2022 کا برس اور نئے سال کے امکانات
2023کا برس نئے چیلنجز کے ساتھ سامنے آئے گا ان چیلنجز میں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی بحران کی بھی مختلف شکلیں نمودار ہونگی
2022کا برس اس ملک میں سیاسی، معاشی، ادارہ جاتی ، سیکیورٹی تناظر میں ہنگاموں، محاذ آرائی، ٹکراؤ، غیر یقینی اور سیکیورٹی چیلنجز کی صورت میں دیکھنے کو ملا ۔ اس برس کا سب سے بڑا سیاسی دھماکا '' رجیم چینج'' کے تناظر میں دیکھنے کو ملا ۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی اور قانونی یا آئینی حکومتی تبدیلی تھی مگر یہ تبدیلی کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوئی تھی۔
اس رجیم چینج کے کھیل نے پورے برس2022 کو مختلف سیاسی گتھیوں میں ہی الجھائے رکھا۔ اس تبدیلی نے کسی مثبت نتائج کے بجائے ہمیں پہلے سے زیادہ مشکلات میں لاکر کھڑا کر دیا ہے ۔جو تجربہ کار، صلاحیت والی اور دہائیوں پر مشتمل حکمران جماعتیں اقتدار میں کئی سیاسی و معاشی دعوؤں کے ساتھ سامنے آئیں وہ بھی اب اپنے ہاتھ کھڑے کرچکی ہیں۔حکمران اتحاد میں شامل کئی لوگ کہتے ہیں کہ حکومتی تبدیلی کے نتیجے میں حکومت کو سنبھالنا ہی ہماری سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی۔
2022میں مسئلہ محض سیاسی بداعتمادی کا ہی نہیں تھا بلکہ اس کا ایک بڑا نقطہ ریاستی بحران بھی ہے ۔ ٹکراؤ کے کھیل نے پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سیاسی سطح پر جو لب ولہجہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں نے اختیار کیا۔
اس نے مزید سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کیا، یہ عمل سیاست کو آگے لے کر جانے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل گیا اور ہم ابھی تک اسی سیاسی دائرہ کار میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور سب کو باہر نکلنے کے لیے محفوظ راستہ کی تلاش ہے۔ مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں اور نہ ہی اس بحران کو محض کسی ایک فریق پر ڈال کر باقی کرداروں کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔
اس بحران کے سب ہی فریق ذمے دار ہیں اور سب نے اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈالاہے ۔اس برس کے بحران کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اول، سیاسی سطح پر آنے والی بے چینی یا محاذ آرائی ، دوئم، معاشی بحران یا بدحالی ، سوئم، سیاست اور اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول ، چہارم، سیکیورٹی کے تناظر میں دہشت گردی جیسے واقعات یا سیکیورٹی کا بحران شامل ہیں ۔
ہم جب 2022 سے نکل رہے ہیں تو یہ ہی چاروں سطح کے بحران لے کر ہم 2023 میں داخل ہورہے ہیں ۔ یہ برس سیاسی طور پر انتخابات کا برس ہے۔ اکتوبر 2023میں انتخابات ہونے ہیں ۔
عمران خان وقت سے پہلے انتخابات کے حامی ہیں ۔ لیکن ابھی تک ان کا فوری انتخابات کا مطالبہ کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ۔ رجیم چینج کے بعد عمران خان نے بہت زیادہ تنقید بھی کی اور بعض الفاظ کا جارحانہ استعمال بھی غیر مناسب تھا جو بلاوجہ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بنا ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو کہنا پڑا کہ ہم اب سیاسی معاملات میں کسی بھی سطح کی مداخلت کے حامی نہیں رہے اور بلاوجہ سیاسی معاملات میں ہمیں نہ الجھایا جائے ۔ جس طرح سوشل میڈیا پر اداروں پر تنقید ہورہی تھی یا ہورہی ہے وہ کسی بھی طور پر قومی سلامتی ، قومی سیکیورٹی اور اداروں کی بالادستی کے حق میں نہیں ہے۔ اسے ہر سطح پر ختم ہونا چاہیے ۔
2023بھی 2022 کی طرح ہنگامہ خیز برس ثابت ہوگا۔ اس کی ایک بڑی وجہ عام انتخابات ہیں ۔ ان انتخابات میں یہ طے ہونا ہے کہ اگلا اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔ اس وقت ملک میں جو سنگین بنیادوں پر سیاسی تقسیم ہے اس میں سیاسی کشیدگی یا دشمنی کا عنصر بھی نمایاں ہے ۔
ایسے ماحول میں انتخابات کا ماحول مزید محاذ آرائی کو پیدا کرے گا۔ایک طرف عمران خان کی حمایت ہے تو دوسری لنگوٹ کس کر حکمران اتحاد عمران خان کی مخالفت میں بھی پیش ہے ۔ عمران خان اسٹیبلیشمنٹ سے اپنی تو دوسری طرف حکمران اتحاد اپنے لیے حمایت چاہتا ہے ۔یعنی دونوں فریقوں کی نظریں اسٹیبلیشمنٹ پر ہی لگی ہوئی ہیں ۔
اس وقت سب سے مشکل بات حکمران اتحاد اور عمران خان کے درمیان مفاہمت کا عمل ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر سیاسی بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں اور کوئی کسی کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اصل جنگ کا معرکہ پنجاب میںپانی پت کی جنگ کا ہے جہاں بڑا مقابلہ عمران خان اور ان کے مخالفوں کے درمیان ہے ۔
حکمران اتحاد کا مسئلہ معاشی بدحالی ہے اور اس بدحالی کو بنیاد بنا کر انتخابات لڑنا ان کے لیے سیاسی خود کشی ثابت ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد کا بڑا چیلنج کسی نہ کسی شکل میں معاشی ریلیف کا ہوگا۔جو معاشی امکانات ہیں وہ بھی کافی مخدوش یا کمزور ہیں اور ایسے میں معاشی بحران کیسے کم ہوگا یہ ہی سب کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ اسی طرح سیکیورٹی کے جو سنگین مسائل ابھر رہے ہیں اور جس طرح سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے وہ بھی اگلے برس کے لیے بڑا چیلنج ہوگا ۔
ہم 2023 میں سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی بحران کے ساتھ نئے برس میں داخل ہورہے ہیں ۔ اس لیے ہمیں ہر سطح پر ایک بڑی مضبوط سیاسی حکومت درکار ہے۔
انتخابات سے فرار کا راستہ بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوگا۔ ہمیں جہاں انتخابات کروانے ہیں وہیں ان کی شفافیت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ کوئی بھی انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار نہ کرے ۔
2023کا برس نئے چیلنجز کے ساتھ سامنے آئے گا۔ ان چیلنجز میں نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی بحران کی بھی مختلف شکلیں نمودار ہونگی ۔اگر ہم اس برس سیاسی مہم جوئی سے گریز کریں اور ساری توجہ سیاسی اور معاشی استحکام پر دیں تو کسی حد تک مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے ، وگرنہ 2023کا برس 2022 سے زیادہ مشکل ہوگا اور اس کا بھاری بوجھ عوام پر مزید معاشی مسائل یا مہنگائی اور بے روزگاری سمیت سیاسی کشیدگی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا۔