قومی سلامتی معیشت اور عام آدمی

اعلامیہ کے مطابق اجلاس نے قرار دیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے

اعلامیہ کے مطابق اجلاس نے قرار دیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے (فوٹو: فائل)

قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ، دہشت گردی سے پوری ریاستی قوت کے ساتھ نمٹا جائے گا، سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرنو کے لیے تمام وسائل کو متحرک کیا جائے گا۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزراء، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔

اعلامیہ کے مطابق اجلاس نے قرار دیا کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی سلامتی کے گرد گھومتا ہے اور یہ کہ معاشی خود انحصاری اور خود مختاری کے بغیر قومی خود مختاری اور وقار پر دباؤ آتا ہے۔ اجلاس نے جاری معاشی صورتحال کا جامع جائزہ لیا، جس کے نتیجہ میں پاکستان کے عام آدمی خاص طور پر لوئر اور مڈل کلاس طبقات کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

موجودہ حالات میں قومی سلامتی کمیٹی کے اس اجلاس کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کو دیکھتے ہوئے اور ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر قومی سلامتی کے معاملے پر تمام بڑوں کا مل بیٹھنا اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے بات چیت اور فیصلے کرنا خوش آیند ہے کیونکہ پاکستان میں ایک بار پھر سے دہشت گردی سر اُٹھا رہی ہے۔

جہاں پاکستان کو پہلے سے ہی مہنگائی ، بے روزگاری ، معیشت کی بدحالی جیسے درپیش مسائل کا سامنا ہے وہاں اب ایک بار پھر سے سیکیورٹی خدشات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

حالیہ عرصے میں پیش آنے والے واقعات جو دہشت گردی بڑھنے کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی اصل وجہ جو دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد توقع تو یہ تھی کہ وہاں سے پاکستان پر دہشت گردوں کے حملے رک جائیں گے اور دونوں ممالک کے عوام کو امن و سکون سے زندگی گزارنے کا موقع ملے گا مگر عملا ہوا یہ کہ نہ صرف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگوں نے پاکستان آنا شروع کر دیا ۔

پھر بلوچستان ، خیبر پختونخوا حتیٰ کہ پنجاب اور سندھ میں دہشت گردی کی وارداتیں شروع ہو گئیں ، یہی نہیں بلکہ افغان طالبان نے بھی حفاظتی باڑ توڑتے ہوئے پاکستانی علاقے میں فائرنگ اور گولہ باری کر کے کئی شہریوں کو شہید اور زخمی کردیا۔

یہ سب ہو جانے کے بعد پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج نے تحمل اور برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل حکومت کو اُس کی ذمے داریاں یاد دلائیں اور اشتعال انگیزی سے باز آنے پر زور دیا ، مگر اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ افغان قیادت ٹی ٹی پی کے حوالے سے کوئی دوٹوک فیصلہ نہیں کرپا رہی ہے۔

افغانستان میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کی موجودگی پاکستان کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔ افغانستان کی عبوری حکومت حقائق سے پوری طرح آگاہ ہے، دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان رابطہ کاری بھی موجود ہے، اس کے باوجود یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔

پاکستان اندرونی سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کا شکار ہے، ہماری صنعت وتجارت، اسٹاک ایکسچینج، درآمدات و برآمدات اور کرنسی کی قدر بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ان حالات میں شمال مغربی سرحد پر جنم لینے والے واقعات پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن رہے ہیں۔

پاکستان اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کے واقعات پر صبر اور تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔لیکن اگر شمال مغربی سرحد پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس لیے افغانستان کی حکومت کو ٹی ٹی پی اوراس جیسی دیگر تنظیموں سے لاتعلق اختیار کرنے کا واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس خطے میں وارلارڈ ازم اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکے۔

موجودہ اتحادی حکومت معاشی خود کفالت حاصل کرنا چاہتی ہے کیونکہ ہماری قومی سلامتی کا معاشی انحصار سے بہت گہرا تعلق ہے، یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ، قوم اس معاملے میں وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے ساتھ بھی کھڑی ہے لیکن عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ معاشی استحکام اور بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں،کیا مراعات یافتہ طبقات یہ بوجھ عوام کو منتقل تو نہیں کریں گے؟ معاشی استحکام کے لیے حکومت جو کوششیں کر رہی ہے۔


ان کو عام آدمی کی تائید و حمایت اُسی وقت حاصل ہوگی جب عوام کی مالی مشکلات میں کمی آئے اور عوام کو صاف نظر آنے لگے کہ معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت مراعات یافتہ طبقے سے بھی قربانیاں لے رہی ہے۔

