چالیس سال کا شہزادہ

چونسٹھ برس بعد1971ء میں اودھم سنگھ کے تابوت کو انڈیا لایا گیا۔ اس کو سرکاری اعزاز کے ساتھ شہید کا درجہ دیا گیا

raomanzar@hotmail.com

تعصب نے ہمیں ذہنی طور پر منجمد کر رکھا ہے۔ دیوان پر دیوان رقم کریں پھر بھی کم ہیں۔ ضیاالحق نے ہماری تاریخ، سوچ اور فہم کے دھارے کو اس بری طرح متاثر کیا ہے کہ ہر جانب ذہنی تاریکی ہی تاریکی ہے۔77ء سے پہلے کا پاکستان بہت مختلف تھا۔ غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں، جتنا بڑا لیڈر، اتنی ہی مہیب کوتاہیاں۔ مگر مذہب کو استعمال کر کے ایک نیا نظام تیار کرنے کا کارنامہ بہت کم حکمرانوں کے نصیب میں آیا ہے۔ صاحبان! اب تو دور دور تک صدیوں کی خاموشی ہے۔ معاشرہ ہے کہ ہر گام پر تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آزاد فکر اور نئے خیال کو سَم قاتل گردانا جاتا ہے۔ جو ذرا سی اعتدال کی بات کرتا ہے اسے شہر خموشاں کا مستقل باسی بنانے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔ ہر طرف مکمل تقلید نظر آتی ہے۔

اب تو گمان ہوتا ہے کہ فکری اعتبار سے ہم لوگوں کو دولے شاہ کے چوہے بنانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ شاید! یہ کوشش کامیاب بھی ہو رہی ہے۔ سنجیدہ آدمی ملک چھوڑ رہا ہے یا اس کوشش میں ہے کہ اس کے بچے دنیا کے کسی مہذب ملک میں شریفانہ زندگی گزاریں۔ 14 اگست1947ء سے پہلے ہمارا خطہ کیسا تھا؟ لوگوں نے بلا امتیاز مذہب اور آزادی کے لیے کتنی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ان کا ذکر اب شجر ممنوعہ ہے! ہمارے ملک کے غیر مسلم پاکستانی شہری آج سے چھ دہایاں قبل آبادی کا دس فیصد تھے۔ اب سکڑ کر تین فیصد رہ چکے ہیں۔ اہم شعبوں میں ان کی نمایندگی بہت کم ہے۔ وہ جہاں بھی ہیں ان کو بے اثر کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ تین دہائیوں سے مجھے پنجاب کی سرکار میں کوئی غیر مسلم ڈی۔سی، کمشنر یا سیکریٹری نظر نہیں آیا۔

اودھم سنگھ 1899ء میں سنگرور ضلع میں پیدا ہوا۔ یہ ضلع آجکل مشرقی پنجاب کا حصہ ہے۔ اودھم سنگھ عام خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا والد سردار تیہال سنگھ ایک ریلوے پھاٹک پر معمولی چوکیدار تھا۔ اودھم سنگھ کی ماں اُس کی پیدائش کے صرف دو سال کے عرصے میں فوت ہو گئی۔ اس کا والد بھی اسے بچپن میں چھوڑ کر چل بسا۔ اودھم سنگھ اور اس کا بڑا بھائی مکتا سنگھ بالکل بے سہارا ہو چکے تھے۔ ان کے ایک قریبی عزیز نے دونوں بچوں کو امرتسر کے ایک یتیم خانہ میں داخل کروا دیا۔ یہ یتیم خانہ ہی اودھم سنگھ کا اصل گھر تھا۔ وہ اس یتیم خانہ میں بارہ سال رہا۔ اودھم سنگھ کا اصل نام شیر سنگھ تھا۔ اودھم سنگھ کا نام اسے یتیم خانے میں دیا گیا۔ اُس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اودھم سنگھ کی آواز پوری دنیا میں گونجے گی اور وہ برطانوی حکومت کے لیے کتنا بڑا خوف بن جائے گا۔ اودھم سنگھ نے انتہائی مشکل حالات میں میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے ذہن میں صرف ایک تصور تھا کہ وہ ایک غلام قوم کا حصہ ہے۔ وہ ہر قیمت پر آزاد ہونا چاہتا تھا۔ انگریزوں کا مقامی لوگوں سے ناروا سلوک دیکھ کر وہ ہر وقت ذہنی اذیت کا شکار رہتا تھا۔

