کیا پاکستان میں قانون ہے
قانون تو اب ادارے بھی سیاست میں مداخلت اور من مانیاں چلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں
سندھ ہائی کورٹ کے مطابق کراچی میں کہیں قانون ہے اور نہ ہی کہیں قانون کا نفاذ نظر آتا ہے۔ فاضل جج کی یہ بات تو درست ہے ہی مگر قانون تو پاکستان ہی میں کہیں نظر آتا ہے نہ نافذ ہوتا ہے بلکہ صرف قانونی کتابوں میں موجود اور اس کا نفاذ بھی صرف سرکاری کتابوں تک محدود ہے اور اکثر اعلیٰ عدالتوں میں اس سلسلے میں ریمارکس بھی دیے جاتے ہیں۔
وہ پرانی بات اب بھی صادق آتی ہے کہ جس طرح افغانستان میں ریلوے نہیں مگر وزیر ریلوے ہوا کرتا تھا جس پر پاکستان کے کسی وزیر نے وہاں حیرت کا اظہار کیا تھا تو انھیں جواب ملا تھا کہ پاکستان میں بھی تو وزیر قانون ہوتے ہیں جب کہ وہاں قانون تو موجود ہی نہیں۔ صورت حال سالوں بعد بھی ویسی ہی ہے اور پاکستان میں قانون کتابوں اور عدالتوں تک ہی موجود ہے۔
تحریک انصاف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ملک میں ایک جیسا قانون نافذ کرے گی اور غریب و امیر کے لیے یکساں قانون ہوگا مگر دیکھا یہ گیا کہ پی ٹی آئی دور میں قانون صرف اپوزیشن کے لیے تھا اور حکومتی حامیوں کے لیے کوئی قانون تھا ہی نہیں اور اپوزیشن کے لیے جو قانون تھا وہ قانونی نہیں صرف انتقامی اور بے حد کمزور اور غیر احتسابی تھا جس کے تحت مشیر احتساب نے اپوزیشن کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کرائے تھے وہ عدالتوں میں اتنے کمزور ثابت ہوئے کہ عدالتوں میں ثابت نہ کیے جاسکے اور تمام اسیر رہنما عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہوتے چلے گئے اور مقدمات کے اخراج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
مختلف اداروں کی طرف سے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جو مقدمات قائم کیے گئے تھے وہ جھوٹے اور بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں اور اعلیٰ عدالتیں بھی ان مقدمات کو خارج کر رہی ہیں۔ ملک میں قانون اور اس کا نفاذ صرف غیر سول حکومتوں میں اور خصوصاً جنرل ایوب خان کے مارشل لا میں نظر آیا تھا۔
جنرل ضیا کا مارشل لا صرف پی پی رہنماؤں کے لیے تھا اورغیر سول عدالتوں سے پی پی رہنماؤں کو ہی سزا ملتی تھی جب کہ جنرل مشرف دور میں تو عملی طور پر مارشل لا تھا ہی نہیں بلکہ جو نیب اور نیب قوانین بنائے گئے تھے۔
اس میں قانونی مقدمات میں نیب کا ایسا غیر سول مارشل لا تھا جس میں نیب کے پاس سیاسی ملزمان کے خلاف عدالتوں میں ثبوت کے لیے کچھ نہیں صرف الزام ہوتے تھے جنھیں غلط ثابت کرنا ملزمان کی ذمے داری بنا دی گئی تھی اور یہ سیاسی ملزمان جب اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرکے مشرف حکومت کی حمایت کرنے لگتے وہ صاف و شفاف قرار دے کر رہا کردیے جاتے تھے۔
قانون کا عملی نفاذ نہ کبھی پی پی اور (ن) لیگی دور میں ہوا نہ سب کے لیے یکساں قانون کے نفاذ کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت میں اور نہ ہی اب 13 پارٹیوں کی موجودہ اتحادی حکومت میں ہے۔
