پاکستان تحریک انصاف اور اندرونی مسائل
پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی طرح تحریک انصاف بھی تمام تر دعوؤں کے باوجود شخصیت کے طلسم سے باہر نہیں آ پائی.
طاقت کا خُمار عموما سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مائوف کر دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس خمار کو توڑنے کی شعوری کوشش نہیں کرتیں۔ بالخصوص ایسی جماعتیں جہاں پر شخصیت پرستی اصول پرستی پر سبقت لے جاتی ہے۔ پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں۔ جب تک ان افراد کا ڈنکا بجتا رہتا ہے تب تک اندرونی معاملات اور مسائل نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ مگر جب بات شخصیت کی استطاعت سے بڑھ کر ادارے کی صلاحیت تک جا پہنچتی ہے تو چھپے ہوئے مسائل ابلنے لگتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی طرح تحریک انصاف بھی تمام تر دعووں کے باوجود شخصیت کے طلسم سے باہر نہیں آ پائی۔ وہ جماعت جس نے جمہوریت کی بنیاد کو برابری کا پانی دے کر مستحکم کرنا تھا اندرونی طور پر اونچ نیچ کی ایسی زمین پر کھڑی ہے جہاں ہر قدم ڈولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر شیریں مزاری اپنے عہدے سے وفاداری کرتے ہوئے اپنے معمول کے مطابق اونچی آواز میں سب کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کی جماعت میں سب اچھا ہے۔ مگر پھر بھی زمینی حقائق اِدھر اُدھر سے سامنے آ کر ان دعووں کی نفی کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کا اس حد تک ہتھے سے اکھڑجانا کہ وہ اپنے استعفے جیبوں میں لے کر پھر رہے ہوں، ان حقائق سے روگردانی کا ایک نتیجہ ہے جو اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی ایک قیادت ماننے سے کتراتی رہی ہے۔اگر معاملہ اتحادی جماعتوں کا ہوتا تو صوبائی اسمبلی کے ممبران کے شکوے اور شکائتیں ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار نہ کرتے۔ اتحادی نظریاتی دوست نہیں ہوتے، واقعاتی، حادثاتی، اتفاقی یا وقتی ضرورت کے تحت ساتھ مل کر اپنا فائدہ حاصل کرنے والے یہ حلقے کسی وقت بھی ہتھے سے اکھڑ سکتے ہیں۔ رویہ تبدیل کرنے میں کسی اصول کی موجودگی ضروری نہیں۔ تبادلے، ٹھیکے، وزارتیں، عہدے حتیٰ کہ بعض اوقات دفتر کے کمرے کا سائز بھی اتحادیوں کے دلوں میں غصہ ڈال لیتا ہے۔ مگر یہاں پر مسئلہ ان افراد کا ہے جن کو اس جماعت نے اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر ٹکٹ جاری کیے اور جن کے پاس عمران خان کی نظریے سے اتفاق کرنے کی غیر معمولی قابلیت موجود تھی۔
ان جوشیلے جیالوں کا نو ماہ کے اندر آگ بگولہ ہو جانا، پارٹی کے نظم و نسق کو پس پشت ڈال کر ذرایع ابلاغ کے ذریعے اندرونی اختلافات کی ہر طرف منادی کرنا اور جس قیادت کے لیے کٹ مرنے کی قسم کھائی تھی اس کو اپنی شکایتوں کی وجہ قرار دینا وہ تنظیمی ناکامی ہے جس کے بارے میں، میں ہمیشہ لکھتا رہا ہوں۔ مگر جس پر عمران خان سمیت کور کمیٹی تلملاتے ہوئے کم عقلی کی چٹ چسپاں کراتی رہی۔ پارٹیاں پریس ریلیز سے نہیں چلتیں نہ سیاسی حلقے کسی فرد کے کہے کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں کہ اُن کی اپنی رائے مکمل طور پر غیر ضروری ہو جائے۔ آج کل کے دور میں سیاسی کارکنان اور مقامی لیڈران کا شکوہ آسمان سے باتیں کرتا ہے۔ وہ لیڈر کی طرف سے جاری کیے ہوئے ہدایت نامے کو ہر وقت قبول کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ روز مرہ کے معاملات کو سنبھالنے اور شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے اس قسم کا جدید نظام پاکستان تحریک انصاف کو بنانا چاہیے تھا۔