امرتسر میں جلیانوالہ باغ وہ سانحہ تھا جس میں سیکڑوں مسلمان، سکھ اور ہندو بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیے گئے۔ ونسٹن چرچل نے اس سانحہ کو(Outrageous) ظالمانہ گردانا۔ اودھم سنگھ اُس سانحہ کے وقت جلیانوالہ باغ میں موجود تھا۔ وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زخمیوں کی مدد کرتا رہا۔ وہ کسی کو پانی پلاتا تھا اور کسی کو دیوار پھاندنے میں مدد کرتا تھا۔ اس وقت اس کی عمر صرف بیس سال تھی۔ جلیانوالہ باغ کے واقعہ نے ہندوستان کے اندر غم، غصہ اور بے بسی کی ایک فضا قائم کر دی۔ 1919ء کے اس حادثہ میں نہتے لوگوں کو جو صرف سیاسی جلسے میں شریک ہونا چاہ رہے تھے، اتنی کڑی سزا دی گئی جس سے آزادی کی تاریخ کے اوراق مکمل لہولہان ہو گئے۔ اس قتل و غارت کا واحد مقصد مقامی لوگوں کو اس قدر خوف زدہ کرنا تھا کہ وہ اپنے حقوق، سیاسی اور فکری آزادی کے متعلق سوچ بھی نہ سکیں۔ یہ تمام ظلم پنجاب کے گورنر مائیکل او ڈائر کے حکم اور مرضی سے ہوا تھا۔ اس واقعہ نے اودھم سنگھ کو مکمل تبدیل کر دیا۔ وہ امرتسر میں سکھوں کے سب سے متبرک گوردوارا "گولڈن ٹیمپل" میں گیا۔ وہاں وہ اپنے عقیدہ کے لحاظ سے مقدس پانی سے نہایا اور اس نے خاموشی سے عہد کیا کہ وہ جلیانوالہ باغ کے ظلم کا بدلہ ہر قیمت پر لے گا۔ اپنی قوم کی ذلت کا بھر پور انتقام لے گا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ اوڈائر کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔


وہ اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیے انگلستان پہنچنا چاہتا تھا مگر یہ اتنا آسان نہیں تھا۔ وہ کسی طریقہ سے نیروبی پہنچ گیا اور پھر امریکا چلا گیا۔ امریکا میں تین سال تک وہ انڈین لوگوں کو آزادی حاصل کرنے کی ترغیب دیتا رہا۔ امریکا میں تین سال گزارنے کے بعد وہ دوبارہ ہندوستان آ گیا۔ 1927ء میں اسے پولیس نے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔ اس پر یہ بھی الزام تھا کہ وہ آزادی کے نام پر لوگوں کو بغاوت کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اسے پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔ وہ چار سال جیل میں گزارنے کے بعد رِہا ہو گیا۔ لیکن اب وہ جہاں بھی جاتا، پولیس اُس پر کڑی نظر رکھتی۔ وہ امرتسر اور دیگر شہروں میں آتا جاتا رہا مگر پولیس اس کو ہر جگہ تنگ کرتی تھی۔ اس نے اپنے نام بھی بدلنے شروع کر دیے جیسے شیر سنگھ، اودھے سنگھ، ادڈی سنگھ، فرینک برازیل اور رام سنگھ۔

اودھم سنگھ تین سال تک لندن جانے کی منصوبہ بندی کرتا رہا مگر ہر وقت پولیس کے تعاقب کی وجہ سے وہ لندن پہنچ نہیں سکتا تھا۔ وہ انتہائی خفیہ طریقے سے کشمیر چلا گیا۔ وہاں وہ جرمنی کے لیے روانہ ہو گیا۔ کشمیر سے جرمنی کا سفر کیسے کیا، یہ بھی ایک راز تھا۔ 1934ء میں وہ لندن پہنچ گیا۔ وہاں اس نے ایسٹ لندن میں رہائش اختیار کر لی۔ لندن پہنچنے کے لیے اسے پانچ، چھ ممالک میں چھپ کر سفر کرنا پڑا۔ لندن میں بھی وہ اپنی ذہنی بے چینی کی بدولت ہر وقت آزادی کے متعلق سوچتا رہتا تھا۔ وہاں اس نے ان انڈین نوجوانوں سے رابطہ رکھا جو واقعی انگریز کی غلامی سے تنگ تھے اور جو آزادی کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ لندن کی ایک مقامی دکان سے اُس نے ریوالور اور گولیاں خریدیں۔ یہ تمام چیزیں آج بھی اسکاٹ لینڈ یارڈ کے میوزیم میں موجود ہیں۔ اس کو کئی مواقع ملے جب وہ مائیکل اوڈائر کو مار سکتا تھا مگر اودھم سنگھ اُس کو اس مقام پر قتل کرنا چاہتا تھا جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ موجود ہوں اور برطانوی حکومت کو بھر پور پیغام ملے۔ یہ موقع اس کو بہت جلد مل گیا۔

