نیا سال نئے چیلنجز

ہمارا مسئلہ افغان پالیسی ہے، اس میں اس وقت انقلابی تبدیلیاں لانا ہوںگی اور پھر اہم مسئلہ ہماری معیشت کا ہے

Jvqazi@gmail.com

آڈیوز، وڈیوز،انکشاف و اعترافات کے ارد گرد گھومتی، ہماری سیاست ،پھر نئے سال کی آمد آمد۔سفر وہیں سے شروع جہاں سے پچھلا سال رخصت ہوا تھا۔ تاریخ کے کٹہرے میں کیسے کھڑے ہوںگے ؟وہ اشخاص ، وہ کردار جو اس مملکت کو اس دوراہے تک لے آئے ہیں۔یہ موڑ اپنی فطرت اور شدتِ احساس میں وہ ہی ہے ، جہاں سے ہم 1971 میں گزرے تھے۔

جنرل نیازی سے تو ہم بخوبی واقف ہیں کہ ہماری تاریخ میں اسے کس نام سے لکھا گیا ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ بھی آئی ،اس میں جن کرداروں کی طرف اشارہ کیا گیا ،ان میں سے کو ئی بھی کٹہرے میں نہ آیا۔ آج کے دور میں بھی دو چار کردار پرانوں جیسے ہیں پتہ نہیں وہ کٹہرے میں کھڑے ہوںگے یا نہیں ؟

بہت جلد عمران نیازی بھی تاریخ بن جائیں گے، تاریخ مقبولیت اور غیر مقبولیت کے پیمانوں سے مستثنیٰ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے کفارے میں اپنی جان کا نذرانہ بھی دیا مگر تاریخ کے وہ ورق اب بھی کہیں نہیں جاتے۔ مگر خان صاحب، ذوالفقار علی بھٹو نہیں ہیں اور وہ بن بھی نہیں سکتے۔

سویلین کردار کے اندر جو کام انھوں نے کیے شاید ایسے کارنامے کسی نے انجام نہیں دیے جو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں مہرہ بن کر کھیلتے رہے۔ جب کوئی باز پرس کرنے والا نہیں رہتا۔پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمران خان جیسے لوگ صادق وامین کہلاتے ہیں ، جب کہ عوام کی اکثریت کے منتخب کردہ وزیر اعظم کو فقط ایک اقامہ کے مسئلے پر رخصت کردیا جاتا ہے۔

ملک اس بار تو ٹوٹنے بچ گیا مگر معاشی بد حالی اور دہشت گردی ہمارے سامنے ہے اور یہ منظر اب خان صاحب اب اپنے ڈرائنگ روم سے ، ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے دیکھ رہے ہیں، جن کے کہنے پر خاں صاحب لانگ مارچ،لانگ مارچ کھیل رہے تھے، وہ لانگ مارچ اور وہ دھرنا سب گیا، یہ 2014 نہیں اور نہ ہی 2018 ہے، وہ لوگ بھی گئے اور وہ پالیسی بھی گئی۔اب خان صاحب تنہا کھڑے ہیں ۔ خان صاحب ہی نہیں بلکہ اسد عمر بھی احتساب کے شکنجے میں آئیں، ممکن ہے، پرانے حساب کتاب بھی کھنگالے جائیں۔

وہ کہتے ہیں نا کہ! حادثے اچانک جنم نہیں لیتے۔ حالات کو یہاں تک آنے میں زمانے لگے ہیں ۔کاش کہ ہم افغانستان کے پڑوسی نہ ہوتے ۔انگریزوں نے راول پنڈی کو فوج کا ہیڈ کوارٹر ، پورے برصغیر کے لیے بنا یا ، وجہ یہی تھی کہ خطرہ بھی وہیں سے تھا۔سر ڈیورنڈ گھوڑے پر بیٹھ کر ڈیورنڈ لائن کھینچنے کے عمل کی نگرانی کر رہے تھے۔اسی دوران گھوڑے سے گر گئے، زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے،کچھ دنوں میں مر گئے۔ آشا جلال یہ لکھتی ہیں فوج کے بٹوارے میں زیادہ فوج پاکستان کے حصے میں آئی تقریباّ 57%۔


