پولیس کی اصلاح کون کرے گا
اسلامی تعلیمات تو یہ کہتی ہیں کہ ایک انسان کا ناحق خون پوری انسانیت کا قتل ہے
1857 وہ سال تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے تسلط کے 100 سال مکمل کرچکی تھی۔ اتفاق سے اسی سال بھارتی عوام نے آزادی کا پرچم بلند کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جابرانہ حکومت کے خلاف جنگ آزادی کا اعلان کردیا۔
آزادی کی اس جنگ کو بھارتیوں نے جنگ آزادی کا نام دیا، البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی والوں نے اس جنگ آزادی کی تحریک کو'' غدر'' کا نام دیا۔ جنگ آزادی کی یہ تحریک اتنی شدید تھی کہ اسی سال برٹش سرکار نے تمام حکومتی امور اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ گویا اب بھارت پوری طرح انگلستان حکومت کے زیر تسلط آگیا۔ برٹش سرکار نے چند اہم ترین کام کیے۔
اول بھارت میں ذرایع آمد و رفت پر توجہ دیتے ہوئے ریلوے کی لائنیں بچھائیں اور ریلوے کو رواں دواں کیا البتہ انگریز بہادر نے ایک اور کام کیا اور وہ کام تھا بھارت میں محکمہ پولیس کا قائم کرنا۔ یہ تمام کام برٹش سرکار نے بھارتی عوام کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ پس پردہ ان کے اپنے مفادات تھے۔
ہم بات کریں گے انگریز سرکار کے قائم کردہ محکمہ پولیس کی۔ انگریز بہادر نے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے 1861 میں محکمہ پولیس قائم کیا ،اس محکمے کو قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جب بھی بھارت میں کوئی آزادی پسند آزادی کا نعرہ لگائے تو اس کی سرکوبی کی جائے۔
دوسرے الفاظ میں پوری قوت کے ساتھ پولیس کے ذریعے اس آزادی کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جائے چنانچہ اگر آزادی کی کوئی آواز بلند ہوتی تو آزادی کی آواز بلند کرنے والوں کو ''ڈاکو'' کا لقب دیا جاتا اور ان آزادی پسندوں کی تحریک سے خوف زدہ ہو کر ان کے سروں کی قیمت کا اعلان بھی کردیا جاتا۔
برٹش سرکار نے پولیس کو وہ تمام اختیارات دے دیے جوکہ ایک مسلط کردہ سرکار غلام قوم کی سرکوبی کے لیے دے سکتی تھی، چنانچہ بے تحاشا اختیارات حاصل ہونے کے بعد اس وقت کے محکمہ پولیس کے اہلکاروں نے ظلم و جبر کی لاتعداد تاریخیں لکھ ڈالیں۔ گویا 90 سالہ انگریز سرکار کا راج جبر و استحصال سے بھی بڑا ہے۔
یہ ضرور ہوا کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد جوکہ چھ برس جاری رہی برٹش سرکار کے لیے بھارت پر اپنا تسلط مزید برقرار رکھنا ممکن نہ تھا چنانچہ 1947 میں بھارت آزاد ہوا اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک نمودار ہوا پاکستان۔ لازمی تھا کہ برٹش سرکار کا قائم کردہ محکمہ ختم کردیا جاتا اور ازسر نو محکمہ پولیس تشکیل دیا جاتا یہ محکمہ پاکستان کے معاملات و واقعات کو مدنظر رکھ کر قائم کیا جاتا اور محکمہ پولیس میں بھرتی ہونے والوں کی اخلاقی تربیت پر خاص توجہ دی جاتی اور محکمہ پولیس پاکستان کے حالات کے مطابق ہم و آہنگ کیا جاتا ہے۔
مگر آج تک جب کہ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال ہوگئے ان 75 سالوں میں 24 وزرائے اعظم آئے 13 صدور آئے موجودہ وزیر اعظم 24 ویں وزیر اعظم ہیں اور موجودہ صدر 13 ویں صدر مملکت ہیں۔ ان 13 صدور میں چار صدور آمر بھی تھے۔ ان آمروں نے مجموعی طور پر 33 برس تک اس ملک پر حکومت کی۔