ملک میں احتساب کے قوانین میں تبدیلی آگئی ہے مگر توشہ خانہ قوانین نہ جانے کہاں ہیں جن کے تحت توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات فراہم کرنا پی ٹی آئی حکومت کے مفاد میں نہیں تھا اور موجودہ حکومت تفصیلات فراہم کرنا نہیں چاہتی جس کا حتمی فیصلہ اب لاہور ہائی کورٹ نے کرنا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں کو غیر ملکی دوروں میں جو تحائف ملتے ہیں وہ توشہ خانہ قانون کے مطابق وہاں جمع کرانا قانونی تقاضا ہے مگر کسی نے اس قانون پر عمل نہیں کیا اور جس کو جہاں موقعہ ملا وہ تحائف اپنے گھر لے گیا اور اس کی تفصیلات تک فراہم نہیں کیں۔
توشہ خانہ قوانین صرف حکمرانوں کے مفاد کے لیے ہیں کہ وہ بعض تحائف ظاہر کرکے مرضی کی قیمت لگوائیں بلکہ خود ہی اس کے کم سے کم ریٹ مقرر کرائیں اور پہلے صرف 2 فیصد ادائیگی پر اور عمران خان کی مہربانی سے 50 فیصد ادائیگی پر لیے جاسکتے ہیں۔
یہی نہیں یہ بھی حکمرانی سہولت ہے کہ سستے تحائف لے کر مارکیٹ میں مہنگے فروخت کرکے بعد میں رقم جمع کرائیں اور اس طرح اربوں روپے کے تحائف کروڑوں میں خریدیں۔
اس کی فروخت کی جعلی رسیدیں ظاہر کریں اور اقتدار میں یہ کاروبار بھی کریں اور مال بنائیں جب کہ جب کوئی غیر ملکی حکمران پاکستان آتا ہے اس کو تحائف دینے کے لیے رقم قومی خزانے سے دی جاتی ہے۔
پاکستان میں قانون صرف حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے لیے ہے جس کو وہ اقتداری من مانیوں، سیاسی و مالی مفادات اور سیاسی مخالفین اور ان پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور اینکروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے اور صرف غریبوں کے لیے ہے۔
قانون تو اب ادارے بھی سیاست میں مداخلت اور من مانیاں چلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان وہ واحد رہنما ہیں جو قانون کو بھی اپنے ہاتھ کی گھڑی سمجھتے ہیں اور آئے دن قانون کی اپنی مرضی کے مطابق بنا کر جس پر چاہے تنقید کرلیں جس پر چاہے الزام لگا دیں۔ وہ صرف آئین کے آرٹیکل 6سے ڈرتے ہیں اور حاضر سروس جج کو کبھی بخش دیتے ہیں۔ عمران خان کبھی کبھی اپنی مرضی کے فیصلے آنے پر اعلیٰ عدلیہ پر بھی تنقید کرنے لگتے ہیں ۔
مگر ایک خاتون جج کو دھمکی دینا گلے پڑ جاتا ہے اورایک سینئر جج انھیں 18 جنوری کو طلب کرلیتے ہیں۔ پاکستان کے قانون میں عمران خان کا حامی سینیٹر ایک ہی جرم دو بار کرنے پر گرفت میں آ جاتا ہے مگر عمران خان ایک سب سے بااثر ادارے کے سربراہ پر بار بار تنقید اور الزام تراشی کے باوجود محفوظ رہتے ہیں۔
پاکستان میں قانون صرف غریب کے لیے ہے جو پھنس جائے مگر ملک بھر کے ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور اتنے بااثر ہیں کہ ملک کی کوئی صوبائی حکومت ٹیکسی رکشوں میں میٹر لگوانے کی بھی طاقت نہیں رکھتی۔
صوبائی حکومتیں قانون سے سرعام اور مرضی کی خلاف ورزی کرنے بلکہ قانون توڑنے والے جرائم پیشہ عناصر، ڈاکوؤں اور گراں فروشوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں رکھتیں اور یہ لوگ عوام کو مسلسل لوٹ رہے ہیں اور کوئی قانون عوام کو ان سے نہیں بچا پا رہا۔
کہتے ہیں پاکستان میں قانون ہے اور اسمبلی ارکان قانون سازی کے لیے اسمبلیوں سے اربوں روپے کی مراعات بھی لیتے ہیں اور بڑے لوگ بینکوں سے اربوں کھربوں کے قرضے لے کر معاف کرا لیتے ہیں مگر غریب ون وے کی خلاف ورزی پر چند ہزار قرض لے کر واپس نہ کرنے والوں پر قانون فوراً لگ جاتا ہے اور وہ پکڑے بھی جاتے ہیں کیونکہ قانون کا بس صرف ان پر ہی چلتا ہے اور قانون جان بوجھ کر توڑنے والے ہمیشہ محفوظ ہی رہے ہیں۔