ٹوبیکو سیکٹر نے ٹیکس وصولی کے ڈیجیٹل نظام کی حمایت کردی
سسٹم سے غیرقانونی تجارت اورمعیشت کوپہنچنے والے نقصانات پر قابو پانا ممکن
ٹوبیکو سیکٹر نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کو اسے سگریٹ انڈسٹری سے ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے معاون قدم قرار دیا ہے۔
ٹوبیکو سیکٹر نے وفاقی حکومت کی جانب سے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سگریٹ مینوفیکچرنگ یونٹس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مبنی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کو سراہتے ہوئے اسے سگریٹ انڈسٹری سے ٹیکس وصولیاں بڑھانے اور مقررہ ہدف حاصل کرنے کے لیے معاون قدم قرار دیا ہے۔
معاشی تجزیہ کار اسامہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ حکومت اور ایف بی آر کی اہم کامیابی ہے،جب تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پوری سگریٹ انڈسٹری میں یکساں طور پر لاگو نہ کردیا جائے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا جو سالانہ 80ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
اسامہ صدیقی نے کہا کہ غیرقانونی تجارت میں ملوث سگریٹ بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں آزاد جموں و کشمیر اور کے پی کے میں واقع ہیں جو پاکستان بھر میں ٹیکس چوری کرکے سگریٹ فروخت کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ضرورت پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی زور دیتے رہے ہیں۔ورلڈ بینک نے پاکستان ریزز ریونیو پراجیکٹ کے لیے قرضہ بھی فراہم کیا تاکہ قومی محصولات میں پائیدار بنیادوں پر اضافہ کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں میں سے صرف دو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ایک قومی کمپنی نے ہی اب تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نصب کیا ہے۔
ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ تمام سگریٹ مینوفیکچررز کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ڈیجیٹل نگرانی کے دائرے میں لایا جائے۔
ٹوبیکو سیکٹر نے وفاقی حکومت کی جانب سے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے سگریٹ مینوفیکچرنگ یونٹس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر مبنی ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ کو سراہتے ہوئے اسے سگریٹ انڈسٹری سے ٹیکس وصولیاں بڑھانے اور مقررہ ہدف حاصل کرنے کے لیے معاون قدم قرار دیا ہے۔
معاشی تجزیہ کار اسامہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا نفاذ حکومت اور ایف بی آر کی اہم کامیابی ہے،جب تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم پوری سگریٹ انڈسٹری میں یکساں طور پر لاگو نہ کردیا جائے سگریٹ کی غیرقانونی تجارت سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا جو سالانہ 80ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔
اسامہ صدیقی نے کہا کہ غیرقانونی تجارت میں ملوث سگریٹ بنانے والی زیادہ تر کمپنیاں آزاد جموں و کشمیر اور کے پی کے میں واقع ہیں جو پاکستان بھر میں ٹیکس چوری کرکے سگریٹ فروخت کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ضرورت پر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک بھی زور دیتے رہے ہیں۔ورلڈ بینک نے پاکستان ریزز ریونیو پراجیکٹ کے لیے قرضہ بھی فراہم کیا تاکہ قومی محصولات میں پائیدار بنیادوں پر اضافہ کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں میں سے صرف دو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ایک قومی کمپنی نے ہی اب تک ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نصب کیا ہے۔
ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ تمام سگریٹ مینوفیکچررز کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی ڈیجیٹل نگرانی کے دائرے میں لایا جائے۔