ڈاکٹررضی الدین صدیقی ممتاز ریاضی داں و ماہرِ طبیعیات
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک ہی وقت میں کئی علوم کے درجہ کمال پر فائز تھے
ڈاکٹر محمد رضی الدین صدیقی کی زندگی پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو ان پر تاریخ کے اُن علمائے سائنس کا گمان ہوتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی علوم کے درجۂ کمال پر فائز تھے۔ وہ ممتاز ریاضی دان، فلسفی، ادبی شخصیت، ماہرِ تعلیم، اسلامی تمدن کے اسکالر اور کئی زبانوں کے ماہر تھے۔
محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ قاضیوں اور منصفوں سے تعلق رکھتا تھا۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم پہلے گھر پر، پھر دارالعلوم میں پڑھے۔ پھر انہوں نے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں ہی دی جاتی تھی اور اس کےلیے خاص طور پر اردو میں کتابیں او ر درسی لٹریچر تیار کیا جاتا تھا۔
انہیں پڑھانے کےلیے اساتذہ رک جایا کرتے تھے!
کالج کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اساتذہ کے درمیان یہ تنازع پیدا ہوگیا کہ رضی الدین کس مضمون میں بہتر ہیں۔ سائنس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ فزکس اور میتھمیٹکس میں بہتر ہیں اور اسی لیے ان مضامین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ ادب اور لسانیات کے ٹیچرز کا اصرار تھا کہ وہ عربی اور فارسی میں بھی یکساں قابل ہیں اس لیے ان پر توجہ دی جائے۔ آخر یہ طے ہوا کہ سائنسی علوم کےلیے چونکہ لیباریٹریز کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ کالج میں جاری رکھے جائیں گے۔ اس طرح کالج ختم ہونے کے بعد بھی ادب کے اساتذہ انہیں پڑھانے کےلیے موجود رہتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے اساتذہ اپنے قابل طلبا کےلیے کتنے فکرمند رہتے تھے۔ ایک استاد نے انہیں ایک پیپر میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دیے تھے۔
رضی الدین 1925 میں جامعہ عثمانیہ سے فارغ ہونے والے پہلے بیچ میں شامل تھے۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ کیمبرج میں وہ داخلے کے امتحان میں اول آئے اور انہیں براہِ راست سیکنڈ ایئر میں پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ کیمبرج میں وہ فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے اولین شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔
آرتھر ایڈنگٹن اور ورنر ہائزنبرگ
کیمبرج کے دنوں میں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور ان کے قریبی شاگردوں میں شامل ہوئے۔ ایڈنگٹن وہی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1919 کے سورج گرہن کی مدد سے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو ثابت کر دکھایا تھا۔ انہوں نے ایڈنگٹن کی رہنمائی میں علم کے سفر طے کیے۔ اس وقت فزکس بدل رہی تھی، ایک طرف کوانٹم مکینکس تھی تو دوسری جانب نظریہ اضافیت نے زمان و مکان کے تصورات بدل کر رکھ دیے تھے۔
کیمبرج سے ماسٹرز کے بعد وہ ڈاکٹریٹ کےلیے جرمنی روانہ ہوئے جہاں وہ آئن اسٹائن، میکس پلانک یا ورنر ہائزن برگ کے شاگرد بننے کے خواہشمند تھے۔ آئن اسٹائن تو نہیں لیکن ورنر ہائزن برگ ان کے استاد مقرر ہوئے جو ان کے پی ایچ ڈی سپروائزر میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ازیں پروفیسر لیون لخٹینسٹائن اور پروفیسر ہانز ڈرائچ بھی ان کے نگراں اساتذہ میں شامل تھے۔ رضی الدین اس لحاظ سے خوش نصیب رہے کہ انہوں نے فزکس کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا اور ان لوگوں سے علم حاصل کیا جنہوں نے اس علم کو گویا بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریہ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ رضی الدین نے اس دوران آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ تاہم ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ نے نہ صرف ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو تعلیم دی بلکہ ان کی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ انہوں نے ریاضی میں تھیوری آف آپریٹرز کو ترقی دی جو آج کوانٹم مکینکس میں استعمال کی جاتی ہے۔
پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں انہوں نے نہ صرف تحقیقی مقالے لکھے بلکہ فرانس کے ممتاز جرنلز میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن آگئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔
