سیاسی ہیجان میں ہوش مندی کی ایک بات
اس مقصد کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا
اقتدار کی خواہش کوئی ایسی بری بات بھی نہیں لیکن اس جستجو کا ایسی تڑپ میں بدل جانا جو قومی مفادات کو شک پہنچانے لگے، کچھ سوالات پیدا کرتا ہے جیسے دو ہزار چودہ کے دھرنے کے موقع پر چین کے صدر کا دورہ ملتوی کروا دیا گیا اور اب مسلسل ہیجان پیدا کر کے معیشت کے استحکام کا راستہ روکا جا رہا ہے۔
یہ سرگردانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ آج سیاسی مفادات اور ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والی دہشت گردی بھی ایک دوسرے کی معاون بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ایسے ماحول میں خواہش کے باوجود بہت سے ایسے معاملات زیر بحث نہیں آ پا رہے جن کا تعلق قومی مفادات سے بہت گہرا ہے۔
حالیہ دنوں میں بھارت سے برآمد ہونے والے کھانسی کے سیرپ کی خبروں نے دنیا بھر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس شربت کے پینے سے بہت سے ملکوں میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے۔
ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے پلیٹ فارموں پر اس سانحے پر مباحثہ ہوا ہے لیکن ہماری سیاست کی ہیجان خیز کیفیت میں ہمارے یہاں اس موضوع کو جگہ نہ مل سکی ورنہ سچ تو یہ ہے کہ بھارت کی مضر صحت دوا سازی کی صنعت کی تباہ کن کارکردگی اور اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات دو وجہ سے ہماری دلچسپی کا موضوع ہونے چاہئیں۔
پہلا سبب تو یہ ہے کہ بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارتی قیادت، وزارت خارجہ اور اس کی پروپیگنڈا مشین ہرلحظہ مستعد رہتی ہے۔
اس مقصد کے لیے جھوٹ کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے طوفان اٹھانے کا بھارتی منصوبہ تو عالمی سطح پر بے نقاب ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے حالات ہمیں درست مواقعے سے فائدہ اٹھانے سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔
یہ پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بھارت ایک غیر ذمے دار اور مجرمانہ کردار رکھنے والی ریاست ہے جس میں شرف انسانی کو کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ بھارت میں آج بھی ذات پات کے نظام کی وجہ سے ایسے تکلیف دہ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
جنھیں کوئی صاحب ضمیر برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح بھارت کی دوا سازی کی صنعت بھی بھارتی ریاست اور صنعت کار کی شقی القلبی کے ناقابل تردید ثبوت پیش کر رہی ہے جسے دنیا سامنے لا کر بھارت کا حقیقی چہرہ بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
انسانیت سے محبت کرنے والے یہ جان کر لرز جائیں گے کہ بھارت سے برآمد ہونے والے کف سیرپ میں سے ایسے اجزا پائے گئے ہیں جنھیں انسانی جسم برداشت ہی نہیں کر سکتا۔
وسط ایشیا اور افریقی ممالک میں یہ شربت پینے سے ہلاکتوں کے واقعات سامنے آنے کے بعد تحقیقات سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اس شربت میں صنعتی فضلے اجزا کے علاوہ ایسے اجزا کے شامل ہونے کا بھی سراغ ملا ہے جو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ تو ہیں ہی لیکن صنعتی استعمال میں بھی انھیں نہایت احتیاط سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ بھارتی حکومت اس مجرمانہ طرز عمل کے دفاع پر اتر آئی ہے۔
مضر صحت سیرپ میں زہریلے اجزا ثابت ہو جانے کے باوجود بھارتی حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی دوا سازی کی صنعت عالمی معیار کے عین مطابق جب کہ خود بھارتی اداروں کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ بھارت کی دوا سازی کی صنعت پچیس فیصد سے زاید جعل سازی پر کھڑی ہے جس کے خلاف خود بھارت میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن بھارتی میڈیا اس کا بلیک آٹ کرتا ہے۔
پاکستان کی یہ پہلی ذمے داری ہے کہ وہ بھارت کا یہ انسانیت دشمن چہرہ بے نقاب کرے۔اس صورت حال میں ہمارے لیے ایک موقع بھی پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی دوا سازی کی صنعت میں بڑے امکانات پوشیدہ ہیں، اگر ہمارے یہاں سے دواؤں کی برآمد شروع ہو جائے تو پاکستان کے زرمبادلہ کی کمی کے مسائل نہایت آسانی کے ساتھ حل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس میں ایک رکاوٹ ہے، میری معلومات کے مطابق جس پر سب سے پہلے صدر ممنون حسین صاحب نے توجہ دی تھی۔انھوں نے مارچ دو ہزار پندرہ میں آذر بائیجان کا دورہ کیا تھا۔
اس موقعے پر دو طرفہ مذاکرات میں یہ پہلو بھی زیر بحث لایا گیا کہ یہ برادر ملک دوسرے ممالک کے بجائے پاکستان سے ادویات درآمد کیا کرے۔ آذر بائیجان کے صدر عزت مآب الہام علی ایو نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور خوشی ظاہر کی کہ اس طرح دونوں برادر ملکوں کی معیشت کو فائدہ ہوگا۔
اس سلسلے میں ان کی ایک ہی شرط تھی کہ جو دوائیں آذر بائیجان برآمد کی جائیں، عالمی معیار کے مطابق انھیں ایک لیبارٹری کے ٹیسٹ سے گزارا جائے۔ پاکستان نے اس شرط سے اتفاق کر لیا۔ یہ کوئی ایسی مشکل اور پیچیدہ شرط بھی نہیں تھی لیکن پاکستان واپس آ کر انکشاف ہوا کہ اس سلسلے میں اسلام آباد میں جہاں لیبارٹری قائم کی جانی تھی، وہاں تو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب نے فیڈرل میڈیکل کالج قائم کر دیا ہے۔
صدر ممنون حسین نے بڑی تگ و دو کر کے یہ کالج دوسری جگہ منتقل کرا دیا۔ اس کے بعد ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا، کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ یہاں سٹیزن کلب بنا دیا جائے۔ عدالت عظمی کے حکم کے مطابق ایف نائن پارک میں کلب نہیں بنایا جاسکتا البتہ لیبارٹری قائم کی جا سکتی ہے۔
اس تنازعے نے طول کھینچا، نہ لیبارٹری بن سکی اور نہ کلب۔ البتہ اربوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی عمارت تباہی کے دہانے پر جا پہنچی۔ اب اگر عمران خان کی ہیجان خیزی اجازت دے تو مناسب ہو گا کہ اس شان دار عمارت کو نہ صرف تباہی سے بچایا جائے بلکہ منصوبے کے مطابق وہاں دواؤں کا معیار جانچنے کی لیبارٹری بنا کر قومی آمدن میں حائل رکاوٹ بھی دورکی جائے۔