معاشرتی پسماندگی
ظاہر ہے جیسے بڑے ویسے بچے۔مگر افسوس آج کے معاشرے میں محبتوں کا کوئی مول نہیں ایثار کی کوئی اہمیت نہیں
اللہ رب العزت نے 'دین مبین' کی آفاقی تعلیمات میں ہر تعلق سے متعلق حقوق مقرر فرمائے۔ مثلا والدین کے حقوق،اولادکے حقوق،رشتے داروں کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، نوکروں (غلاموں) کے حقوق الغرض سب کے حقوق متعین کردیے جن کی ادائیگی میں ہی انسانی و معاشرتی فلاح ہے مگر افسوس ان آفاقی تعلیمات کو آج کا مسلمان نفسا نفسی کے سبب فراموش کرچکااور جنھیں غیر مسلموں نے اپنا طرہ امتیاز بنا لیا اور انھی وجوہات کے باعث معاشرے کے خدوخال میں بگاڑپیدا ہورہا ہے جو رفتہ رفتہ تباہی اور بربادی کی طرف رواں دواں ہے۔
باری تعالیٰ نے گھر میں کام کرنے والوںکے حقوق کے حوالے سے فرمایا کہ''جو خود کھاؤانھیں کھلاؤ،جو کچھ پہنو انھیں پہناؤ''مگر حال ہی میں ایک ایسا تکلیف دہ واقعہ ظہور پذیر ہوا جس کو سوچنا تو درکنار محسوس کرنے سے بھی اذیت ہوتی ہے کہ خدا نے انسان کے لیے کتنے عظیم حقوق بنائے جب کہ انسان ہمیشہ حرص و ہوس کا پجاری رہاہے۔
ہمارے ایک ہمسائے نے آج سے تقریبا چودہ پندرہ برس پہلے ایک ڈرائیور ملازم رکھا، غریب گھرانے کا شادی شدہ ایک بچے کا باپ۔ رفتہ رفتہ وہ صاحب اپنی انسان دوست طبیعت اور بہترین خاندانی پس منظر کے باعث اس کا گھر کے فرد کی طرح خیال رکھنے لگے یہی نہیں بلکہ اس کے گھریلو مسائل میں بھی اس کے مددگار ہوتے۔
تعلیم نہ ہونے کے باعث اس کے بچے کی عمر پانچ سال سے زیادہ ہوگئی اوروہ کسی اسکول نہ جاتا انھوں نے اس کے بچے کا داخلہ ایک اچھے پرائیویٹ اسکول میں کرایا۔یونیفارم کتابیں غرض جو بھی مالی معاونت کرسکتے وہ کرتے نہ صرف یہ بلکہ ان کی تعلیم پر بھی خاص توجہ دیتے اسی اثناء میں خدا نے اس کو دوسرے بیٹے سے نوازا۔بچوں سے کوئی پوچھتا کہ کس کے بیٹے ہووہ بچے اس کم سنی میں اشارہ کرکے کہتے ''ان کے''، یہ بات ان کے دل میں گھر کر گئی وہ ان بچوں کو بالکل اپنے حقیقی بچے سمجھتے۔
سارا سارا وقت اپنے کاموں کا حرج کرکے ان بچوں کو دیتے یہاں تک کے ان کے کھانے پینے کا دھیان بھی رکھتے، امتحانات کے زمانے میں بچے ان کے پاس صبح سے رات تک ہوتے وہ اپنا سب کام چھوڑکران کو پڑھاتے اپنے ہاتھوں سے ان کا کھانا بناتے، کبھی باہر سے لاتے الغرض ان کو اپنے بچے سمجھ کر ہر طرح کی نازبرداریاں اٹھاتے۔ان کے والداور گھر بھر کے لوگ ان کی اس بات کو سخت ناپسند کرتے اور کہتے دیکھنا ایک دن ان کو اپنے اس کیے پر پچھتاوا ہوگا،انھیں اپنا سوچنا چاہیے دوسروں کے بچے دوسروں کے ہی بچے ہوتے ہیں پر ان کو اپنی نیکی پر پورا یقین تھا کہ ایک دن ان کی نیکی ضرور رنگ لائے گی۔
