عمران خان کی کامیابی اور ناکامیاں

اپنے اقتدار سے محرومی کا ذمے دار پہلے وہ امریکا کو پھر موجودہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے رہے

m_saeedarain@hotmail.com

عمران خان کرکٹ اور اپنے کینسر اسپتال کے قیام میں کامیابی کے بعد سیاست میں آئے اور اپنی 22 سالہ پارٹی کو اقتدار میں لانے کے لیے انھیں اپنی پارٹی کے بانی اور مخلص رہنماؤں کو ناراض کرکے ملک بھر کے الیکٹیبلز سیاستدانوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرکے بالاتروں کی مدد سے حکومت بنانے کا موقعہ ملا مگر وہ اپنی وکھری ٹائپ سیاست، من مانیوں اور ملکی اپوزیشن پارٹیوں سے غیر جمہوری پالیسی اور ان سے انتقام لینے اور سیاسی مقدمات میں گرفتار کرانے کے لیے اقتدار استعمال کرتے رہے اور نتیجے میں اپنا اقتدار پونے چار سال میں ہی ان کے ہاتھوں گنوا بیٹھے جنھیں وہ مسلسل ملک لوٹنے والا قرار دیا کرتے تھے۔

اپنے اقتدار سے محرومی کا ذمے دار پہلے وہ امریکا کو پھر موجودہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے رہے اور اپنی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام نہ بنانے کی وجہ سے انھوں نے اقتدار میں لانے والے اپنے محسنوں کو بھی برے القاب سے پکارا اور ان کے نیوٹرل ہونے پر اعتراض کیا اور ان پر مختلف الزامات لگاتے آ رہے ہیں۔

ملک بھر کے لوگ ہی نہیں بلکہ ان کے حامی بھی جانتے ہیں کہ انھیں 2018 میں کس طرح اقتدار میں لایا گیا تھا اور اپنے اقتدار میں انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرایا اور ایسے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جن کی شہرت اور نیک نامی مشہور تھی جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہ ہونے کے باوجود ان پر اختیارات کے غلط استعمال سمیت ہیروئن برآمدگی کے مقدمات میں انھیں جیلوں میں ناحق طویل عرصہ قید رکھا گیا جس پر ان کے حامی انھیں یہ کریڈٹ دیتے ہیں کہ انھوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے تمام اہم رہنماؤں کو گرفتار کرایا جب کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوا۔

عمران خان کے حامی بھول جاتے ہیں کہ اقتدار میں رہنے والی ان دونوں پارٹیوں کو جنرل پرویز مشرف نے بھی زیر عتاب رکھا تھا جس کے باعث دونوں پارٹیوں کی قیادت کو جلاوطن ہونا پڑا تھا جس پر عمران خان بڑے خوش تھے مگر دنیا نے دیکھا کہ مشرف کے صدر ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ حکومت بنائی جن کے وزیروں سے جنرل مشرف نے حلف بھی لیا تھا اور دونوں پارٹیوں نے مشرف کے انتقام کا نشانہ بننے کے باوجود 2008 سے 2018 تک اپنی مدت اقتدار پوری کرنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

عمران خان نے اپنی پالیسیوں سے یہ ضرور ریکارڈ بنایا کہ وہ آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹائے جانے والے وزیر اعظم کہلائیں گے جو اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور انھوں نے اپنے انتقام کے باعث اپنے تمام مخالفین کو ایک ہونے پر مجبور کردیا اور انھوں نے اپنے مخالفین کے ساتھ جو کیا تھا وہی اب ان کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ان پر بھی دھڑا دھڑ مقدمات بن رہے ہیں مگر ان کے تمام رہنما سوائے دو کے گرفتاری سے محفوظ ہیں جب کہ عمران حکومت میں تمام اہم اپوزیشن رہنما جیلوں میں تھے اور تمام ہی اعلیٰ عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوئے۔


عمران خان اور ان کی حکومت اپنے اقتدار میں جتنی غیر مقبول ہوئی وہ بھی ایک ریکارڈ ہے اور ان کے وزیر بھی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی حکومت رہتی تو وہ کبھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتے تھے۔

