لیڈر اور گیدڑ

یہ وہ تاریخی مکالمہ تھا جو لیبیا جوکہ ان دنوںاٹلی کی کالونی تھا، کے مجاہد عمرالمختار اور عدالت کے جج کے درمیان ہوا


امتیاز بانڈے January 01, 2023

عدالت ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کیونکہ آج ایک باغی کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی تھی کہ آج ملزم عدالت میں خود کو بچانے کی بھرپور کوشش کرے گا ۔ سماعت شروع ہوئی تو چشم فلک نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ ، جج اور ملزم کے درمیان ہونے والا مکالمہ درج ذیل ہے۔

جج :'' کیا تم قبول کرتے ہو کہ تم نے اطالوی ریاست کے خلاف جنگ میں حصہ لیا؟ ''عمرالمختار: ''ہاں۔'' جج: '' کیا تم مانتے ہو کہ تم نے دیگر لوگوں کی اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی؟ '' عمرالمختار : '' ہاں کی۔'' جج : '' تم جانتے ہو اس کی سزا کیا ہے؟'' عمرالمختار : ''بالکل جانتا ہوں۔'' جج : ''تم نے کتنے سال اٹلی کی حکومت کے خلاف جنگ کی؟ '' عمرالمختار : ''بیس سال تک۔'' جج : ''کیا تمہیں اپنے کیے پر کوئی افسوس ہے ؟'' عمرالمختار : ''بالکل نہیں۔'' جج: ''کیا تم جانتے ہو کہ تمہیں پھانسی پر چڑھایا جا سکتا ہے؟'' عمرالمختار : ''جانتا ہوں۔'' جج: ''یہ تم جیسے انسان کے لیے ایک مایوس کن انجام ہے۔'' جج کے یہ الفاظ سن کے عمرالمختار نے برجستہ جو کچھ کہا وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں، اس نے کہا کہ'' اس کے برعکس،میرے نزدیک یہ میری زندگی کا ایک بہتر اختتام ہو گا۔''

یہ وہ تاریخی مکالمہ تھا جو لیبیا جوکہ ان دنوںاٹلی کی کالونی تھا، کے مجاہد عمرالمختار اور عدالت کے جج کے درمیان ہوا۔ عمرالمختار وہ عظیم اور جری مجاہد تھا جس نے اٹلی کی حکومت کے خلاف 1920 سے 1930 کے درمیان جہاد کی سربراہی کی ۔ عمرالمختار کی جدو جہد بیس سال پر محیط تھی۔ 11، ستمبر،1931کو 70 برس کی عمر میں وہ سولانتا کے مقام پر دوران جنگ شدید زخمی ہو گیا جہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔اٹلی کی اعلیٰ عدالت میں اس کے خلاف بغاوت کامقدمہ چلایا گیا۔

یہ وہ مجاہد تھے جو صرف اللہ کی خوشنودی اور اس کے دین کی ترویج کے لیے صدق دل سے جہاد کیا کرتے تھے۔ یہ منافق نہیں تھے کہ بظاہر تو دین کی سربلندی کے لیے دعوے کریں، ملک کو ایک نظریاتی اسلامی مملکت بنانے کے خواب عوام کو دکھائیں لیکن اگر کوئی ان کی خلوتوں میں جھانکے تو شرما جائے۔ یہ اللہ کے مجاہد تھے، جو کچھ کہتے تھے وہی کر کے دکھاتے تھے۔یہ سیکڑوں مسلح سیکیورٹی گارڈز اور گاڑیوں کے کانوائے کے ساتھ گھر سے نہیں نکلتے تھے بلکہ انھیں اللہ کی حاکمیت اور اپنے زور بازو پر اعتماد تھا۔

16 ستمبر، 1931 کو اس عظیم مجاہد عمرالمختار کو پھانسی دے دی گئی اور پھانسی سے چند لمحوں پہلے انھوںنے وہاں ارد گرد موجود سرکاری اہلکاروں سے پوچھا کہ '' کیا تم اس بات کے شاہد ہو کہ'' میں نے عدالت میں ایک ایک بات سچ کہی اور تم سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی؟ ''جواب تھا'' بالکل نہیں۔'' عمر مختار نے کہا '' میں یقین رکھتا ہوں کہ تم میرے مرنے کے بعد میرے لوگوں کو بھی یہی بات بتائو گے ۔'' وہ سر اٹھا کر جیا اور سر اٹھا کر ہی موت کو گلے لگایا۔ اسلام کی تاریخ ایسے عظیم ، متقی اور بہادر لیڈروں سے بھری پڑی ہے ۔

