ہم سب کا انقلابی‘ کاکا جی
کاکاجی اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں ترقی پسند ادب کے بانیوں میں سے تھے
کاکاجی صنوبر حسین کو ہم سے بچھڑے 60 سال ہوگئے۔ بدقسمتی سے جو تاریخ ہمارے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے' اس میں پاک و ہند کے حوالے سے چند مخصوص لوگوں اور ان میں سے بھی زیادہ تر متحدہ ہندوستان کی شخصیات کا ذکر ہوتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ وغیرہ نے بہادری سے انگریز فوج کا مقابلہ کیا 'لیکن پاکستان میں شامل تمام قومیتوں کی سر زمین بھی تاریخ ساز شخصیتوں کے کارناموں سے خالی نہیں ہے اور یہاں کا چپہ چپہ آزادی کے متوالوں اور سامراج دشمن 'انقلابیوں کی قربانیوں کا گواہ ہے۔
میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان شخصیات کو اجاگر کروں' جو مغلیہ استعمار اور انگریزی سامراج کے لیے بھی ''غدار'' تھے اور ہمارے حکمرانوں کو بھی ان کا ذکر پسند نہیں ہے، تین جنوری کو کاکاجی کی برسی ہے ' خیبر پختونخوا کی سرزمین نے پیر روخان سے لے کرعمرا خان جندول' فقیر ایپی' مولانا عبدالرحیم پوپلزئی 'خوشحال خان کا کاجی اور باچا خان سمیت بہت سے انقلابی اور آزادی پسند رہنماء پیدا کیے۔
ان انقلابی رہنماؤں نے اپنی جدوجہد اور محنت سے خدائی خدمتگار'نوجوان سبھا 'کسان تحریک' کمیونسٹ پارٹی اور اس جیسی دوسری سامراج دشمن اور انقلابی تحریکوں کی راہ ہموار کی 'ان رہنماؤں میں کاکاجی صنوبر حسین مومند (1897تا 3جنوری 1963) کو استاد کا درجہ حاصل ہے 'ان کا اپنا ایک شعر ان کی زندگی کی تفسیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
؎چہ یے سر چرے خزاں وتہ ٹیٹ نہ شو۔زکہ نوم پرے ادے ایخے صنوبر دے۔
(میری ماں نے میرا نام صنوبر رکھا ہے تاکہ میرا سر ہر قسم کے طوفان میں صنوبر کے درخت کی طرح 'جھکنے کے بجائے اونچا رہے)۔
کاکاجی صنوبر حسین مومند برصغیر کی جنگ آزادی کے ایک عظیم ہیرو تھے'اپنے سیاسی نظریے سے مخلص سیاستدان' نڈر صحافی اور بہترین شاعر ' زندگی کا بڑا حصہ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزارا'وہ طبقاتی اونچ نیچ اور رنگ ونسل کے دیوتاؤں کے مخالف تھے۔
وہ پشتو زبان کے ایک بہترین شاعر بھی تھے' ان کو فارسی'اردو اورانگریزی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا'وہ 1897میں پشاور کے قریب ایک چھوٹے گاؤں کگہ ولہ میں پیدا ہوئے' انھوں نے میٹرک کے بعد تعلیم کا شعبہ اختیار کیا لیکن سرکار کی نوکری میں دل نہیں لگا اور عوامی انقلاب کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ان کا زیادہ وقت علاقے میں کسانوں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں صرف ہو تا تھا' انھوں نے سیاست کی ابتداء کانگریس اور خدائی خدمتگار تحریک کے پلیٹ فارم سے کی۔