ان چاروں صدور نے اپنی مرضی و منشا کے مطابق حکومتی امور چلائے مگر محکمہ پولیس کی اصلاح کرنے کی کسی ایک نے کوشش تک نہیں کی، یہی کیفیت دیگر 9 صدور کی بھی رہی جب کہ موجودہ وزیر اعظم و ان 24 وزرائے اعظم سمیت کسی بھی وزیر اعظم نے پولیس کی نہ تو اصلاح کی نہ پولیس کا رویہ ٹھیک کرنے کی کوشش کی البتہ موجودہ وزیر اعظم جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو اتنا کام ضرور کیا کہ پنجاب کے پولیس اہلکاروں کی یونیفارم تبدیل ضرور کی مگر پولیس کے جبر سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے کوئی اقدامات نہ اٹھا سکے۔
14 اگست 1997 کے روز یوم آزادی کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف و اس وقت کے صدر پاکستان فاروق لغاری کی موجودگی میں مزار قائد کے مقام پر ایک پولیس والا کراچی کے ایک مقامی مسلم لیگی رہنما کے جواں سال بیٹے کو فائرنگ کرکے قتل کردیتا ہے۔ سزا تو دور کی بات ہے اس پولیس والے کی شناخت بھی نہ ہو سکی۔ سزا کی کیسے ممکن ہوتی۔ پھر ایک اور جواں سال بھی پولیس کی گولیاں کھا کر جان سے گیا یہ جوان سال تھا بانی پاکستان محترم قائد اعظم کا پڑنواسہ۔
رمضان کے مہینے میں گھر سے سحری کے لیے کھانے کا سامان لینے کی غرض سے نکلا تھا اور پولیس کے ہاتھ لگ گیا اور جان سے گیا۔ گویا بانی پاکستان کی اولاد کا اس بے دردی سے قتل ہوا اور قائد اعظم کے حقیقی نواسے محمد اسلم کی اس قتل کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس قتل کا مقدمہ تک درج نہ کروا سکے بلکہ اس وقت پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ خاندان قائد اعظم سے رشتے داری کا ڈھونگ کر رہا ہے جب یہ کیفیت ہو تو انصاف کی بات کون کرے۔ یہ سانحہ ہے ماہ رمضان 1998 کا اور یہ سانحہ کراچی شہر میں رونما ہوا تھا۔ چلیے بہت ذکر ہو چکا ماضی کا۔
اب ذکر ہے آج کے دور کا،21 ویں صدی کا،22 کا سال ہے بلکہ اس سال کا چل چلاؤ ہے، خبر یہ ہے کہ شاہین فورس کے اہلکاروں نے موٹرسائیکل سوار عامر حسین کو رکنے کا اشارہ کیا وہ نوجوان عامر حسین کسی باعث رک نہ سکا، البتہ شاہین فورس کے اہلکاروں کے سر پر خون سوار ہو چکا تھا، وہ چھوڑنے والے کہاں تھے۔
چنانچہ شاہین فورس کے اہلکاروں نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عامر حسین کا پیچھا اس کی رہائش گاہ تک کیا جوکہ نعمان ایونیو میں ہے اور سیڑھیاں چڑھتے اس نوجوان پر گولیاں چلا دیں، جس کے باعث وہ نوجوان جاں بحق ہو گیا جب کہ وہ نوجوان پولیس والوں کو گولیاں چلانے سے منع کرتا رہا اور پولیس والوں کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتا رہا البتہ پولیس کے اہلکاروں نے اس کی بات نہ سنی اور فائرنگ کرکے اس کی جان لے لی۔
افسوس ناک پہلو اس سانحے کا یہ ہے کہ عامر حسین کا ایک بیٹا ہے جس کی عمر فقط تین ماہ ہے، گویا اب وہ باپ کے سائے کے بغیر آنے والی عمر گزارے گا۔ ایس ایس پی ضلع شرقی معبدالرحیم شیرازی نے عامر حسین کے لواحقین کو موقع پر جا کر یقین دہانی کرائی کہ تینوں پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے اور گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے بقول ایس ایس پی صاحب تینوں اہلکاروں کو ضرور سزا ملے گی۔ ممکن ہے ایسا ہو۔ مگر ماضی کے حالات کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا مگر اسلامی تعلیمات تو یہ کہتی ہیں کہ ایک انسان کا ناحق خون پوری انسانیت کا قتل ہے، مگر عامر حسین جیسے لوگوں کے قتل کا ذمے دار کون ہے؟ پولیس جسے لامحدود اختیارات حاصل یا پھر وہ حکمران جنھوں نے پولیس کو لامحدود اختیارات دے رکھے ہیں؟ یا دونوں ذمے دار ہیں البتہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام ضروری ہے یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کی اصلاح کی جائے اور پولیس و عوام کے درمیان فاصلوں کو ختم کیا جائے امید ہے ارباب اقتدار ضرور توجہ فرمائیں گے۔