سادہ لوح دیہاتی
مغربی معاشرے کی ان روایات کی نقالی کرنے میں ہمارے ہاں بھی اشرافی طبقے کے احباب کچھ پیچھے نہیں ہیں
موسم کی شدت اپنا رنگ دکھا رہی ہے، سردی بھی ہے اور دھند بھی اور سموگ کا تڑکہ بھی لگ گیا ہے۔
لاہور کے سرد اوردھند آلود موسم سے بچنے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا،موسم تو وہاں پر بھی سرد تھا مگر دھند سے چند دن کے لیے جان بچی رہی۔ دنیا کے بہت سے شہر دیکھنے کا اتفاق ہوا مگر اسلام آباد کا موازنہ بہت کم شہروں سے کیا جا سکتا ہے۔
اسلام آباد دنیا کے چند خوبصورت ترین شہروں میں شامل ہے ۔ اگر آپ کا تعلق دیہی زندگی سے ہے تو اسلام آباد آپ کو بہت پسند آتا ہے۔ میرے جیسے پہاڑی علاقے کے باشندوں کو اس شہر میں بہت اپنائیت محسوس ہوتی ہے، سب کچھ اپنا اپنا سا لگتا ہے اور اپنا گاؤں یاد آجاتا ہے جو اسی خطہ پوٹھوہار اور کوہستان نمک کے ایک گوشے میں پہاڑوں کے درمیان ایک پیالہ نماوادی ہے۔
آج کل وادی سون سکیسر جانے کا سوچتے ہی شدید سردی اور تیز ہواؤں کے جھکڑ کا تصور جسم میں سنسناہٹ پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ بچپن اور لڑکپن کا بیشتر حصہ اسی وادی میں انھیں سرد ہواؤں کے تھپیڑے کھاتے گزرا ہے لیکن اب شہر کی آرام دہ زندگی میںکچھ عرصہ گزارنے کے بعد جسم میںاس سخت سرد موسم کو برداشت کرنے کی قوت شایدکم ہو گئی ہے۔
بہر حال دیہاتی اپنے اس ماحول سے کبھی جدا نہیں ہو سکتے۔ ہمارے علاقے کے وہ لوگ جو روز گار کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر میں مقیم ہوتے ہیں،اپنے دیہات کی محبت میں اکثر یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ وطن کشمیر ہے یعنی کشمیر کی اہمیت کی نسبت سے اور کشمیروں کی آزادی کی طویل جدو جہد کے پس منظر میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ جتنی محبت کشمیریوں کو اپنے وطن سے ہے اتنی ہی ہمیں بھی اپنے آبائی علاقے سے ہے۔
اسلام آباد میں چند روز گزارنے کے بعد بچوں کا مطالبہ تھا کہ حسب روائیت اس مرتبہ بھی نئے عیسوی سال کا استقبال اپنے گاؤں جا کر کرتے ہیں ۔ دنیا بھرمیں نئے سال کی مناسبت سے رنگا رنگ پروگرام منعقد ہوتے ہیں، یورپ ، امریکا اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہری یخ بستہ موسم میں نئے سال کی آمد پر اپنے اپنے انداز میں انجوائے کرتے ہیں، آتش بازی سے آسمان کو رنگ و نور سے سجا دیا جاتا ہے، رقص و سرو کی محفلیں بھی مغربی معاشرے کا خاصا ہیں۔
مغربی معاشرے کی ان روایات کی نقالی کرنے میں ہمارے ہاں بھی اشرافی طبقے کے احباب کچھ پیچھے نہیں ہیں۔دیہات میں نہ تو آتش بازی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی خاص محفل ہوتی ہے البتہ سردیوں کی اس ٹھنڈی ٹھار رات کو آتش بازی کے رنگ و نور کی جگہ آگ جلا کر جسم کو حرارت پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، اس کے لیے ہر گھر میں ایک آگ والا کمرہ ضرور ہوتا ہے جس کی بناوٹ میں مٹی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے تا کہ وہ گرم رہے ۔
یہی کمرہ سردیوں میں بیک وقت کچن اور بیڈروم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہیں پر بیٹھ کر آگ کی تپش سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے، کھانا بھی یہیں پکتا ہے اور چولہے میں جلتی آگ کے ارد گرد بیٹھ کرکھایا جاتا ہے اور پھر چارپائیوں پر یہیں سویا جاتا ہے۔ بچوں اور بڑوں کے لیے سرد موسم کی بڑی سوغات چولہے پر کڑاہی میں ریت ڈال کرمکئی کے دانے بھون کراور پھر گڑ کوگھی کے ساتھ ملا کر اس کا شیرہ بنا کر مکئی کے دانوں کو میٹھے 'پاپ کارن' میں تبدیل کر کے ان کی پیڑیاں بنا کر کھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پسند کے مطابق بچے چولہے میں کوئلوں کی راکھ میں آلو دبا دیتے ہیں، کچھ وقت کے بعد وہ آلو 'بیکڈ پوٹیٹو' میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
گڑ اور آٹے کا حلوہ بھی میٹھے کے طور پر وادی سون میں انتہائی مقبول ہے۔چاول اور مچھلی پکانے میں ہماری خواتین مہارت نہیں رکھتیں ، چاول صرف مہمانوں کی آمد پر ہی پکائے جاتے ہیں یا پھر گھر میں کوئی بیمار ہو تو کھچڑی کے طور پر پکتے ہیں جب کہ مچھلی ہمارے ہاں دستیاب نہیں ہوتی لیکن اعلیٰ نسل کے پہاڑی بکروں کا گوشت وادی کے لوگوں کی مرغوب غذا ہے اور مہمان نوازی کے دستر خوان کالازمی جزو ہے۔
اس آگ والے کمرے کی اہمیت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو سردعلاقوں کی یخ بستہ راتوں میں یہاں مقیم ہوتے ہیں۔ سردیوں میں آگ ایک نعمت سے کم نہیں ہوتی۔سرد موسم کی آمد سے پہلے ہی خشک لکڑی کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہے، پھلاہی کی لکڑی کو فوقیت دی جاتی ہے کیونکہ اس کی تپش بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک مثل مشہور ہے کہ ایسی ہی ایک سرد رات کو سادہ لوح دیہاتی خاتون جب آگ کی تپش سے لطف اندوز ہو رہی تھی تو اس کے منہ سے بے اختیاریہ جملہ نکل گیا کہ'' اﷲ اگلے جہان میں بھی ایسی ہی آگ نصیب کرے '' ۔