ان کو عدم تشدد کے فلسفے سے اختلاف تھا اور انقلابی طریقوں سے ہندوستان کو آزاد کرانا چا ہتے تھے 'اس کے لیے پہلے سبھاش چندر بوس کے فارورڈ بلاک میں اور پھر اپنے نظریات کی بناء پر انقلابی نوجوانوں کی تنظیم ''انجمن نوجوانان صوبہ سرحد'' میں شامل ہوئے' بعد میں یہ تنظیم ہندوستان کے نوجوانوں کی انقلابی تنظیم ''نوجوان بھارت سبھا '' کے ساتھ منسلک ہوگئی 'مشہورعالم دین مولانا عبد الرحیم پوپلزئی اس تنظیم کے لیڈر تھے۔
جنھوں نے ایک عظیم انقلابی اور سامراج دشمن لیڈر کی شہرت پائی تھی ۔کاکاجی انگریز سامراج سے سخت نفرت کرتے تھے اور ان کے حواریوں خوانین' اربابوں اور جاگیرداروں کے خلاف جدوجہد کو اپنی سیاست کا مقصد گردانتے تھے۔
1926میں انھوں نے اپنے گاؤں میں ''انجمن زمینداران'' کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس میں مقامی کسانوں اور غریبوں نے انتہائی دلچسپی لی 'آج کے مقابلے میں اس وقت سیاست کرنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس وقت نہ تو سفر کی سہولتیں موجود تھیں اور نہ ہی مواصلات اور رابطوں کا جدید سسٹم موجود تھا' حکومت ان کی گرفتاری کی کوششیں کر رہی تھیں 'کاکاجی کچھ عرصہ انڈر گراؤنڈ رہے۔
جب کام کرنا مشکل ہو گیا' تو ان کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ وہ قبائلی علاقے میں مفرور ہو جائے' کاکاجی نے یہ مشورہ تسلیم کیا ' وہ جنگ آزادی کے ہیرو حاجی صاحب ترنگزئی کے پاس غازی آباد چلے گئے' جو پہلے سے قبائلی علاقوں میں انگریزی سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔
کاکاجی نے ان کا ساتھ دیا اور 18سال تک وہاں رہے' وہ چونکہ بنیادی طور پر ایک ادیب اور دانشور تھے اور صحافیانہ صلاحیتیں ان میں موجود تھیںاوران کو ذرایع ابلاغ کی اہمیت کا اندازہ تھا 'اسی لیے انھوں نے ''شعلہ'' کے نام سے ایک مجلہ جاری کیا 'اس کو وہ ہاتھ سے بنائے گئے پریس میں چھاپتے تھے۔
اس رسالے میں سب تحریریں کاکاجی کی ہوتی تھیں' خبریں 'مضمون اور تبصرے لکھ کر چھاپتے تھے 'اس طریقے سے وہ عوام میں سیاسی شعور پیدا کرنے ' ان کو آزادی کی اہمیت سے آگاہ کر نے کے علاوہ ان کو جدوجہد کے لیے بھی تیار کرتے تھے ۔
کاکاجی پشتو'اردواور فارسی کے بڑے عالم اور ادیب تھے'انگریزی ادب کا مطالعہ بھی کیا تھا 'تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ عمر خیام کی رباعیوں ،ایران کے انقلابی شاعر ''لاہوتی انقلابی'' کی نظموں 'عالمی شہرت یافتہ مصری ادیب ڈاکٹر طہٰ حسین اور شاہ ولی اللہ کی کتابوں کے تراجم کیے۔
مشہور صحابی ابوذر غفاری کے حالات زندگی بھی قلم بند کیے 'اپنے دو شہید ساتھیوں صاحبزادہ اسلم اور حافظ عبدالستارکی تحریک آزادی میں جدوجہد اور کردار پر بھی کتاب لکھی اور چھاپی' کاکاجی قیام پاکستان کے بعد جب پشاور واپس آئے تو انھوں نے اپنے انقلابی ساتھی شہید صاحبزادہ اسلم خان کے نام پر مجلہ ''اسلم'' کا اجراء کیا 'اس رسالے پر بھی کاکاجی کے پہلے رسالے ''سیلاب'' کی طرح حکومت نے پابندی لگا دی ۔
کاکاجی اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں ترقی پسند ادب کے بانیوں میں سے تھے' انھوں نے یہاں پر انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام میں بھی حصہ لیا اور1954 میں اس کے صدر کی حیثیت سے گرفتار بھی ہوئے کیونکہ حکومت نے پورے ملک میں انجمن پر پابندی لگا دی تھی۔
انجمن کے صوبائی سیکریٹری فارغ بخاری کو بھی گرفتار کیا گیا ۔انھوں نے مشہور زمانہ ادبی اور ثقافتی تنظیم '' اولسی ادبی جرگہ''کی بنیاد رکھی جس میں امیر حمزہ شنواری اور دوست محمد کامل ایڈوکیٹ صاحب نے بھی ان کا ساتھ دیا'اس انجمن نے پشتو شاعری اورادب کو ایک نئی جہت د ی 'کاکا جی کے حلقہ ارادت میں نسل'مذہب'ذات'رنگ اور سیاسی نظریے سے بالاتر ہر قسم لوگ شامل تھے۔
وہ سماجی و سیاسی شخصیت کے علاوہ ایک بہترین ادیب اور اصول پسند فرد تھے 'ان کے حلقہ ارادت میں بڑے بڑے ادیب اور سیاستدان شامل تھے' اجمل خٹک'قلندر مہمند'فارغ بخاری اور افضل بنگش وغیرہ اکثراس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ انھوں نے کا کا جی سے بہت کچھ سیکھا 'کاکاجی پر ایک سیمینار میں قاضی انور ایڈوکیٹ نے کہا کہ'' میں نے کاکاجی کے ساتھ وقت نہیںگزارا لیکن مجھے فخر ہے کہ میں ان کے شاگرد افضل بنگش کا شاگرد ہوں''۔
بابائے پشتو غزل امیر حمزہ شنواری نے کاکاجی کے بارے میں لکھا ہے کہ'' ان کی خواہش تھی کہ استحصالی اور سامراجی قوتیں شکست کھا جائیں اور ایک ایسانظام نافذ ہو 'جس میں مزدور اور کسان کو بھی انسان سمجھا جائے۔ وہ کسی ظالم کے آگے جھکے اور نہ کسی ظالم شخصیت یا نظام سے متاثر ہوئے 'وہ زندگی بھر ایک چٹان کی مانند ظلم اور استحصال پر مبنی نظام کے خلاف کھڑے رہے ''۔ پشتو کے انقلابی قوم پرست شاعر میر مہدی شاہ باچہ کے بقول ''وہ ایک عظیم انسان اور انقلابی تھے 'ان کا لہجہ اور باتیں اتنی دلچسپ ہوتی تھیں کہ انسان چاہتا کہ اسے سنتا رہے''۔
قیام پاکستان کے بعد جب کاکاجی واپس آئے تو خرابی صحت کی بناء پر عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن نظریاتی سیاست آخر دم تک جاری رکھی ' بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود 1956میں گرفتار کرکے لاہور کے شاہی قلعے کے اذیت خانے میں پہنچائے گئے جہاں انھیں دل کی اور سانس کی تکلیف پیدا ہوئی۔
حکومت نے انھیں اس وقت رہا کیا جب ان کے بچنے کی امید نہیں تھی 'رہائی کے کچھ عرصے کے بعد یہ عظیم انقلابی استاد ' سیاست دان' ادیب 'شاعراور دانشور 3جنوری 1963کو فوت ہوئے اور اپنے گاؤں کگہ ولہ میں دفن ہوئے' آج پختون قوم میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جو مزاحمت پائی جاتی ہے، اس میں کاکاجی کے دیے ہوئے سیاسی شعور کا بہت بڑا حصہ ہے۔
جب تک ظلم پر استوار طبقاتی معاشرہ اور سامراجی نظام موجود ہے کاکاجی کے افکار ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ان سے سماج کے ٹھیکیدار ہمیشہ ڈرتے رہے 'بقول احمد ندیم قاسمی صاحب
؎ یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہرزمانے میں
پرانے لوگ 'نئے آدمی سے ڈرتے ہیں