13 مارچ 1940ء میں کیکسٹن ہال (Caxton Hall) میں ایک بہت اہم میٹنگ تھی۔ اس میں سیکریٹری آف اسٹیٹ زیٹ لینڈ (Zetland) اور اوڈائر دونوں نے شامل ہونا تھا۔ اودھم سنگھ اپنا ریوالور ایک کتاب میں چھپا کر میٹنگ میں پہنچ گیا۔ اس نے بڑے سکون سے میٹنگ ختم ہونے کا انتظار کیا۔ اودھم سنگھ نے اسٹیج کے بالکل قریب جا کر ریوالور سے اوڈائر پر دو فا ئر کیے۔ اوڈائر اسٹیج پر ہی گر کر اسی جگہ پر دم توڑ گیا۔ پھر اودھم سنگھ نے سیکریٹری آف اسٹیٹ زیٹ لینڈ پر فائر کیا۔ وہ زخمی ہو گیا۔ اس کے علاوہ اودھم سنگھ نے لارڈ لیم نگٹن اور لوئس ڈین کو بھی زخمی کر دیا۔ اس کو موقع ہی سے گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے دن یہ واقعہ دنیا کے تمام اخبارات کے فرنٹ پیج کی شہ سرخی تھا۔ اودھم سنگھ کو اس بات کا از حد افسوس تھا کہ اُس کی گولیوں سے اوڈائر کے علاوہ کوئی اور انگریز کیوں قتل نہیں ہوا۔

1940ء جون میں اودھم سنگھ پر جسٹس ایٹکنسن (Atkinson) کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے ملک کو کسی بھی مذہب کی تقسیم کے بغیر آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ اس نے بہت خوشی سے اپنا جرم قبول کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ مائیکل اوڈائر نے مقامی لوگوں پر بہت ظلم کیا تھا۔ اور وہ ان مظلوم لوگوں کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اودھم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس کی اپیل بھی خارج کر دی گئی۔ یہ تمام عدالتی کاروائی انتہائی عجلت میں کی گئی۔ اس کے عدالتی بیان میں چند نکات بار بار دہرائے گئے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہے۔ اُس نے کہا کہ اس کو اپنے جرم پر کوئی ندامت نہیں بلکہ اس کو اس پر فخر ہے۔ بلکہ یہ تو اس کا فرض تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بڑھاپے میں مرنے سے بہت بہتر ہے کہ وہ جوانی میں اپنے وطن کی آزادی کے لیے قربان ہو جائے۔ انگریز جج نے برطانوی پریس پر پابندی لگا دی کہ وہ اودھم سنگھ کا بیان اخبارات میں نہیں چھاپے گے۔

پھانسی کے بعد اودھم سنگھ کو خاموشی سے جیل کی گرائونڈ میں دفن کر دیا گیا۔ چونسٹھ برس بعد1971ء میں اودھم سنگھ کے تابوت کو انڈیا لایا گیا۔ اس کو سرکاری اعزاز کے ساتھ شہید کا درجہ دیا گیا۔ اس کے گائوں سونام میں اس کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد جلا دیا گیا۔ اس کی راکھ کو دریائے ستلج میں بہایا گیا۔ اگر اودھم سنگھ جیسے بہادر لوگ انگریزوں کو ناکوں چنے نہ چبواتے! اگر وہ بھی ہم میں سے اکثریت کی طرح صرف اور صرف خاموش تماشائی بنے رہتے! اگر وہ ہمارے بے گناہ لوگوں کے قتل کا انتقام لیتے ہوئے اپنی جانیں قربان نہ کرتے! تو شائد انگریز مزید کافی عرصے تک حکومت کرتے رہتے! میری نظر میں اودھم سنگھ ایک باغی یا غدار نہیں تھا! دراصل وہ تو چالیس سال کا شہزادہ تھا!
Load Next Story