ڈرائیور کی بیوی کو گردے کا عارضہ لاحق تھا انھوں نے اس کے علاج میں ہر طرح سے اس کی مدد کی اور تو اور ڈیوٹی آورز میں اس کو ساتھ لے جا کر اس کی بیوی کی عیادت کرتے تاکہ وہ ہر طرح سے اس مشکل وقت میں نوکری اور بیمار بیوی کی دیکھ بھال دونوں کرسکے۔
عید وغیرہ پر اپنے لیے کچھ لیتے تو اس کے بیوی بچوں کے لیے بھی کپڑے لیتے ڈرائیور اور اس کے بچوں کو خوش دیکھ کر بہت خوش ہوتے اس کے کام کے اوقات صبح دو سے تین گھنٹے شام کو تین گھنٹے تک محدودکردیے کبھی کہیں بہت ضروری جانا ہوتا تو لے جاتے ورنہ اسے گھر بھیج دیتے تاکہ وہ اپنے بچوں کو وقت دے سکے ان کے ساتھ کھیلے خوش و خرم اور پرسکون زندگی گذار سکے۔اس کے بچوں کو تفریح کے لیے مختلف تفریح گاہوں سند باد وغیرہ بھی لے جاتے ان باتوں پر ان کے رشتے دار خوب اعتراض کرتے مگر وہ کسی کی نہ سنتے ۔
دن گذرتے رہے ہمسائے کی زندگی میں اتقاق سے بہت اتار چڑھاؤ آئے ،ان کے والد کی رحلت ہوگئی ،زندگی آزمائشوں میں آگئی ، ان کی رحلت کے ساتھ ڈرائیور کو اپنا مستقبل کچھ تاریک سا لگنے لگاوہ خاموشی سے ادھر اوھر موقع کی تلاش میں لگ گیا۔
ایک دن ایک پراپرٹی ڈیلر جن کے کام وہ اپنے ڈیوٹی ٹائم میں بھی کرتاانھوں نے اسے رام کر لیا کافی عرصے تک اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ کر، ظاہر ہے کاروباری طبقے والے اپنے کام میں بڑے مشاق ہوتے ہیں،اچھی پیش کش سے اس سے توڑلیا ان کے گھر کے کام بھی بہت ان کی والدہ مخصوص دکانوں پرخریداری کے لیے ،علاج معالجے، سبزی لینے جاتیں، خالہ بھی گھومتی پھرتیں پیری مریدی سے بھی وابستہ شہر اور شہر سے باہر مزارات کی زیارت کرتے غرض انھیں فل ٹائم بندہ چاہیے تھا تقریبا دوماہ ڈرائیور سوچتا رہا کہ کیسے ان کو بتائے کہ اب اس کا ان کے گھر سے دل بھر گیااور حرص ولالچ نے آنکھوں کو چندیا دیا ہے دل سے اپنے محسن کے کیے گئے حسن سلوک کا خیال روپے کی چمک نے رفع دفع کردیا ہے حالانکہ جب انھوں نے اس کا ہاتھ تھاما وہ تنگ دست حسن سلوک کا مستحق تھا۔
اس دن اس نے یہ راز افشا کرنا اس لیے مناسب سمجھا کیونکہ اس سے ایک دن پہلے اس کو وہ ڈیوٹی پر نہ بلائیں اس نے ہمسائے کو بتایاکہ وہ بہت بیمار ہے سخت کمزوری ہوگئی ہے ،وہ اس کی عیادت کو اس کے گھر گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ گھر پر نہیں تھا ان کی اہلیہ و بچے انھیں دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
