اشفاق احمد صاحب میری پہلی ادبی محبت

ان کا گھر جامع مسجد عنایت اللہ شاہ بخاری کابلی گیٹ کے قریب ایک تنگ سی گلی میں تھا


Asghar Abdullah January 02, 2023
[email protected]

زمانہ ء طالب علمی میں جن افسانہ نگاروں کو پڑھنا بہت ہی مرغوب رہا، اُن میں اشفاق احمد صاحب کا نام سرِ فہرست ہے۔ ''ایک محبت سو افسانے'' ازبر ہو چکے تھے ۔

یہ مجموعہ پہلی بار میں نے خالد ہمایوں صاحب سے مستعار لے کے پڑھا۔ میں زمیندارڈگری کالج گجرات میں سال ِ اوّل کا طالب علم تھا۔ خالدہمایوں صاحب پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں پڑھاتے تھے، اور گجرات آئے ہوئے تھے۔

ان کا گھر جامع مسجد عنایت اللہ شاہ بخاری کابلی گیٹ کے قریب ایک تنگ سی گلی میں تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے گھر پہنچا ، تو اس کا بیرونی دروازہ مقفل پایا۔ ہمایوں صاحب نے جیب سے چابی نکالی، دروازہ کھولا،اور بتایا کہ اب یہاں کوئی نہیں رہتا ہے۔ سب کمروں میں کتابیں ہی کتابیں نظر آ رہی تھیں۔

سامنے والے کمرے میں دیوار کے سہارے کتب تلے اُوپر اس طرح رکھی تھیں کہ سب سے اُوپروالی کتاب کسی میز پر چڑھ کے ہی اتاری جا سکتی تھی۔ ہمایوں صاحب نے میز پرچڑھ کے ہی '' ایک محبت سوافسانے'' کا نسخہ اتارا تھا ۔''یہ افسانے پڑھے ہیں ؟' ہمایوں صاحب نے پوچھا ۔ میں نے نفی میں سرہلایا، تو انھوں نے یہ نسخہ میری طرف بڑھا دیا ۔ یہ ''ایک محبت سو افسانے'' کی اشاعت اوّل کا پیپر بیک ایڈیشن تھا ۔

کافی عرصہ تک یہ ایڈیشن میرے پاس محفوظ رہا ،آج جب یہ میرے پاس نہیں، تب بھی میں اس کا لال رنگ کا سرورق دیکھ سکتا ہوں، جس کی پیپر بیک جلد اُکھڑ چکی تھی۔

چنانچہ گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے میں نے اس جلد کو گوند لگا کے اچھی طرح سے جوڑا ، اوراس کے اُوپر تین چار موٹی موٹی کتابیں رکھ دیں،تاکہ جلد مضبوط ہو جائے۔ دوسرے روز رات سونے سے پہلے میں اس کو پڑھنا شروع کیا،اشفاق احمد صاحب سے یہ میری پہلی ''ملاقات'' تھی ۔

جب پنجاب یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوا تو میں لاہور چلا آیا، تب اشفاق صاحب کی شہرت ریڈیو رائٹر اور ڈرامہ نگار کی ہو چکی تھی، اور افسانے کی اہمیت ان کی نظر میں ثانوی ہو چکی تھی۔

میں نیو کیمپس ہوسٹل نمبر1 میں رہ رہا تھا ، جب مجھ پر منکشف ہوا کہ ماڈل ٹاون K بلاک میں اشفاق صاحب کا ''داستان سراے'' یونیورسٹی سے زیادہ دور نہیں۔ جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں، تب نیوکیمپس کے اطراف میںجیل کی صورت اونچی اونچی دیواریں نہیں کھنچی تھیں۔

یونیورسٹی چاروں طرف سے سرسبز کھیتوں سے گھری ہوئی تھی،ان سرسبز کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ ہوسٹلز اور ڈیپارٹمنٹس کے درمیان نہر کے کناروں پر دیوقامت درخت تھے۔ نہر کے دونوں طرف ٹریفک ضرور تھی، تاہم سر ِشام ہی یہ سڑکیں خاموش اور ویران ہو جاتی تھیں۔

صرف ہوسٹلز کے کچھ طلبہ نہر کنارے مٹر گشت کرتے نظر آتے تھے۔ اشفاق صاحب یونیورسٹی کی تقریبات میں آتے رہتے تھے۔

ان کے انداز ِ تحریر کی طرح اُن کا انداز ِ گفتگو بھی دل کش اور دل پذیر تھا۔ ان کا انداز ِ بیاں ایک داستان گو جیسا تھا، یہی خوبی ان کی شخصیت کو محفلوں میں سب پر حاوی کر دیتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کے بعد ہفت روزہ ''ندا'' سے منسلک ہوا، اور ادبی مکالموں کا سلسلہ شروع کیا، تو دوسرا مکالمہ اشفاق احمد صاحب کے ساتھ ہوا۔ وہ ان دنوں اردو سائنس بورڈکی سربراہی سے سبکدوش ہو چکے تھے ،اور ان کے پاس وقت کی کمی نہیں تھی۔