دوسری جانب، ہمارے لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست بنانے والے سیاستدانوں کی سیاسی تاریخ منافقت، دوغلے پن اور بے وفائی سے بھری پڑی ہے۔ انھیں صرف اقتدار چاہیے، چاہے وہ کسی بھی قیمت پر انھیں ملے۔یہ صرف عیاشیوں ، آسائشوں اور پروٹوکول کے لیے اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ یہ ہوا کے رخ پر چلنے کے عادی ہیں۔ اس لیے ذرا سی باد مخالف سے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں احتساب کی رسی ان کے گلے میں نہ ڈال دی جائے۔ عمر المختار اور ان جیسے کئی مجاہدمنافقت سے دور تھے اور ایک مقصد کے لیے لڑتے رہے۔

موجودہ لیڈرز موت کی آنکھوںمیں آنکھیں تو کیا ڈال سکتے ہیں یہ تو صرف جیل جانے کے ڈر سے ملک سے بھاگ جاتے ہیں اور جب انھیں اقتدار ملنے کی نوید سنا دی جائے تو پھر بھاگم بھاگ واپس آجاتے ہیں ۔انھیں صرف اقتدار، پروٹوکول اور طاقت چاہیے۔ اس صورتحال کی ذمے داری بیوروکریٹس اور سرکاری افسران پر بھی عائد ہوتی ہے، جو صرف اپنی کرسی بچانے کے لیے سیاستدانوں کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیںاور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کا ہر جائز اور ناجائز حکم مانتے ہیں لیکن جب انھیں بیوروکریٹس اور اعلیٰ سرکار ی افسران کو ان کے دفاتر میںدیکھیں تو ان سے بڑا فرعون کوئی نظر نہیں آتا۔

ہمیں آج تک کوئی ایسا لیڈر ملا ہی نہیں جو کردار کا غازی ہو، جو حقیقت میں اس ملک کے اس 98 فیصدطبقے کا درد دل میں رکھتا ہو جو موجودہ حالات میں جانے کس طرح اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہاہے۔ ان لیڈروں کے دعوے اور ان کی عوام سے ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پاکستان کے معاشی حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ ہم ''ڈیفالٹ'' کے قریب کھڑے ہیںلیکن ان کو اگر فکر ہے تو صرف اور صرف اس بات کی کہ اقتدار کی ڈور، ان کے ہاتھوں میں کس طرح سے آئے۔

ابھی ہم نے صرف ڈیفالٹ کا نام ہی سنا ہے اور اس ملک کی اکثریت اس کے سنگین نتائج سے بے خبر ہے۔ ان کرپٹ اور منافق سیاستدانوں کو اس لیے بھی فکر نہیں ہے کیونکہ انھوں نے اس ملک کے خزانوں کو بے دردی سے لوٹا ہے اور اب تک لوٹ رہے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہو جانے کی صورت میں بھی ان کے پاس ناجائز ذرایع سے کمایا ہو ا اتنا مال ہے کہ ان کی اور ان کے خاندانوں کی ذاتی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

اس ملک کے عوام آج تک کسی ایسے لیڈر کا انتظار کر رہے ہیں، جو چاہے وردی میں ہو یا بغیر وردی، دل میں خدا کا خوف رکھتا ہو، منافق نہ ہو، کردار کا ایسا غازی ہو کہ اسے اپنی کسی وڈیو یا آڈیو کے لیک ہونے کا ڈر نہ ہو۔ ہمیں ایسی عدلیہ چاہیے جو حقیقی معنوں میں آزاد ہو اور کسی سے '' ڈکٹیشن'' لے کر اپنے فیصلے نہ جاری کرتی ہو، وہ عدلیہ جو کسی ملزم کی جائز ضمانت کے مقدمے کو سننے میںتو مہینوں لگا دے لیکن کسی سیاستدان کے لیے رات کے بارہ بجے بھی اس کے دروازے کھل جائیں،لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو اس ملک کو ایسا لیڈر مل سکتا ہے اور نہ ہی ایسی عدلیہ کیونکہ یہ سارا نظام ہی کرپٹ اور تبا ہ ہو چکا ہے۔ہم نے گیدڑوں سے باغ کو محفوظ رکھنے کی توقع لگا رکھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں