آیندہ عام انتخابات
ایسا کوئی بندوبست کرنا لازمی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی فریق دھاندلی کا الزام لگا کر اپنی ہار کو تسلیم نہ کرنے پائے
راقم الحروف پاکستان بننے سے سات آٹھ سال پہلے پیدا ہوا۔ اْس نے اِس ملک کو بنتے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
اِسے بانی پاکستان بابائے قوم کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ اِس کے علاوہ یہ خاکسار اْن روح فرسا مناظر کا بھی عینی شاہد ہے جو اِس کے قیام اور دولخت ہونے کے وقت پیش آئے تھے اور اِس کے بعد اِس ملک کی قسمت سے کھیلنے والوں کی مکروہ اور مذموم حرکات سے بھی یہ ناچیز دل برداشتہ ہے۔
یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہو رہی ہیں لیکن حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ سیاسی بازیگر اِس ملک کی قسمت سے کھیل رہے ہیں اور بہتری کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے اور کوئی اْس کا پرسانِ حال اور چارہ گر دکھائی نہیں دے رہا۔ چہرے بدل رہے ہیں اور نئے نئے شعبدہ باز اور بازیگر اپنا اپنا تماشہ دکھا رہے ہیں۔
ملک کی دولت چند افراد کی مْٹھی میں بند ہے۔ غربت اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ عام آدمی کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ غریب تو کسی نہ کسی سے مانگ تانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے لیکن سب سے زیادہ شامت اْس طبقہ کی ہے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
حکومت وقت اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی ڈفلی بجا رہی ہے اور ہر گروہ اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔ہر کوئی ملک اور عوام سے مخلص ہونے کے دعوے کررہا ہے مگر یہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور عام آدمی کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اشیاء ضرورت کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ رہی ہیں اور مفاد یافتہ طبقات مالدار سے زیادہ مالدار ہورہے ہیں۔
وطن ِ عزیز کی سیاسی رسہ کشی اپنے نکتہ عروج پر جا پہنچی ہے اور مصالحت کی کوئی بھی کوشش بارآور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔وقت اور حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ تمام سیاستدان اور اربابِ اختیار سر جوڑ کر بیٹھیں اور وطن عزیز کو بحران سے نکالنے کے لیے کوئی حل تلاش کریں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے کارکنان دونوں ہی بدنظمی کا شکار ہوسکتے ہیں اور کرپشن کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہر سیاسی رہنما اپنے اپنے موقف پر اڑا ہوا ہے اور اپنے موقف میں ذرا سی بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
وطن عزیز پر اندرونی اور بیرونی خطرات کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں اور کسی کو بھی اِس کی ذرا سی بھی فکر نہیں ہے۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ ہَٹ یعنی ضد کی تین قِسمیں ہوتی ہیں: بال ہَٹ یعنی بچہ کی ضد ، تِریا ہٹ یعنی عورت کی ضد اور راج ہَٹ یعنی اقتدار کی ضد! ہمارے قائدین راج ہٹ کے متوالے ہیں اور اِس کے لیے یہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ انھیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔وطن عزیز کے وجود اور اْس کی سلامتی کو کسی بھی اقتدار کے بھوکے کے رحم و کرم پر ہرگز نہیں چھوڑا جاسکتا۔
مفاہمت نہ ہونے کی صورت میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ملک کے مقتدر ادارے یک زبان یکجا ہوکر اِس انتہائی نازک صورتحال کی گتھی کو سْلجھانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تلاش کریں اور ملک کی سلامتی اور بہتری کو یقینی بنائیں۔
اگر خدانخواستہ مجبور ہوکر ایسا کوئی قدم اٹھانا پڑا تو اْس کی تمام تر ذمے داری سیاسی قائدین کے کندھوں پر ہوگی کیونکہ اگر کوئی ضدی بچہ اگر اپنی ضد پر اڑا رہے اور باز نہ آئے تو والدین کو مولا بخش سے کام لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ باقی نہیں رہتا۔ویسے بھی سیانوں نے خوب کہا ہے کہ ڈنڈہ پِیر ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔
جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے تو ماضی کا ریکارڈ ذرا بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ ہر ہارنے والی جماعت الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
چنانچہ آیندہ انتخابات کے لیے ایسا کوئی بندوبست کرنا لازمی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی فریق دھاندلی کا الزام لگا کر اپنی ہار کو تسلیم نہ کرنے پائے اِس کے لیے فول پروف انتظامات کرنا ہونگے اور جو کوئی بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے اْس کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کو الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو ماننے کا پابند کیاجانا لازمی ہے۔