پونے چار سالہ اقتدار میں اپنے دعوؤں کی تکمیل میں ہر سطح پر ناکام وزیر اعظم ثابت ہونے والے عمران خان نے پہلے تو اقتدار بچانے کی مکمل کوشش کی جو قاسم سوری کے غیر آئینی اقدام کے باوجود نہ بچ سکی تھی مگر اب تک اتحادی حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں پر مہربان ہے۔

اقتدار جاتا دیکھ کر اور اقتدار سے محرومی کے بعد بیانیے بنانے میں مہارت رکھنے والے عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اقتدار سے قبل انھوں نے شریفوں، زرداریوں کو کرپٹ قرار دینے کا جو بیانیہ بنایا تھا وہ عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بھی کامیاب ہے اور ان کے حامی اور دس بارہ سال کے بچے بھی عمران خان کے پرانے اور نئے امپورٹڈ حکومت، امریکی مبینہ سازش پر اب بھی یقین رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین نے اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے عمران خان کو قبل ازوقت اقتدار سے اپنے مفاد کے لیے ہٹایا ہے۔

13 پارٹیوں کے موجودہ حکمران بغیر کسی عدالتی فیصلے کے اب بھی کرپٹ اور عمران خان ایماندار ہے اور اس کے پاس جو دولت ہے وہ اس کی طلاق یافتہ برطانوی بیوی کی طرف سے ملی ہوئی ہے اور عمران خان کو ان کے سیاسی مخالفین کو سزا سے بچانے کے لیے ہٹایا گیا ہے اور انھیں اقتدار میں عوام نہیں امریکا لایا ہے کیونکہ عمران خان امریکا کا مخالف ہے اور عمران خان کا نیا بیانیہ بھی پہلے کی طرح مکمل کامیاب ہے جسے عمران خان کی بڑی کامیابی کہا جاسکتا ہے۔

عمران خان کے موقف سے ان کے حامی مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ انھیں موجودہ حکمرانوں کو اپنے مقدمات ختم کرانے، نیب کو کمزور کرنے اور امپورٹڈ حکمرانوں سے سزا سے بچانے کے لیے این آر او ٹو دیا گیا ہے جس سے کرپٹ لوگ محفوظ ہوگئے ہیں۔ عمران خان کے بنائے گئے مقدمات کو درست اور موجودہ حکومت میں عمران خان پر بنائے گئے مقدمات کو غلط سمجھتے ہیں۔ پی ٹی آئی پر ممنوعہ فنڈنگ کیس 8 سال پرانا ہے۔

الیکشن کمیشن نے ثبوت ملنے پر اور توشہ خانہ کے واضح ثبوتوں اور عمران خان کے اعتراف کے بعد کہ گھڑیاں انھوں نے خرید کر فروخت کیں انھیں نااہل کیا اور دیگر فوجداری کیس بھی عدالتوں میں سماعت ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ان کا کوئی حامی عمران خان سے یہ پوچھنے کی جرأت ہی نہیں رکھتا کہ کیا وہ غیر ملکی تحائف اپنے پاس رکھنے اور گھڑیاں فروخت کرا کر کروڑوں روپے کمانے اقتدار میں آئے تھے؟

اقتدار میں اور اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان کی ناکامیوں کی تفصیلات بڑی طویل ہے۔ وہ امریکی سائفر سے، اسلام آباد کے گھیراؤ سے پنجاب و کے پی کے کی اسمبلیوں کی تحلیل کے من مانے، پارٹی سے مشاورت کیے بغیر قومی اسمبلی سے استعفوں کے اپنے فیصلے کے دفاع میں مکمل ناکام رہے اور اقتدار میں جن قوتوں کی بے پناہ تعریفوں اور ان کے جانے کے بعد ان پر الزام تراشیوں اور 23 دسمبر کو اپنی اسمبلیاں تحلیل کرانے میں ناکامی کے بعد اپنی دو درجن ناکامیوں کا بھی ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور ان کی ناکامیاں زیادہ اور کامیابی صرف ان کے بیانیے کے مضبوط ہونے کا واضح ثبوت ہے اور وہ نئے انتخابات کے انعقاد میں مکمل ناکام رہ کر اپنی شکست کا اعتراف کرکے حکومت کے آگے اب ہتھیار ڈال چکے ہیں اور نئے بیانیے کی تلاش میں ہیں۔
Load Next Story