کراچی میں قتل و غارت گری اور ڈکیتی کی وارداتیں

تازہ خبر ٹی وی پر گردش کر رہی ہے کہ ایک نجی بینک میں ڈکیتی، لوگ خوف و ہراس میں بھاگ دوڑ رہے ہیں، پناہ کی تلاش میں ہیں

nasim.anjum27@gmail.com

گزشتہ کئی سالوں سے کراچی پھر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، ان دنوں گزرے سالوں کی طرح کراچی کے شہری راہزنوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ پچاس، ساٹھ نوجوانوں کو مزاحمت کرنے پرفائرنگ کر کے قتل کردیا جاتاہے۔ مال و اسباب بھی لوٹتے ہیں اور انسانی جانوں سے بھی کھیلتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ پولیس کہاں ہے؟

شہرقائد میں سیکڑوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قتل کے بعد بھی کسی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے ہیں، بلاناغہ ڈاکو واردات کر رہے ہیں، کبھی بینک لوٹتے ہیں تو کبھی اپنی رقم نکلوا کر جانے والوں سے اس کی جمع پونجی چھین لیتے ہیں ان کے بچاؤ کی صورت میں ذرہ برابر آسرا نہیں کرتے ہیں، بلکہ اسلحہ کا استعمال بڑی آسانی سے کرتے ہیں اور جائے واردات سے فرار ہو جاتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں، جس وقت میں کالم لکھ رہی ہوں.

تازہ خبر ٹی وی پر گردش کر رہی ہے کہ ایک نجی بینک میں ڈکیتی، لوگ خوف و ہراس میں بھاگ دوڑ رہے ہیں، پناہ کی تلاش میں ہیں۔ پولیس واردات کے بعد ہی پہنچتی ہے، پھر ایسے محافظوں کا کیا فائدہ؟

سندھ حکومت عوام کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکی ہے، سلمیٰ بیگم، نزہت خاتون، مسز کلثوم اور دوسری بہت سی مائیں اپنے جواں سالہ بیٹے ہمیشہ کے لیے کھو چکی ہیں، کیا ماں باپ اس دن کے لیے تعلیم و تربیت کی ذمے داری پوری کرتے ہیں کہ ایک دن وہ بے دردی کے ساتھ قتل کر دیے جائیں گے اگر پولیس اپنی ذمے داری پوری کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ ایسا جانی ومالی خسارہ اٹھائیں جس کا کوئی ازالہ نہ کرسکے۔

پاکستان کے چاروں صوبے بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، اغوا، ڈکیتی، مہنگائی ساتھ میں سگ گزیدگی کے واقعات بھی ہر روز رونما ہوتے ہیں۔اسٹریٹ کرائم سے شاید ہی کوئی شہر محفوظ ہو۔ بچوں کا اغوا اور ان کا قتل روز کا معمول بن چکا ہے، قاتل اکثر اوقات گرفتار بھی کرلیے جاتے ہیں، لیکن بہت جلد اثر و رسوخ کی بنا پر انھیں رہا کردیا جاتا ہے، وہ باہر آ کر پھر واردات کرتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ قانونی ادارے اور پولیس ڈپارٹمنٹ مل کر مجرموں کی اصلاح اور روزگار کے لیے خصوصی انتظام کرتے، آوارہ اور بدقماش نوجوانوں کو گلی، کوچوں اور شاہراہوں پر بے مقصد گھومنے پھرنے پر پابندی لازمی اور قانون کا حصہ بنا دیا جاتا، اگر نئے سرے سے قوانین میں ترامیم کی جائے۔ تو اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اس ضمن میں والدین کی ذمے داری بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

معاشرتی دہشت گردی نے گھروں کا سکون اور والدین کا چین لوٹ لیا ہے، سالہا سال سے لاپتہ افراد کا اب تک پتا نہیں چل سکا ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ عدالت نے بارہا برہمی کا اظہار کیا ہے اور پولیس کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ نے جے آئی ٹیز اور صوبائی ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن وہ ہدایت ہی کیا جس پر عمل نہ کیا جائے، گزشتہ دنوں ضلع وسطی میں ڈاکوؤں نے کار سوار سے 75 لاکھ روپے لوٹ لیے اور فرار ہوگئے۔ 2 دسمبر کو ہونے والی ڈکیتی کا تاحال سراغ نہیں مل سکا ہے، یہ پہلی واردات ہرگز نہیں ہے ایسی وارداتیں اور قتل و غارت کا ہونا اس شہر بے اماں کا لازمی جز بن چکا ہے۔