1937 میں انہوں نے کوانٹم مکینکس کے اپنے لیکچرز مرتب کرکے انہیں کتابی صورت دی۔ اس کتاب میں نظریہ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے محترم استاد، ورنر ہائزن برگ کے نام معنون کی تھی۔ اس کوشش کو نہ صرف ہائزن برگ نے بہت سراہا بلکہ اسے طالبعلموں کےلیے ایک مفید کتاب قرار دیا۔
اسی طرح ڈاکٹر پی اے ایم ڈیراک کو جب یہ کتاب بھجوائی گئی تو انہوں نے اسے بہت اچھی کوشش قرار دیا جبکہ سر سی وی رامن نے بھی یہ کتاب پڑھی تھی۔
1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیا اور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
علامہ اقبال کی فرمائش پر نظریہ اضافیت پر کتاب
1940 نے انجمن ترقی اردو، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب، نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔ یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال کی فرمائش پر تحریر کی تھی جو آئن اسٹائن کے کام کو اردومیں پیش کرنے کے خواہشمند تھے لیکن افسوس کہ کتاب منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی علامہ اقبال وفات پاگئے تھے۔ تاہم آج بھی اس کتاب کی اہمیت ہے جس میں بہت عام فہم انداز میں نظریہ اضافیت کو سمجھایا گیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس تاثر کو زائل قرار دیا ہے کہ اس تھیوری کو صرف چند لوگ ہی سمجھ سکتے تھے۔ اس طرح وہ سائنسی اشرافیہ کے علمی تکبر کی تکذیب کرتے ہیں اور عوام میں سائنس کی ترویج کے حامی دکھائے دیتے ہیں۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے 'اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی، جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔
ایک عظیم سائنسدان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی وہ غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیق پر گولڈ میڈل دیا گیا اور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کےلیے پاکستان آئے۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے انہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کی صدارت سنبھالنے کو کہا، وزیرِ تعلیم فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔
جب کتب خانہ چِھن گیا
انہوں نے کہا کہ وہ صرف کانفرنس میں شرکت کےلیے پاکستان آئے ہیں اور واپس ہندوستان جاکر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہیں گے۔ اس موقع پر اس وقت صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے، جو اس وقت کراچی میں تھے، انہیں خیبر پاس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جب رضی الدین صدیقی پشاور پہنچے تو انہیں دو کاغذات موصول ہوئے۔ ایک اس ٹیلی گرام کی نقل تھی جس میں سردار قیوم نے ہندوستانی وزیراعظم کو کہا تھا کہ اب ڈاکٹر رضی الدین پاکستان میں رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ کو پاکستان بھجوادیا جائے۔ دوسرے خط میں انہیں نئی قائم شدہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنانے کے احکامات تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے مشورہ کیے بغیر خان عبدالقیوم خان کی اس جلد بازی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہندوستان میں اُن کی جائیداد اور سب سے بڑھ کر ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔ اس لائبریری کے جانے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا۔
جامعات کے معمار
1960 میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا گیا اور انہوں نے اس کا معیار بلند کرنے کےلیے ہر ممکن کوشش کی۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے انہیں اسلام آباد میں مجوزہ ایک نئی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جو آج قائداعظم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کےلیے وہ فرانس، امریکا، برطانیہ اور جرمنی گئے، وہاں کی جامعات کو قریب سے دیکھا، اہلِ علم سے گفتگو کی تاکہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔ انہوں نے اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رالف ٹیلر اور ورنر ہائزن برگ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور یونیورسٹی کےلیے ایک روڈمیپ تشکیل دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایم آئی ٹی، کیلٹیک اور رائل سوسائٹی سے بھی رابطے برقرار رکھے۔
انہوں نے اپنے تعلقات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے قائداعظم یونیورسٹی میں اعلیٰ پائے کی فیکلٹیز تعمیر کیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک مقیم مشہور پاکستانی سائنسدانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے علم سے اسے منور کریں۔
افسوس کہ 1971 میں جہاں ملکی یونیورسٹیز میں تبدیلیاں ہوئیں، وہیں قائداعظم یونیورسٹی میں بھی سیاسی دخل اندازی بڑھی۔ یونیورسٹی میں استاد کےلیے پی ایچ ڈی کے بجائے صرف ماسٹرز کی حد رکھی گئی جس سے اس کے معیار کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس سے یونیورسٹی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگا۔
غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے داعی
ڈاکٹر صدیقی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ وہ غربت، بیماری اور جہالت کا صرف ایک ہی علاج جانتے تھے اور وہ ہے تعلیم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کےلیے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج اسلام آباد میں شارعِ دستور پر واقع پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے قیام میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1961 سے 1972 تک اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے نائب صدر بھی رہے جبکہ سر سی وی رامن اس کے صدر تھے۔
1947 سے 1949 تک و ہ انڈین میتھیمیٹکل سوسائٹی کے صدر رہے اور یونیسکو کی جانب سے سائنس کے کنسلٹنٹ بھی مقرر ہوئے۔ انیس سو پچھتر میں انہیں انٹرنیشنل کانگریس آف میتھمیٹکل سوسائٹی کا جنرل پریذیڈنٹ منتخب کیا گیا جو ایک قابلِ فخر اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سائنسی سفارت کاری (ڈپلومیسی) کی بنیاد پر رکھی۔
1952 میں ڈاکٹر صدیقی کو انٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔
1960 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ انیس سو باسٹھ میں جرمنی میں انہیں گرانڈ کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔
دو جنوری، 1998 کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔ وکی پیڈیا پر ان کی تاریخِ وفات 8 جنوری بھی لکھی گئی ہے جو درست نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
محمد رضی الدین صدیقی 7 اپریل 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ قاضیوں اور منصفوں سے تعلق رکھتا تھا۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم پہلے گھر پر، پھر دارالعلوم میں پڑھے۔ پھر انہوں نے حیدرآباد دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ اس زمانے میں اعلیٰ تعلیم بھی اردو زبان میں ہی دی جاتی تھی اور اس کےلیے خاص طور پر اردو میں کتابیں او ر درسی لٹریچر تیار کیا جاتا تھا۔
انہیں پڑھانے کےلیے اساتذہ رک جایا کرتے تھے!
کالج کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اساتذہ کے درمیان یہ تنازع پیدا ہوگیا کہ رضی الدین کس مضمون میں بہتر ہیں۔ سائنس کے اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ فزکس اور میتھمیٹکس میں بہتر ہیں اور اسی لیے ان مضامین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جبکہ ادب اور لسانیات کے ٹیچرز کا اصرار تھا کہ وہ عربی اور فارسی میں بھی یکساں قابل ہیں اس لیے ان پر توجہ دی جائے۔ آخر یہ طے ہوا کہ سائنسی علوم کےلیے چونکہ لیباریٹریز کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ کالج میں جاری رکھے جائیں گے۔ اس طرح کالج ختم ہونے کے بعد بھی ادب کے اساتذہ انہیں پڑھانے کےلیے موجود رہتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کے اساتذہ اپنے قابل طلبا کےلیے کتنے فکرمند رہتے تھے۔ ایک استاد نے انہیں ایک پیپر میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دیے تھے۔
رضی الدین 1925 میں جامعہ عثمانیہ سے فارغ ہونے والے پہلے بیچ میں شامل تھے۔ خالص اردو میں تعلیمی پس منظر کے باوجود انہیں کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ کیمبرج میں وہ داخلے کے امتحان میں اول آئے اور انہیں براہِ راست سیکنڈ ایئر میں پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ کیمبرج میں وہ فزکس کے مایہ ناز ماہر اور نوبیل انعام یافتہ پال ڈیراک کے اولین شاگردوں میں شامل رہے۔ ڈیراک کوانٹم مکینکس کے بانیوں میں شامل ہیں جنہیں 1933 میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔
آرتھر ایڈنگٹن اور ورنر ہائزنبرگ
کیمبرج کے دنوں میں وہ فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کی نظروں میں آگئے اور ان کے قریبی شاگردوں میں شامل ہوئے۔ ایڈنگٹن وہی سائنسدان ہیں جنہوں نے 1919 کے سورج گرہن کی مدد سے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کو ثابت کر دکھایا تھا۔ انہوں نے ایڈنگٹن کی رہنمائی میں علم کے سفر طے کیے۔ اس وقت فزکس بدل رہی تھی، ایک طرف کوانٹم مکینکس تھی تو دوسری جانب نظریہ اضافیت نے زمان و مکان کے تصورات بدل کر رکھ دیے تھے۔
کیمبرج سے ماسٹرز کے بعد وہ ڈاکٹریٹ کےلیے جرمنی روانہ ہوئے جہاں وہ آئن اسٹائن، میکس پلانک یا ورنر ہائزن برگ کے شاگرد بننے کے خواہشمند تھے۔ آئن اسٹائن تو نہیں لیکن ورنر ہائزن برگ ان کے استاد مقرر ہوئے جو ان کے پی ایچ ڈی سپروائزر میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ ازیں پروفیسر لیون لخٹینسٹائن اور پروفیسر ہانز ڈرائچ بھی ان کے نگراں اساتذہ میں شامل تھے۔ رضی الدین اس لحاظ سے خوش نصیب رہے کہ انہوں نے فزکس کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا اور ان لوگوں سے علم حاصل کیا جنہوں نے اس علم کو گویا بدل کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کوانٹم مکینکس اور نظریہ اضافیت کے تصورات نے تہلکہ مچا رکھا تھا۔ رضی الدین نے اس دوران آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ تاہم ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ نے نہ صرف ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو تعلیم دی بلکہ ان کی زندگی پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
صدیقی نے 1930 میں تھیوری آف نان لینیئر پارشل ڈیفرینشیل اکیویشن کے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔ انہوں نے ریاضی میں تھیوری آف آپریٹرز کو ترقی دی جو آج کوانٹم مکینکس میں استعمال کی جاتی ہے۔
پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے ہی مشورے پر رضی الدین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں فرانس میں انہوں نے نہ صرف تحقیقی مقالے لکھے بلکہ فرانس کے ممتاز جرنلز میں ان کے مضامین شائع ہوئے۔ 1931 میں وہ حیدرآباد دکن آگئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔
1937 میں انہوں نے کوانٹم مکینکس کے اپنے لیکچرز مرتب کرکے انہیں کتابی صورت دی۔ اس کتاب میں نظریہ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے محترم استاد، ورنر ہائزن برگ کے نام معنون کی تھی۔ اس کوشش کو نہ صرف ہائزن برگ نے بہت سراہا بلکہ اسے طالبعلموں کےلیے ایک مفید کتاب قرار دیا۔
اسی طرح ڈاکٹر پی اے ایم ڈیراک کو جب یہ کتاب بھجوائی گئی تو انہوں نے اسے بہت اچھی کوشش قرار دیا جبکہ سر سی وی رامن نے بھی یہ کتاب پڑھی تھی۔
1938 میں ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیقی پر گولڈ میڈل دیا گیا اور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
علامہ اقبال کی فرمائش پر نظریہ اضافیت پر کتاب
1940 نے انجمن ترقی اردو، حیدرآباد نے ان کی اہم کتاب، نظریہ اضافیت (تھیوری آف ریلیٹویٹی) شائع کی۔ یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال کی فرمائش پر تحریر کی تھی جو آئن اسٹائن کے کام کو اردومیں پیش کرنے کے خواہشمند تھے لیکن افسوس کہ کتاب منظرِ عام پر آنے سے قبل ہی علامہ اقبال وفات پاگئے تھے۔ تاہم آج بھی اس کتاب کی اہمیت ہے جس میں بہت عام فہم انداز میں نظریہ اضافیت کو سمجھایا گیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اس تاثر کو زائل قرار دیا ہے کہ اس تھیوری کو صرف چند لوگ ہی سمجھ سکتے تھے۔ اس طرح وہ سائنسی اشرافیہ کے علمی تکبر کی تکذیب کرتے ہیں اور عوام میں سائنس کی ترویج کے حامی دکھائے دیتے ہیں۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی علامہ اقبال کے کلام کے اسکالر بھی تھے۔ 1974 میں انہوں نے 'اقبال کے تصورِ زمان و مکان' ایک کتاب مرتب کی، جسے بزمِ اقبال نے شائع کیا۔
ایک عظیم سائنسدان اور استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں کے ماہر بھی تھے۔ انگریزی کلاسک کا بڑا حصہ ان کے زیرِ مطالعہ تھا۔ ساتھ ہی وہ غالب، اقبال، حافظ اور شیرازی کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی کو انڈین نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے پانچ سال کے عرصے میں بہترین تحقیق پر گولڈ میڈل دیا گیا اور اسے جواہر لعل نہرو نے انہیں پہنایا۔
1950 میں وہ حکومتِ ہند کی جانب سے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کی ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کےلیے پاکستان آئے۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کی تین مختلف یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ کی آفر ہوئی۔ سردار عبدالرب نشتر نے انہیں آزاد کشمیر یونیورسٹی کی صدارت سنبھالنے کو کہا، وزیرِ تعلیم فضل الرحمان نے کہا کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن جائیں۔
