سینکڑوں پاکستانی ہندوؤں کی استھیوں کو گنگا میں بہانے کی امید پیدا ہوگئی

مودی سرکار نے پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں گنگا میں بہانے کیلئے 10 روزہ ویزہ جاری کرنے کا عندیہ دے دیا

مودی سرکار نے پاکستانی ہندوؤں کی استھیاں گنگا میں بہانے کیلئے 10 روزہ ویزہ جاری کرنے کا عندیہ دے دیا

بھارت کی جانب سے اسپانسر شپ کی شرط پر نظر ثانی کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی کے مندروں اور شمشان گھاٹ میں رکھی پاکستانی ہندوؤں کی 426 استھیوں کو لواحقین کے ہمراہ ہریدوار گنگا(بھارت)میں بہانے کی امید بندھ گئی۔

مودی سرکار نے جیتے جی تو پاکستانی ہندو یاتریوں کو بھارت میں داخل نہ ہونے دیا،لیکن مرنے کے بعد ان کی استھیاں گنگا میں بہانے کیلئے 10 روزہ ویزہ جاری کرنے کا عندیہ دے دیا،ماضی میں انڈین حکومت قانونی دستاویزات کے باوجود ویزے کی درخواست مسترد کردیتی تھی۔

سن 2011 اور سن 2016 میں مجموعی طور پر 295 استھیاں واہگہ بارڈر پر سیوکوں(خدمتگاروں)کے قافلےکے ہمراہ بھیجی جاچکی ہیں،پہلی مرتبہ خون کا رشتہ یا پھر خاندان کا کوئی فرد استھی کے ہمراہ روانہ ہوسکے گا۔

ماضی میں قانونی دستاویزات کے باوجود بھارتی ویزے کا حصول پاکستان میں مقیم ہندوؤں کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف رہا۔

کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کے علاقوں سولجر بازار، رنچھوڑ لائن سمیت دیگر میں ہندو خاندان تقسیم ہند سے قبل اور بعد میں بھی بڑی تعداد میں سکونت پذیر ہیں،ایک اندازے کے مطابق کراچی میں یہ تعداد ڈیڑھ سے دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

اگر دیہی سندھ کےکنری،ننگر پارکر،اسلام کوٹ اور تھرپارکر میں موجود تعداد کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے، ان ہی ہندو خاندانوں کے کسی فرد کے مرنے کے بعد اگنی سنسکار(آخری رسومات)کے بعد اس کی راکھ کوہریدوار گنگا میں بہانا چاند پر کمند ڈالنے کے مترادف رہا ہے کیونکہ بھارت سرکار ہمیشہ اسپانسر شپ کا تقاضہ کرتی تھی۔


یعنی ان پاکستانی ہندو خاندان کے بھارت میں مستقل آباد کسی فرد یا پھر جاننے والے کا حوالہ چاہیے ہوتا ہے جو بیشتر پاکستانی ہندوؤں کے پاس موجود نہیں ہوتا تھا،بھارتی ویزہ کی درخواست کے ساتھ مرنے والوں کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ سمیت تمام قانونی دستاویزات جمع کروانے کے باوجود ویزہ نہیں ملتا تھا۔

ان ہی عوامل کے سبب شہر کے مختلف مندروں میں رکھی استھیاں ہندو دھرم کے مذہبی عقائد کے مطابق گنگا میں وسرجن یعنی آخری رسومات کی منتظر رہیں،شری پنچ مکھی ہنومان مندر سولجربازار کے گدی نشین رام ناتھ کے مطابق ہمیں ویزہ نہیں ملتا اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت کی شرط تھی کہ استھیاں لے جانے کے لیے اسپانسر شپ دیں۔

یعنی بھارت میں کوئی جاننے والا ہو تو تب ہی آپ ہریدوارگنگا میں جا سکتے ہیں،سینکڑوں ہندووں کی استھیاں پاکستان کے مختلف مندروں میں محفوظ ہیں،جن کی آخری خواہش یہ تھی کہ ان کی راکھ کو گنگا میں بہایا جائے،کراچی کے پرانا گولیمار کے قریب واقع سون پوری شمشان گھاٹ کے استھی کلش پیلیس میں 300وہ استھیاں رکھی ہیں جو مختلف ہندو خاندانوں نے سولجر بازار میں واقع شری پنج مکھی،ہنومان مندر کے گدی نشین مہاراج شری رام ناتھ کو ان مرنے والوں کے لواحقین نے سونپ دی ہیں جبکہ 128دیگراستھیاں بھی موجود ہیں۔

ان 460 کے قریب استھیوں کے پیاروں کو امید ہو چلی ہے کہ وہ ایک دن ہریدوار پہنچ سکیں گی،شری رام ناتھ کے مطابق عرصہ دراز سے بھارتی ہائی کمیشن سے بات چل رہی تھی،اب خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے اسپانسر شپ کو ختم کردیا ہے،بھارتی سفارت خانے سےاس ضمن میں 10 روزہ ویزہ جاری کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے پیاروں کی آخری خواہش پوری کرنا پاکستانی ہندوؤں کا بنیادی حق ہے اور اس بنیادی حق کو تسلیم کرنا بھارت کا فرض ہے،شری رام ناتھ کے مطابق تیسری مرتبہ استھیاں بھارت لے جائی جائینگی،تاہم پہلے اور اب میں فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ ان استھیوں کے اہل خانہ ہمراہ ہونگے۔

ماضی میں دونوں مرتبہ انھوں نے ان استھیوں کا بھائی،بیٹا بن کر یہ بیڑا اٹھایا تھا،پہلی مرتبہ سن 2011 میں 135 استھیاں لے کر گئے تھے،ان استھیوں کی انفرادیت یہ تھی کہ وہ تقسیم ہند کے وقت سے شمشان گھاٹ میں موجود تھیں،جنھیں 64 برس بعد گنگاجی میں بہایا جاسکا،ان استھیوں کی ایک اور انفرادیت یہ ہے کہ اس میں باپ،بیٹے اور پوتے تینوں کی استھیاں بھی موجود تھیں۔

ان استھیوں کی بھارت روانگی کے لیے سن 2008 سے انڈین ہائی کمیشن کے ساتھ بات چیت چل رہی تھی،اس کے بعد سن 2016 میں 160 دیگر استھیاں بھارت لے کرگئے،دونوں مرتبہ یہ مرحلہ واہگہ بارڈر کے راستے طے ہوا،جس کے بعد واہگہ اور اٹاری پر قافلے کی شکل میں ہریدوار(گنگا جی) تک سفر طے ہوا۔
Load Next Story