موجودہ حکومت کے پاس وقت بہت کم ہے اور اس نے اس قلیل مدت میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہیں۔

پاکستان اس وقت مشکل ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے۔ مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے شکار پاکستانی عوام مضطرب ہیں اور بہتری کے شدت سے خواہاں ہیں۔

عام آدمی کی زندگی مہنگائی ، بیروزگاری اور اقتصادی حالات نے مشکل تر بنا دی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی مسلسل بڑھتی ہوئی قدر ، مہنگائی ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے ، بجلی کے نرخوں اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کے عام شہریوں کے لیے معیشت ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور معیشت بحران کا شکار ہے، عام شہریوں کی گزر بسر مشکل ہو چکی ہے۔

ایک طرف یہ حالات اور دوسری طرف سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فوری توجہ اقتصادی بحالی پر دی جائے یا سیاسی استحکام پر ؟ حقیقت یہ ہے کہ جدید دور کی کسی بھی ریاست میں سیاست اور معیشت آپس میں جڑی ہوتی ہیں اوراسے پولیٹیکل اکانومی یعنی سیاسی معیشت کہا جاتا ہے۔ ان میں سے اگر ایک مضبوط اور دوسری کمزور ہو ، یہ بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے۔

یہ چین 46 ارب ڈالر کے منصوبے لے کر پاکستان آتا ہے تو ہم اسے اپنی تاریخ کا اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں۔ چین آگے نکل گیا جب کہ ہم معاشی لحاظ سے ہر روز ایک دم پیچھے جاتے گئے۔ ہر صاحب اختیار نے جی بھر کے اس ملک کو لوٹا۔ دولت باہر منتقل کی اور قوم کو لالی پوپ دے کر کنگال کرتے گئے۔ ہم نے کبھی چین کی ترقی اور اپنی تنزلی کا جامع تجزیہ نہیں کیا۔ ہم نے کبھی ان وجوہات کا جائزہ نہیں لیا جن کے باعث چین ، چین ہو گیا۔

جن کے باعث چین نے شرق سے غرب تک ہر جگہ ''میڈ اِن چائنا'' کی مہر پہنچا دی۔ چین نے اپنے سوا ارب لوگوں کو روزگار ، صحت ، تعلیم اور شاندار زندگی فراہم کی۔ ہم نے کبھی چین کی ترقی کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ نہیں کیا۔ آج مرسیڈیز کاروں کاسب سے بڑا کارخانہ چین میں ہے۔

یورپ، امریکا اور پاکستان میں ایسی سبزیاں اور فروٹ ملتا ہے جس پر چائنا کا اسٹیکر لگا ہوتا ہے اور آج دنیا کی 36 ہزار ملٹی نیشنل کمپنیاں چین میں فیکٹریاں لگانے پر مجبور ہیں لیکن ہم نے کبھی چین کی اس ترقی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے زوال کے شواہد اکٹھے کیے، چین کی ترقی کے چار اصول تھے۔

1۔ مخلص لیڈر شپ 2۔ ان تھک محنت 3۔ اپنی ذات پر انحصار 4۔ اور خود داری۔ چین نے کبھی دوسری اقوام کے سامنے کشکول نہیں رکھا، اس نے ہمیشہ اپنے وسائل پر انحصار کیا، یہ لوگ پندرہ ، پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں اور جب اس کام سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں اور ان کی لیڈر شپ نے اپنا تن ، من اور دھن قوم پر وار دیا۔

ان کے لیڈر کا جنازہ تین مرلے کے مکان سے نکلا اور اس نے پوری زندگی کسی دوسرے ملک میں قدم نہیں رکھا۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا چین کی یہ چاروں خوبیاں ہماری سب سے بڑی کمزوریاں ہیں۔ ہم نے کشکول کو اپنی معیشت بنا رکھا ہے ، ہم دوسروں کے وسائل پر انحصارکرتے ہیں ، ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں اور ہماری ساری لیڈر شپ کی جڑیں ملک سے باہر ہیں۔ ان کی اولادیں اور گھر تک دوسرے ملکوں میں ہیں۔

ہم نے آج تک کسی قوم ،کسی ملک سے یہ ہنر سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ، آپ یقین کیجیے ہم 75 سال سے بھکاریوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب تک فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی سیاسی معیشت کا استحکام یقینی بنانے کے لیے کمربستہ نہیں ہوں گے، سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال دونوں جاری رہیں گے۔

آج ہمارے پڑوسی ممالک معاشی ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ پوری قوم کو خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔ کاش ہم آج ہی جاگ جائیں اور اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیں۔
Load Next Story