جب کتب خانہ چِھن گیا
انہوں نے کہا کہ وہ صرف کانفرنس میں شرکت کےلیے پاکستان آئے ہیں اور واپس ہندوستان جاکر علیگڑھ یونیورسٹی میں اپنی تحقیقات جاری رکھنا چاہیں گے۔ اس موقع پر اس وقت صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ خان عبدالقیوم خان نے، جو اس وقت کراچی میں تھے، انہیں خیبر پاس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جب رضی الدین صدیقی پشاور پہنچے تو انہیں دو کاغذات موصول ہوئے۔ ایک اس ٹیلی گرام کی نقل تھی جس میں سردار قیوم نے ہندوستانی وزیراعظم کو کہا تھا کہ اب ڈاکٹر رضی الدین پاکستان میں رہیں گے اور ان کے اہلِ خانہ کو پاکستان بھجوادیا جائے۔ دوسرے خط میں انہیں نئی قائم شدہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ریاضی کا سربراہ بنانے کے احکامات تھے۔
ڈاکٹر رضی الدین صدیقی سے مشورہ کیے بغیر خان عبدالقیوم خان کی اس جلد بازی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ ہندوستان میں اُن کی جائیداد اور سب سے بڑھ کر ان کا قیمتی کتب خانہ ضبط کرلیا گیا۔ اس لائبریری کے جانے کا انہیں ہمیشہ افسوس رہا۔
جامعات کے معمار
1960 میں انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنادیا گیا اور انہوں نے اس کا معیار بلند کرنے کےلیے ہر ممکن کوشش کی۔ 1964 میں صدر ایوب خان نے انہیں اسلام آباد میں مجوزہ ایک نئی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جو آج قائداعظم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے۔ اس یونیورسٹی کےلیے وہ فرانس، امریکا، برطانیہ اور جرمنی گئے، وہاں کی جامعات کو قریب سے دیکھا، اہلِ علم سے گفتگو کی تاکہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ایک شاندار یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔ انہوں نے اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں پروفیسر رالف ٹیلر اور ورنر ہائزن برگ سے بھی تبادلہ خیال کیا اور یونیورسٹی کےلیے ایک روڈمیپ تشکیل دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایم آئی ٹی، کیلٹیک اور رائل سوسائٹی سے بھی رابطے برقرار رکھے۔
انہوں نے اپنے تعلقات اور بین الاقوامی نیٹ ورک کی مدد سے قائداعظم یونیورسٹی میں اعلیٰ پائے کی فیکلٹیز تعمیر کیں۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی شخصیت کے بل بوتے پر بیرونِ ملک مقیم مشہور پاکستانی سائنسدانوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور اپنے علم سے اسے منور کریں۔
افسوس کہ 1971 میں جہاں ملکی یونیورسٹیز میں تبدیلیاں ہوئیں، وہیں قائداعظم یونیورسٹی میں بھی سیاسی دخل اندازی بڑھی۔ یونیورسٹی میں استاد کےلیے پی ایچ ڈی کے بجائے صرف ماسٹرز کی حد رکھی گئی جس سے اس کے معیار کو شدید دھچکا پہنچا۔ اس سے یونیورسٹی کا معیار بہت تیزی سے گرنے لگا۔
غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے داعی
ڈاکٹر صدیقی یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتے رہے اور ان کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔ وہ غربت، بیماری اور جہالت کا صرف ایک ہی علاج جانتے تھے اور وہ ہے تعلیم۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ملک میں تعلیم کےلیے جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آج اسلام آباد میں شارعِ دستور پر واقع پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے قیام میں انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ 1961 سے 1972 تک اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ انڈین اکیڈمی آف سائنسز کے نائب صدر بھی رہے جبکہ سر سی وی رامن اس کے صدر تھے۔
1947 سے 1949 تک و ہ انڈین میتھیمیٹکل سوسائٹی کے صدر رہے اور یونیسکو کی جانب سے سائنس کے کنسلٹنٹ بھی مقرر ہوئے۔ انیس سو پچھتر میں انہیں انٹرنیشنل کانگریس آف میتھمیٹکل سوسائٹی کا جنرل پریذیڈنٹ منتخب کیا گیا جو ایک قابلِ فخر اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سائنسی سفارت کاری (ڈپلومیسی) کی بنیاد پر رکھی۔
1952 میں ڈاکٹر صدیقی کو انٹرنیشنل میتھمیٹکل یونین کی نیشنل کمیٹی کا صدر بنایا گیا اور مسلسل بیس سال تک یہ اعزاز ان کے پاس رہا۔
1960 میں انہیں ستارہ امتیاز دیا گیا اور 1981 میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ انیس سو باسٹھ میں جرمنی میں انہیں گرانڈ کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔
دو جنوری، 1998 کی صبح ان کا انتقال ہوگیا۔ وکی پیڈیا پر ان کی تاریخِ وفات 8 جنوری بھی لکھی گئی ہے جو درست نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