح بڑھنے اور پیٹرولئیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت تنقید کی زد میں رہی اور عوام مشکل حالات سے نبرد آذما رہے۔
2022 کے دوران برآمدات میں کمی سے مہنگائی کی شرح 27.2فیصد بڑھ کر کے 49 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے, ذرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 5.8 ارب ڈالر کے ساتھ 9سال کی کم ترین سطح پر آنے, اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں 9فیصد کی کمی اور شرح سود بڑھ کر 16فیصد کے ساتھ 23سال کی بلند سطح پر پہنچنے جیسے عوامل روپیہ کی قدر پر اثرانداز رہے۔
ڈالر کی پڑوسی ملک میں اسمگلنگ کے باعث حکومت کی جانب سے درآمدات کو محدود کرنے سمیت دیگر اقدامات بھی بے سود رہےجبکہ معاشی ماہرین کی جانب سے نادھندگی کی پیشگوئیوں نے پورے سال کے دوران لوگوں نے اپنے سرمائے کو محفوظ بنانے کی غرض سے ڈالر ودیگر کرنسیوں اور سونے کی خریداری پر توجہ مرکوز رکھی۔
کلینڈر سال 2022 کے دوران سعودی عرب چین ودیگر عالمی وایشیائی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے علاوہ پرانے ڈپازٹس کی وصولیاں موخر کرنے جیسے عوامل کے باعث اگرچہ عارضی بنیادوں پر ڈالر کی قدر میں کمی بھی ہوئی لیکن مستقبل میں کوئی نیا قرضہ نہ ملنے, بیرونی ادائیگیوں کے چیلنجز اور نادھندگی کی لٹکتی تلوار کے باعث روپیہ ڈانواڈول رہا۔
ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور مطلوبہ فارن کرنسی کا بندوبست ہونے کی صورت میں نئے سال کے دوران معیشت قدرے بہتری کی جانب گامزن ہوسکے گی بصورت دیگر ڈالر نئی بلندیوں کو چھوئے گا۔