بھنور میں پھنسی کشتی
پاکستان کی ابتداء سے ہی باکردار اور دیانت دار قیادت کا خاتمہ کر دیا گیا
چند روز قبل قائداعظم محمد علی جناح ؒکا یوم پیدائش گزرا ہے۔ آج کل ہمارے عوام جن سیاسی ومعاشی حالات سے گزر رہے ہیں ضروری ہے کہ قائد کی زندگی کا جائزہ لے لیا جائے۔
یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہم کرپٹ نہیں بلکہ ہمیں بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے مواقعے آئے کہ ہم شاندار اور طاقتور قوم بن کر دنیا میں ابھر سکتے تھے۔ لیکن بین الاقوامی طاقتوں نے ایسی سازشیں کیں کہ ہم اپنا راستہ بھٹک گئے۔
پاکستان کی ابتداء سے ہی باکردار اور دیانت دار قیادت کا خاتمہ کر دیا گیا اور شعوری طور پر ایسی قیادت سامنے لائی گئی جو کرپٹ، عوام دشمن اور ملک دشمن تھی۔ قائداعظم کی وفات کو ہی دیکھ لیں زیارت سے جب قائداعظم کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو ان کو لینے کے لیے ایک کھٹارہ سی ایمبولینس موجود تھی۔
قائداعظم گورنر جنرل پاکستان تھے لیکن انھیں لینے کے لیے کوئی قابل ذکر شخصیت موجود نہیں تھی اس دن وزیر اعظم اور ان کے وزراء کہاں تھے کچھ پتہ نہیں ۔ بیمار قائد کی ایمبولینس اس جگہ جا کر خراب ہوئی جہاں مہاجر کیمپ تھے ۔
مہاجر لٹ پٹ کر آئے تھے کسی کا بازو نہیں تو کسی کی ٹانگ نہیں جذبات مشتعل تھے سازشیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ قائد پر مہاجر ہلہ بول دیں ۔
ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور یہ سازش ناکام رہی ۔ ایسے مواقعے پر ایک متبادل ایمبولینس لازمی ہوتی ہے وہ بھی پراسرار طور پر غائب تھی۔ اس کے بعد لیاقت علی خان کا قتل پراسرار حالات میں ہوا ۔
جو ٹیم ان کے قتل کی تحقیقات کر رہی تھی ان کے ہیلی کاپٹر کو فضا میں تباہ کردیا گیا کیونکہ وہ تحقیقاتی ٹیم اصل مجرموں اور سازشوں کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ پس منظر یہ تھا کہ امریکا لیاقت علی خان پر دباؤ ڈال کر ایران میں اپنے مفادات کی بحالی چاہتا تھا جس سے لیاقت علی خان نے انکار کردیا۔
اس کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار حالات میں وفات ہوتی ہے ، کیونکہ محترمہ فاطمہ جناح کسی صورت آمریت سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھیں ۔ ایوب خان کے مارشل لاء نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی ۔ یحیٰی خان کے بنگال کش اقدامات نے اسے حقیقت بنادیا۔
حکمران طبقات نے اس المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس کا ذمے دار سیاستدانوں کو قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی گئی، انتہائی کوشش کے باوجود ان کے خلاف جب کچھ نہیں ملا تو ان کا ایک سازش کے تحت جوڈیشل قتل کردیا گیا۔
اسی طرح بے نظیر کو قتل کرنے کے فوراً بعد جائے واردات کو پانی سے دھو کر ہر طرح کے ثبوت مٹا دیے گئے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے قتل بھی اسی ضمن میں آتے ہیں اب مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کے لیے کھلا میدان تھا۔
بے نظیر بھٹو کو گھیر گھار کر پاکستان لاکر قتل کر دیا گیا۔ باوجود اس کے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے ان کی جان کی ضمانت دی تھی۔ ان کا خاتمہ امریکا کی ناگزیر ضرورت تھی کیونکہ اس کے بغیر امریکا کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے عالمی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ممکن نہ تھا ۔ باپ بیٹی اس امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد میں بڑی رکاوٹ تھے ۔
جون 1757 وہ المناک دن تھا جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سازشوں ، دولت ، جدید اسلحہ اور غداروں کے ذریعے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ مغل حکمرانوں کو محلات اور مقبرے بنوانے کے سوا کوئی کام نہ تھا نہ انھوں نے بحری جنگی جہاز بنائے جب کہ انگریزوں نے اپنی بحری افواج کے ذریعے ہی دنیا کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا، مغلوں کو جدید علوم سے کوئی سروکار نہ تھاکہاں انگریزوں کا اس زمانے کا جدید اسلحہ اور کہاں برصغیر کا فرسودہ اسلحہ، ظاہر ہے شکست پر شکست کھاتے چلے گئے۔
قائداعظم اس تاریک دور میں روشنی کی ایک کرن کی طرح نمودار ہوئے اور مسلمانوں کے مایوس دلوں کو امید سے بھر دیا۔ شاعر مشرق اور ایرانی انقلاب کے رہنما اس صورت حال سے کس قدر مایوس تھے اس کا اندازہ قارئین اس خط سے لگا سکتے ہیں جو علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام 21جون 1937کو لکھا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔
اقبال نے لکھا کہ''میں جانتا ہوں آپ بہت مصروف ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میرا بار بار آپ کو خط لکھنا گراں نہ گزرتا ہوگا ، میری نگاہوں میں اس وقت ہندوستاں بھر میں'' آپ ہی واحد مسلمان ہیں''جس کے ساتھ ملت اسلامیہ کو اپنی امیدیں وابستہ کرنے کا حق ہے کہ آپ اس طوفان میںجو یہاں آنے والا ہے اس کشتی کو ثابت وسالم ساحل تک پہنچائیں گے ۔''
یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ ہم کرپٹ نہیں بلکہ ہمیں بنایا گیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے مواقعے آئے کہ ہم شاندار اور طاقتور قوم بن کر دنیا میں ابھر سکتے تھے۔ لیکن بین الاقوامی طاقتوں نے ایسی سازشیں کیں کہ ہم اپنا راستہ بھٹک گئے۔
پاکستان کی ابتداء سے ہی باکردار اور دیانت دار قیادت کا خاتمہ کر دیا گیا اور شعوری طور پر ایسی قیادت سامنے لائی گئی جو کرپٹ، عوام دشمن اور ملک دشمن تھی۔ قائداعظم کی وفات کو ہی دیکھ لیں زیارت سے جب قائداعظم کراچی ایئر پورٹ پر اترے تو ان کو لینے کے لیے ایک کھٹارہ سی ایمبولینس موجود تھی۔
قائداعظم گورنر جنرل پاکستان تھے لیکن انھیں لینے کے لیے کوئی قابل ذکر شخصیت موجود نہیں تھی اس دن وزیر اعظم اور ان کے وزراء کہاں تھے کچھ پتہ نہیں ۔ بیمار قائد کی ایمبولینس اس جگہ جا کر خراب ہوئی جہاں مہاجر کیمپ تھے ۔
مہاجر لٹ پٹ کر آئے تھے کسی کا بازو نہیں تو کسی کی ٹانگ نہیں جذبات مشتعل تھے سازشیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ قائد پر مہاجر ہلہ بول دیں ۔
ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور یہ سازش ناکام رہی ۔ ایسے مواقعے پر ایک متبادل ایمبولینس لازمی ہوتی ہے وہ بھی پراسرار طور پر غائب تھی۔ اس کے بعد لیاقت علی خان کا قتل پراسرار حالات میں ہوا ۔
جو ٹیم ان کے قتل کی تحقیقات کر رہی تھی ان کے ہیلی کاپٹر کو فضا میں تباہ کردیا گیا کیونکہ وہ تحقیقاتی ٹیم اصل مجرموں اور سازشوں کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ پس منظر یہ تھا کہ امریکا لیاقت علی خان پر دباؤ ڈال کر ایران میں اپنے مفادات کی بحالی چاہتا تھا جس سے لیاقت علی خان نے انکار کردیا۔
اس کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی پراسرار حالات میں وفات ہوتی ہے ، کیونکہ محترمہ فاطمہ جناح کسی صورت آمریت سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھیں ۔ ایوب خان کے مارشل لاء نے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی ۔ یحیٰی خان کے بنگال کش اقدامات نے اسے حقیقت بنادیا۔
حکمران طبقات نے اس المیے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اس کا ذمے دار سیاستدانوں کو قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی گئی، انتہائی کوشش کے باوجود ان کے خلاف جب کچھ نہیں ملا تو ان کا ایک سازش کے تحت جوڈیشل قتل کردیا گیا۔
اسی طرح بے نظیر کو قتل کرنے کے فوراً بعد جائے واردات کو پانی سے دھو کر ہر طرح کے ثبوت مٹا دیے گئے مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے قتل بھی اسی ضمن میں آتے ہیں اب مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کے لیے کھلا میدان تھا۔
بے نظیر بھٹو کو گھیر گھار کر پاکستان لاکر قتل کر دیا گیا۔ باوجود اس کے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے ان کی جان کی ضمانت دی تھی۔ ان کا خاتمہ امریکا کی ناگزیر ضرورت تھی کیونکہ اس کے بغیر امریکا کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے عالمی ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ممکن نہ تھا ۔ باپ بیٹی اس امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد میں بڑی رکاوٹ تھے ۔
جون 1757 وہ المناک دن تھا جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سازشوں ، دولت ، جدید اسلحہ اور غداروں کے ذریعے بنگال پر قبضہ کر لیا۔ مغل حکمرانوں کو محلات اور مقبرے بنوانے کے سوا کوئی کام نہ تھا نہ انھوں نے بحری جنگی جہاز بنائے جب کہ انگریزوں نے اپنی بحری افواج کے ذریعے ہی دنیا کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا، مغلوں کو جدید علوم سے کوئی سروکار نہ تھاکہاں انگریزوں کا اس زمانے کا جدید اسلحہ اور کہاں برصغیر کا فرسودہ اسلحہ، ظاہر ہے شکست پر شکست کھاتے چلے گئے۔
قائداعظم اس تاریک دور میں روشنی کی ایک کرن کی طرح نمودار ہوئے اور مسلمانوں کے مایوس دلوں کو امید سے بھر دیا۔ شاعر مشرق اور ایرانی انقلاب کے رہنما اس صورت حال سے کس قدر مایوس تھے اس کا اندازہ قارئین اس خط سے لگا سکتے ہیں جو علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام 21جون 1937کو لکھا جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔
اقبال نے لکھا کہ''میں جانتا ہوں آپ بہت مصروف ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ میرا بار بار آپ کو خط لکھنا گراں نہ گزرتا ہوگا ، میری نگاہوں میں اس وقت ہندوستاں بھر میں'' آپ ہی واحد مسلمان ہیں''جس کے ساتھ ملت اسلامیہ کو اپنی امیدیں وابستہ کرنے کا حق ہے کہ آپ اس طوفان میںجو یہاں آنے والا ہے اس کشتی کو ثابت وسالم ساحل تک پہنچائیں گے ۔''