نومبر شروع ہو چکا تھا، داستان سرائے کے سامنے پہنچا تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ داستاں سراے کا وہ منظر آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے : بیرونی دیواروں پر آف وائیٹ پینٹ، اندر داخل ہوتے ہی دائیں طرف سرسبز لان ، میں نے گیٹ کی گھنٹی کو دبایا۔ کچھ ہی دیر میں اشفاق صاحب کے ایک ریڈیو کریکٹر ' ہدایت اللہ 'کی طرح کا ملازم برآمد ہوا۔ ''آپ اصغر عبداللہ صاحب ہیں ؟'' میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ''اندر آ جائیے''۔ ہدایت اللہ' نے کہا اور مجھے ڈرائنگ روم میں لے آیا۔

'' تشریف رکھیں، صاحب تھوڑی دیرمیں آ رہے ہیں۔'' ڈرائنگ روم کشادہ لیکن بہت زیادہ آراستہ نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں 'ہدایت اللہ' چائے لایا، وہ چائے میز پر رکھ رہا تھا کہ اشفاق صاحب بھی اندرآ گئے، آہستہ آہستہ چلتے ہوئے، انھوں نے کشمیری دھسے کی بُکل مار رکھی تھی، جس کے اندر سے اُن کا سویٹر جھانک رہا تھا۔

چہرے پر پہلے والی بشاشت نظر نہیں آتی، اس طرح اشفاق صاحب کا چہرہ بھی کچھ خالی خالی سا تھا۔ مگر جیسے ہی انھوں نے گفتگو شروع کی، وہ پھر سے پہلے والے پراعتماد 'اشفاق صاحب' بن گئے ۔

اشفاق احمد صاحب سے یہ مکالمہ اختتام کو پہنچا۔ انٹرویو کے بعد مجھے تصویر کھنچوانے کا کبھی شوق نہیں رہا، لیکن اس روز جی چاہا کہ اشفاق صاحب کے ساتھ ایک تصویر ہونی چاہیے۔ رات کے نوبج چکے تھے۔اشفاق صاحب دروازہ تک میرے ساتھ آئے اور گرمجوشی سے مصافحہ کیا۔

داستاں سرائے سے باہر نکلتے ہوئے میں نے مُڑ کے دیکھا، تو اشفاق صاحب ابھی دروازے پر ہی کھڑے تھے۔یہ منظر میرے حافظے میں منجمد ہو چکاہے۔ یہ ادبی مکالمہ شایع ہوا تو اشفاق صاحب نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔

اپنے آخری ایام میں جب اشفاق صاحب کی صحت تیزی سے گرنے لگی، تو ایک روز اے حمید صاحب میرے پاس آئے۔ ان کے چہرہ بجھا ہوا تھا۔ میں نے سبب دریافت کیا،بولے، ''اشفاق بہت ہی بیمارہے '' اور یہ کہتے ہوئے اُن کی آواز بھرّا گئی ۔'' ریحانہ اس کو دیکھ کے آئی ہے، بتا رہی تھی ، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، اور چند دنوں کا مہمان معلوم ہو رہا ہے۔'' ' آپ نہیں گئے؟''میں نے استفسار کیا۔

اے حمید صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، '' اشفاق میرا دوست اے، میں اس کو اس حالت میں نہیں دیکھ سکوں گا، میں تو اس کو اسی طرح ہنستے مسکراتے دیکھتے رہنا چاہتا ہوں، جس طرح ہمیشہ دیکھتا آیا ہوں۔'' اشفاق صاحب کی وفات کے چند روز بعد اے حمیدصاحب آئے تو ان کے ہاتھ میں tea bagsکا ایک ڈبہ تھا۔

انھوں نے تازہ مسودے میری میز پر رکھے اور کہا ،'' آج چاے نہیں، صرف اُبلا ہوا پانی منگواؤ، چاے میں لایا ہوں۔'' پھر محبت میں ڈوبی ہوئی آواز میںکہا،''کل ریحانہ اشفاق کے گھر گئی تھی۔

بانو قدسیہ نے اس کوtea bags کا یہ ڈبہ دیا اور کہا ،'' اشفاق نے سیلون سے آئی ہوئی یہ چائے خاص اے حمید کے لیے رکھی ہوئی تھی اور کہا تھا، جب میں اچھا ہو جاؤں گا تو اے حمیدکے پاس جاؤں گا اور سب اکٹھے بیٹھ کے یہ چاے پیئں گے۔ '' یہ کہتے ہوئے اے حمید صاحب نے tea bags کا وہ ڈبہ مجھے دیا، اورکہا،''آدھےtea bags میں نے رکھ لیے ہیں،آدھے تمھارے لیے ہیں''۔ میں نے اس بیش قیمت تحفہ کو فوراً دراز میں محفوظ کر لیا۔اس اثنا ء میں نیاز اُبلا ہوا کڑک پانی لے آیا، اے حمید صاحب نے ۲ ٹی بیگ اس میں ڈالے اور چائے کو دم پر رکھ دیا۔

کچھ دیر بعد جب چینک کا ڈھکن اُٹھایا، تو پورے کمرے میں چائے کی خوشبو پھیل گئی۔''دیکھو اصغر، کیسی بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہے۔

یہ میرے یار اشفاق کی چائے کی خوشبوہے''۔ اشفاق احمد صاحب کی چائے ہو، اور اے حمید صاحب نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہو، وہ کیسی خوش نصیب چائے ہو گی۔ میں اور اے حمید صاحب چائے پی رہے تھے اور اشفا ق صاحب کو یاد کر رہے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