اگر کوئی فریق اِس کے باوجود الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردے تو اْس پر بھاری جرمانہ عاید کیا جائے اور آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل کردیا جائے۔ الیکشن جب بھی ہوں بالکل صاف و شفاف اور غیر متنازعہ ہونا چاہئیں۔
اِسے بانی پاکستان بابائے قوم کواپنی آنکھوں سے دیکھنے کا بھی شرف حاصل ہے۔ اِس کے علاوہ یہ خاکسار اْن روح فرسا مناظر کا بھی عینی شاہد ہے جو اِس کے قیام اور دولخت ہونے کے وقت پیش آئے تھے اور اِس کے بعد اِس ملک کی قسمت سے کھیلنے والوں کی مکروہ اور مذموم حرکات سے بھی یہ ناچیز دل برداشتہ ہے۔
یکے بعد دیگرے حکومتیں تبدیل ہو رہی ہیں لیکن حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہورہے ہیں۔ سیاسی بازیگر اِس ملک کی قسمت سے کھیل رہے ہیں اور بہتری کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ رضیہ غنڈوں میں پھنسی ہوئی ہے اور کوئی اْس کا پرسانِ حال اور چارہ گر دکھائی نہیں دے رہا۔ چہرے بدل رہے ہیں اور نئے نئے شعبدہ باز اور بازیگر اپنا اپنا تماشہ دکھا رہے ہیں۔
ملک کی دولت چند افراد کی مْٹھی میں بند ہے۔ غربت اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ عام آدمی کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ غریب تو کسی نہ کسی سے مانگ تانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے لیکن سب سے زیادہ شامت اْس طبقہ کی ہے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
حکومت وقت اپنی کرسی اقتدار کو بچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی ڈفلی بجا رہی ہے اور ہر گروہ اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہے۔ہر کوئی ملک اور عوام سے مخلص ہونے کے دعوے کررہا ہے مگر یہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور عام آدمی کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اشیاء ضرورت کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ رہی ہیں اور مفاد یافتہ طبقات مالدار سے زیادہ مالدار ہورہے ہیں۔
وطن ِ عزیز کی سیاسی رسہ کشی اپنے نکتہ عروج پر جا پہنچی ہے اور مصالحت کی کوئی بھی کوشش بارآور ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔وقت اور حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ تمام سیاستدان اور اربابِ اختیار سر جوڑ کر بیٹھیں اور وطن عزیز کو بحران سے نکالنے کے لیے کوئی حل تلاش کریں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے کارکنان دونوں ہی بدنظمی کا شکار ہوسکتے ہیں اور کرپشن کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ہر سیاسی رہنما اپنے اپنے موقف پر اڑا ہوا ہے اور اپنے موقف میں ذرا سی بھی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
وطن عزیز پر اندرونی اور بیرونی خطرات کے گہرے بادل منڈلا رہے ہیں اور کسی کو بھی اِس کی ذرا سی بھی فکر نہیں ہے۔
ہم نے اپنے بڑوں سے سنا تھا کہ ہَٹ یعنی ضد کی تین قِسمیں ہوتی ہیں: بال ہَٹ یعنی بچہ کی ضد ، تِریا ہٹ یعنی عورت کی ضد اور راج ہَٹ یعنی اقتدار کی ضد! ہمارے قائدین راج ہٹ کے متوالے ہیں اور اِس کے لیے یہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ یہ نہ بھولیں کہ انھیں لگام دینے والا کوئی نہیں۔وطن عزیز کے وجود اور اْس کی سلامتی کو کسی بھی اقتدار کے بھوکے کے رحم و کرم پر ہرگز نہیں چھوڑا جاسکتا۔
مفاہمت نہ ہونے کی صورت میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ ملک کے مقتدر ادارے یک زبان یکجا ہوکر اِس انتہائی نازک صورتحال کی گتھی کو سْلجھانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تلاش کریں اور ملک کی سلامتی اور بہتری کو یقینی بنائیں۔
اگر خدانخواستہ مجبور ہوکر ایسا کوئی قدم اٹھانا پڑا تو اْس کی تمام تر ذمے داری سیاسی قائدین کے کندھوں پر ہوگی کیونکہ اگر کوئی ضدی بچہ اگر اپنی ضد پر اڑا رہے اور باز نہ آئے تو والدین کو مولا بخش سے کام لینے کے علاوہ کوئی اور چارہ باقی نہیں رہتا۔ویسے بھی سیانوں نے خوب کہا ہے کہ ڈنڈہ پِیر ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔
جہاں تک عام انتخابات کا تعلق ہے تو ماضی کا ریکارڈ ذرا بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ ہر ہارنے والی جماعت الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
چنانچہ آیندہ انتخابات کے لیے ایسا کوئی بندوبست کرنا لازمی ہونا چاہیے کہ کوئی بھی فریق دھاندلی کا الزام لگا کر اپنی ہار کو تسلیم نہ کرنے پائے اِس کے لیے فول پروف انتظامات کرنا ہونگے اور جو کوئی بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے اْس کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کو الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو ماننے کا پابند کیاجانا لازمی ہے۔
اگر کوئی فریق اِس کے باوجود الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو قبول کرنے سے انکار کردے تو اْس پر بھاری جرمانہ عاید کیا جائے اور آیندہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل کردیا جائے۔ الیکشن جب بھی ہوں بالکل صاف و شفاف اور غیر متنازعہ ہونا چاہئیں۔