شہر کی بدامنی اور گھریلو خانہ جنگی نے بھی بچوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، مفلسی و غربت نے معصوم بچوں کی خوشیوں اور سنہرے مستقبل کو داغ دار کردیا ہے۔ بیرون ممالک میں بچوں کے ساتھ بڑوں کی کفالت، علاج و معالجہ کی ذمے داری بھی حکومت کو اٹھانی پڑتی ہے کہ وہ اسے اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہاں وہ جرائم کم ہوتے ہیں جو بھوک اور غربت کے باعث جنم لیتے ہیں۔ مرد و زن میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان مرد کی کفالت کی ذمے داری سے چشم پوشی ہے۔

عورت کی ناقدری اور توہین، ساتھ میں اس کی محنت کی کمائی کو ہتھیا لینا، یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے گھروں میں لڑائی جھگڑے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور نتیجہ ''طلاق'' پر نکلتا ہے۔ ان حالات میں بچے در بہ در ہو جاتے ہیں، کوئی ان کی تعلیم و تربیت کرنے والا نہیں ہوتا ہے اگر دادا، دادی یا ننھیال میں کوئی ان کی دیکھ بھال کی ذمے داری اٹھانے کا اہل ہوتا ہے، تب بھی وہ والدین کا بدل ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ انھی وجوہات کے تحت وہ سڑکوں پر آ کر جوے اور نشے کی لت میں پڑ جاتے ہیں۔

آج پاکستان کے کئی شہروں خصوصاً کراچی میں تعلیم یافتہ اور جہلا سب ایک ہی راہ پر گامزن ہیں وہ ہے نشہ۔ منشیات فروشوں نے تعلیمی درسگاہوں کا رخ کرلیا ہے، طلبا و طالبات بھی اس خطرناک وبا میں مبتلا ہو گئے ہیں، نشے کے عادی لوگوں کی واپسی ذرا مشکل سے ہوتی ہے، نشے کے عادی نوجوان کسی بھی حوالے سے شکست و ریخت کو بھلانے کے لیے نشے کا سہارا لیتے ہیں لیکن اس کا علاج ممکن ہے اور ساتھ میں مریض کا تعاون ضروری ہے۔

کراچی میں کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں کے مکین چرس اور افیون کے استعمال کے ساتھ دوسرے نشے بھی کرتے ہیں۔ گھر کے ایک دو افراد اس عادت میں مبتلا نہیں ہیں، بلکہ پورا کا پورا خاندان نشے کا عادی بن چکا ہے۔ بچے، بڑے سب اپنی کھولیوں یا گلیوں اور گھر کے باہر بیٹھ کر سگریٹ یا بیڑی کے کش لگاتے ہیں۔

امرا، غربا اپنے اپنے اسٹیٹس کے اعتبار سے نشہ کرتے ہیں۔ شیشہ پینے کے لیے باقاعدہ کیفے اور بار موجود ہیں، حکومت کی طرف سے پابندی بھی عائد کی گئی تھی لیکن اب بھی طلبا چوری چھپے اپنی صحت کو برباد کرنے اور اپنے خاندان کی بدنامی کا باعث بن کر اپنے روشن مستقبل سے بہت دور ہوگئے ہیں۔ ان تمام حالات اور درد ناک واقعات کا محرک والدین تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی غفلت بھی ہے کہ وہ قانونی اداروں، رینجرز اور پولیس ڈپارٹمنٹ کے فرائض سے لاپرواہی کا مظاہرہ ببانگ دہل کرتی ہے۔

ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ، گورنر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر اعلیٰ حضرات فائز ہوتے ہیں، پھر عوام کی بھلائی اور حفاظت کے لیے کئی ادارے کام کر رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سب ایک ہی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور وہ ہے صرف اور صرف اپنے مفاد کی، جس کو جیسا عہدہ میسر ہے وہ اپنا اور اپنے خاندان کی بہتری اور فائدے کو مدنظر رکھتا ہے۔ یہی ناانصافی ملک اور اس کے باسیوں کو دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ ملک مقروض اور جگ ہنسائی کا باعث بن جاتا ہے۔

شہریوں کو ایک بڑے مسئلے نے خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ ہے آوارہ کتوں کی بہتات۔ ان کی وجہ سے ہر روز نیا حادثہ ہوتا ہے۔ کراچی کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے، آوارہ اور پاگل کتے موٹرسائیکل سواروں کے پیچھے دوڑتے ہیں، راہگیروں کو کاٹتے ہیں اس طرح حادثات اور اموات میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی متعلقہ اداروں سے باز پرس کرنے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا شہری ٹیکس بھی ادا کریں اور بدلے میں افلاس، معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑے۔
Load Next Story