انگریز کو روس سے براستہ افغانستان خطرہ محسوس ہوتا تھا،پھر روس سوویت یونین بنا تو خطرہ کئی گنا بڑھ گیا کیونکہ اب پورے نوآبادیاتی اور سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔ آخرکار 1979 میں افغانستان میں شوشلسٹ انقلاب آگیا، اس حکومت کو بچانے کے لیے سویت یونین کی فوج مدد کے لیے افغانستان میں داخل ہوگئی۔

برطانیہ اس وقت عالمی سامراجی قوت نہ تھا بلکہ سامراجی لیڈرشپ امریکا کو منتقل ہوچکی تھی، یوں اس نے ہماری چاندی لگا دی۔ضیا الحق بھی میدان میں آگئے ان کو لانے والے بھی وہ ہی تھے۔بس ڈالر ہی ڈالر تھے اور جہاد تھا، لیکن ایسا نہ تھا کہ ہاتھ میں تسبیح تھی، زبان پر ریاست مدینہ اور آڈیوز میں کچھ اور جس کی تردید بھی وہ نہ کر سکے،لیکن خاں صاحب ہیں ان ہی کا تسلسل ہیں ، جس کی بنیادیں پہلے ایوب خان نے اور پھر ضیاالحق نے ڈالیں۔پھر غلام اسحاق خان، فاروق لغاری، پھر جنرل مشرف اور پھر یہ ہائبرڈ ڈیموکریسی۔

2022 میں، یوکرین کی جنگ کا افتتاح بھی خان صاحب نے کیا،اگر یوکرائن مزاحمت نہ کرتا اور روس دوتین روز میں یوکرائن پر قبضہ کرلیتا تو امریکا اور مغربی یورپ پسپا ہو جاتے۔ ایسا ہوتا تو مجھے یہ یقین ہے کہ ہمارے خان صاحب، ان کے فنانسرز اور ہنڈلرز کا اقتدار پاکستان مضبوط ترین ہو جاتا۔اپوزیشن قیادت بیرون ملک چلی جاتی یا پھر جیلوں میں بند کردی جاتی۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔

اب یہ عالم ہے کہ خاں صاحب خود ہی یہ کہہ رہے ہیں فوراً انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ابھی تو نظارے باقی ہیں جب چوہدری پرویز الٰہی بھی خاں صاحب کو الوداع کہیں گے۔ ایکADC تحویل میں بھی لے لیا گیا ہے، جس نے شہباز شریف کے وزیر اعظم ہوتے وقت کچھ آڈیو ریکارڈکی تھیں۔ توشہ خانہ پر چارج فریم ہو چکا ہے۔

شہباز شریف ہرجانہ کیس میں سپریم کورٹ نے خاں صاحب کے دفاع کے حق کی اپیل خارج کر دی۔ خاں صاحب کی پارٹی کے مزید بائیس ارکان قومی اسمبلی میں سامنے آگئے ہیں جو استعفیٰ دینے کے حق میں نہیں۔کیا گیارہ جنوری تک پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیے سکیں گے؟ جب تک پاکستان میں حمودالرحمٰن کمیشن ہو یا پھر 2018 کے بعد کے سانحے کو ایسے ہی در گذر کیا جاتا رہے گا۔ہمارے لیے آگے کے راستے کھل نہیں سکیں گے۔

نیا سال یقینا اتنا آسان تو نہیں ہوگا مگر سسٹم کو چلنے دیا جائے اور اکتوبر میں نئے انتخابات ہوں گے، پھر ایک نئی سوچ ابھرے گی۔ہمارا مسئلہ افغان پالیسی ہے، اس میں اس وقت انقلابی تبدیلیاں لانا ہوںگی اور پھر اہم مسئلہ ہماری معیشت کا ہے۔

سسٹم کو چلنے دینا ہوگا، آئین کی بالادستی ماننی ہوگی، صدرو و وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدید اختیارات کے سہارے سرکاری زمینیں ہتھیا کر اوردیگر سرکاری مراعات لے کر امیر بننے والے طبقے کو نکیل ڈالنے کے لیے کڑے فیصلے لینے ہوںگے مگر ایک بار یہ فیصلہ لے لیجیے کہ حکمرانوں کے مالیاتی نوعیت کے صوابدید اختیارات ختم کرنے ہیں، کوئی مقدس گائے نہیں ہے، سب کو حساب دینا ہوگا۔ امیر بننا ہے تو محنت کریں، کاروبار کریں، کاشت کاری کریں، سرکاری عہدوں اور سیاست کے راستے دولت مند بننے کے راستے بند کرنا ہوں گے۔
Load Next Story