ان کے چہرے کے رنگ اڑ گئے ہمسائے سوچ میں پڑ گئے کہ جس سے کمزوری سے چلے نہ جا رہا ہو وہ ایسی حالات میں کہاں گیا ہوگا، بہرحال انھوں نے استفسار کیا کہ کہاں گیا ہے اہلیہ و بچوں نے کہا نماز پڑھنے وہ کافی دیر انتظار کر کے گھر لوٹ گئے کیونکہ بچے کہنے لگے شاید نماز پڑھ کر دوستوں میں بیٹھ گیا ہوگاانھیں لگابات کچھ اور ہے اور یہ کچھ چھپا رہے ہیںانھوں نے مزید ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا،اس سے یہ لگتا ہے کہ اس نے نئی جگہ کام شروع کردیا تھا کیونکہ یہاں تو کچھ کام تھا ہی نہیں اور مفت کی تنخواہ اور دیگرفوائد۔
اس انکشاف سے کہ اب وہ جانا چاہتا ہے اور آج ہی سے یہ سن کر انھیں دھچکا سا لگا،اس دھوکے کی انھیں اس سے توقع نہیں تھی وہ کافی دن تک ٹھیک سے کھانا تک نہ کھا سکے ۔ان کے اہل خانہ رشتے دار ملنے والے سب ملامت کرتے کہ آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اور اس نے ایک لمحہ بھی آپ کا نہ سوچا۔
اس مہینے کی تنخواہ اسے پوری دی ایک ماہ کی نوٹس پریڈ کی تنخواہ کے ساتھ اس ماہ عید تھی عیدی اور بچوں کے کپڑوں کے لیے پیسے بھی دیے بہت چاہا کہ یہ رشتوں کا تقدس پامال نہ کرے چلو مادی ضروریات کے تحت یہ فیصلہ ہوگیا ہوگامگر تعلق چلتا رہے مگر ایسا گیا کہ پلٹا نہیں پڑوسی صاحب انتہائی ملول نظر آتے ہیںبچوں کو ان کی نگاہیں ڈھونڈتی رہتیں۔
ظاہر ہے جیسے بڑے ویسے بچے۔مگر افسوس آج کے معاشرے میں محبتوں کا کوئی مول نہیں ایثار کی کوئی اہمیت نہیں۔بہرحال مجھ نہ چیز کی نظر میںاچھائی و نیکیوں کا ایسا صلہ معاشرتی پسماندگی کے سوا کچھ نہیں۔جب کہ ان تمام معاشرتی اقربا پروریوں کے باوجود خدا انسانوں کو اچھائی و بھلائی کی تاکید و ترغیب دیتے ہیں۔
باری تعالیٰ نے گھر میں کام کرنے والوںکے حقوق کے حوالے سے فرمایا کہ''جو خود کھاؤانھیں کھلاؤ،جو کچھ پہنو انھیں پہناؤ''مگر حال ہی میں ایک ایسا تکلیف دہ واقعہ ظہور پذیر ہوا جس کو سوچنا تو درکنار محسوس کرنے سے بھی اذیت ہوتی ہے کہ خدا نے انسان کے لیے کتنے عظیم حقوق بنائے جب کہ انسان ہمیشہ حرص و ہوس کا پجاری رہاہے۔
ہمارے ایک ہمسائے نے آج سے تقریبا چودہ پندرہ برس پہلے ایک ڈرائیور ملازم رکھا، غریب گھرانے کا شادی شدہ ایک بچے کا باپ۔ رفتہ رفتہ وہ صاحب اپنی انسان دوست طبیعت اور بہترین خاندانی پس منظر کے باعث اس کا گھر کے فرد کی طرح خیال رکھنے لگے یہی نہیں بلکہ اس کے گھریلو مسائل میں بھی اس کے مددگار ہوتے۔
تعلیم نہ ہونے کے باعث اس کے بچے کی عمر پانچ سال سے زیادہ ہوگئی اوروہ کسی اسکول نہ جاتا انھوں نے اس کے بچے کا داخلہ ایک اچھے پرائیویٹ اسکول میں کرایا۔یونیفارم کتابیں غرض جو بھی مالی معاونت کرسکتے وہ کرتے نہ صرف یہ بلکہ ان کی تعلیم پر بھی خاص توجہ دیتے اسی اثناء میں خدا نے اس کو دوسرے بیٹے سے نوازا۔بچوں سے کوئی پوچھتا کہ کس کے بیٹے ہووہ بچے اس کم سنی میں اشارہ کرکے کہتے ''ان کے''، یہ بات ان کے دل میں گھر کر گئی وہ ان بچوں کو بالکل اپنے حقیقی بچے سمجھتے۔
سارا سارا وقت اپنے کاموں کا حرج کرکے ان بچوں کو دیتے یہاں تک کے ان کے کھانے پینے کا دھیان بھی رکھتے، امتحانات کے زمانے میں بچے ان کے پاس صبح سے رات تک ہوتے وہ اپنا سب کام چھوڑکران کو پڑھاتے اپنے ہاتھوں سے ان کا کھانا بناتے، کبھی باہر سے لاتے الغرض ان کو اپنے بچے سمجھ کر ہر طرح کی نازبرداریاں اٹھاتے۔ان کے والداور گھر بھر کے لوگ ان کی اس بات کو سخت ناپسند کرتے اور کہتے دیکھنا ایک دن ان کو اپنے اس کیے پر پچھتاوا ہوگا،انھیں اپنا سوچنا چاہیے دوسروں کے بچے دوسروں کے ہی بچے ہوتے ہیں پر ان کو اپنی نیکی پر پورا یقین تھا کہ ایک دن ان کی نیکی ضرور رنگ لائے گی۔
ڈرائیور کی بیوی کو گردے کا عارضہ لاحق تھا انھوں نے اس کے علاج میں ہر طرح سے اس کی مدد کی اور تو اور ڈیوٹی آورز میں اس کو ساتھ لے جا کر اس کی بیوی کی عیادت کرتے تاکہ وہ ہر طرح سے اس مشکل وقت میں نوکری اور بیمار بیوی کی دیکھ بھال دونوں کرسکے۔
عید وغیرہ پر اپنے لیے کچھ لیتے تو اس کے بیوی بچوں کے لیے بھی کپڑے لیتے ڈرائیور اور اس کے بچوں کو خوش دیکھ کر بہت خوش ہوتے اس کے کام کے اوقات صبح دو سے تین گھنٹے شام کو تین گھنٹے تک محدودکردیے کبھی کہیں بہت ضروری جانا ہوتا تو لے جاتے ورنہ اسے گھر بھیج دیتے تاکہ وہ اپنے بچوں کو وقت دے سکے ان کے ساتھ کھیلے خوش و خرم اور پرسکون زندگی گذار سکے۔اس کے بچوں کو تفریح کے لیے مختلف تفریح گاہوں سند باد وغیرہ بھی لے جاتے ان باتوں پر ان کے رشتے دار خوب اعتراض کرتے مگر وہ کسی کی نہ سنتے ۔
دن گذرتے رہے ہمسائے کی زندگی میں اتقاق سے بہت اتار چڑھاؤ آئے ،ان کے والد کی رحلت ہوگئی ،زندگی آزمائشوں میں آگئی ، ان کی رحلت کے ساتھ ڈرائیور کو اپنا مستقبل کچھ تاریک سا لگنے لگاوہ خاموشی سے ادھر اوھر موقع کی تلاش میں لگ گیا۔
ایک دن ایک پراپرٹی ڈیلر جن کے کام وہ اپنے ڈیوٹی ٹائم میں بھی کرتاانھوں نے اسے رام کر لیا کافی عرصے تک اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ کر، ظاہر ہے کاروباری طبقے والے اپنے کام میں بڑے مشاق ہوتے ہیں،اچھی پیش کش سے اس سے توڑلیا ان کے گھر کے کام بھی بہت ان کی والدہ مخصوص دکانوں پرخریداری کے لیے ،علاج معالجے، سبزی لینے جاتیں، خالہ بھی گھومتی پھرتیں پیری مریدی سے بھی وابستہ شہر اور شہر سے باہر مزارات کی زیارت کرتے غرض انھیں فل ٹائم بندہ چاہیے تھا تقریبا دوماہ ڈرائیور سوچتا رہا کہ کیسے ان کو بتائے کہ اب اس کا ان کے گھر سے دل بھر گیااور حرص ولالچ نے آنکھوں کو چندیا دیا ہے دل سے اپنے محسن کے کیے گئے حسن سلوک کا خیال روپے کی چمک نے رفع دفع کردیا ہے حالانکہ جب انھوں نے اس کا ہاتھ تھاما وہ تنگ دست حسن سلوک کا مستحق تھا۔
اس دن اس نے یہ راز افشا کرنا اس لیے مناسب سمجھا کیونکہ اس سے ایک دن پہلے اس کو وہ ڈیوٹی پر نہ بلائیں اس نے ہمسائے کو بتایاکہ وہ بہت بیمار ہے سخت کمزوری ہوگئی ہے ،وہ اس کی عیادت کو اس کے گھر گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ گھر پر نہیں تھا ان کی اہلیہ و بچے انھیں دیکھ کر پریشان ہوگئے۔
ان کے چہرے کے رنگ اڑ گئے ہمسائے سوچ میں پڑ گئے کہ جس سے کمزوری سے چلے نہ جا رہا ہو وہ ایسی حالات میں کہاں گیا ہوگا، بہرحال انھوں نے استفسار کیا کہ کہاں گیا ہے اہلیہ و بچوں نے کہا نماز پڑھنے وہ کافی دیر انتظار کر کے گھر لوٹ گئے کیونکہ بچے کہنے لگے شاید نماز پڑھ کر دوستوں میں بیٹھ گیا ہوگاانھیں لگابات کچھ اور ہے اور یہ کچھ چھپا رہے ہیںانھوں نے مزید ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا،اس سے یہ لگتا ہے کہ اس نے نئی جگہ کام شروع کردیا تھا کیونکہ یہاں تو کچھ کام تھا ہی نہیں اور مفت کی تنخواہ اور دیگرفوائد۔
اس انکشاف سے کہ اب وہ جانا چاہتا ہے اور آج ہی سے یہ سن کر انھیں دھچکا سا لگا،اس دھوکے کی انھیں اس سے توقع نہیں تھی وہ کافی دن تک ٹھیک سے کھانا تک نہ کھا سکے ۔ان کے اہل خانہ رشتے دار ملنے والے سب ملامت کرتے کہ آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اور اس نے ایک لمحہ بھی آپ کا نہ سوچا۔
اس مہینے کی تنخواہ اسے پوری دی ایک ماہ کی نوٹس پریڈ کی تنخواہ کے ساتھ اس ماہ عید تھی عیدی اور بچوں کے کپڑوں کے لیے پیسے بھی دیے بہت چاہا کہ یہ رشتوں کا تقدس پامال نہ کرے چلو مادی ضروریات کے تحت یہ فیصلہ ہوگیا ہوگامگر تعلق چلتا رہے مگر ایسا گیا کہ پلٹا نہیں پڑوسی صاحب انتہائی ملول نظر آتے ہیںبچوں کو ان کی نگاہیں ڈھونڈتی رہتیں۔
ظاہر ہے جیسے بڑے ویسے بچے۔مگر افسوس آج کے معاشرے میں محبتوں کا کوئی مول نہیں ایثار کی کوئی اہمیت نہیں۔بہرحال مجھ نہ چیز کی نظر میںاچھائی و نیکیوں کا ایسا صلہ معاشرتی پسماندگی کے سوا کچھ نہیں۔جب کہ ان تمام معاشرتی اقربا پروریوں کے باوجود خدا انسانوں کو اچھائی و بھلائی کی تاکید و ترغیب دیتے ہیں۔