وہ اس وقت حقیقت میں موجود نہیں ہے۔ عمران خان کے اکا دکا دورے خیبر پختونخوا میں گھمبیر صورت حال کو احسن طریقے سے سنبھالنے کے لیے کبھی بھی کافی نہیں تھے اور آج کل کے جب وزیر اعلی پرویز خٹک کی محدود صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی بنی گالہ میں مقیم قیادت نے خیبر پختونخوا کی سیاست کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کی جو کاوش کی ہے وہ بہت حد تک ناکام ثابت ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ سکائپ اور گوگل کے ذریعے کنوں اور آم کے باغات اور فارم ہائوسز تو چل سکتے ہیں سیاست نہیں۔ سیاست کے لیے مقامی سوجھ بوجھ اور، ثقافتی تدبر کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسا مقامی پارٹی ڈھانچہ بھی چاہیے جو ایک مربوط اور جامع منصوبے پر عمل در آمد کرنے اور کروانے کی استطاعت رکھتا ہو۔
اندرونی انتخابات اس قسم کا نظام بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ انتخابات کے نتائج کے بعد تنظیم سازی کی جس مسلسل اور با مقصد کوشش کی ضرورت تھی عمران خان وہ نہ کر پائے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ منتخب ممبران کے ساتھ ساتھ پارٹی کے عہدیداران جگہ جگہ مرکزی قیادت کو کوستے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یقینا یہ ایک قابل افسوس منظر ہے۔ پاکستان کو مستحکم بنانے میں سیاسی جماعتوں کا کردار ناقابل بیان حد تک اہم ہے۔ مسائل زدہ لوگ امید کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر اپنی منفیت کو مثبت قوت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔بندوقیں، چھریاں اور ہینڈ گرینیڈ اٹھانے سے یہ کہیں بہترہے کہ نوجوان اپنی پسندیدہ جماعتوں کے منشور اور جھنڈے ہاتھ میں لیے ایک ایسی منزل کی طرف گامزن رہیں جو اپنی تصوراتی شکل میں بھی حقیقت جیسی ہو۔
پاکستان تحریک انصاف نے ایسے ہی مارچ کا کام شروع کیا تھا۔ جواں جذبوں کی آتش وہ توانائی تھی جس نے کروڑوں کے دلوں کو گرمایا اور لاکھوں کو ووٹ دینے پر مائل کیا۔ خیبرپختونخوا کی حکومت ملنے کے بعد ان توقعات اور خواہشات کو حقیقت کا رنگ دینے کا وقت آ گیا تھا جن کو بڑھانے میں عمران خان نے خود اپنے الفاظ اور وعدوں کے ذریعے حصہ ڈالا۔ مگر بد قسمتی سے جماعت کی مرکزی فیصلہ سازی محدود ہو کر ملتان ڈویژن کے ہاتھوں میں رہ گئی۔ انتخابات سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا میں بالخصوص اور دوسری جگہوں پر عمومی طور پر تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے مسائل کے تمام ذرایع وہ لوگ ہیں جو اس وقت پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ عمران خان تو ہر وقت یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی شعور کے ایسے سند یافتہ چیتے موجود ہیں جو ہر مشکل کو ایک پنجہ رسید کرکے فنا کر دیں گے۔
عمران خان اپنی باتوں سے خوش ہوتے ہوئے خود پر ہونے والی تمام تنقید کو سازش اور ذاتی عناد کہہ کر دور کر دیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ یہ مسائل ابھی بحر ان کی شکل میں تبدیل نہیں ہوئے مگر ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہو گی اگر عمران خان خود کو حالت فریب میں رکھیں گے۔ جو جماعت ملک کو سنوارنے کے لیے نکلی تھی فی الحال خود کو سنوار لے تو بڑی بات ہو گی۔ تحریک انصاف کے پاس موقع بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔ ملک کو متبادل قیادت اور ایک تگڑی حزب اختلاف کی ضرورت بھی ہے۔ مگر یہ سب کچھ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی خوبصورتی اور جلو و ں پر فریفتہ ہونے سے نہیں ہو گا۔ زمینی حقائق جماعت کو جو آئینہ دکھا رہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر شیریں مزاری اپنے عہدے سے وفاداری کرتے ہوئے اپنے معمول کے مطابق اونچی آواز میں سب کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کی جماعت میں سب اچھا ہے۔ مگر پھر بھی زمینی حقائق اِدھر اُدھر سے سامنے آ کر ان دعووں کی نفی کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کا اس حد تک ہتھے سے اکھڑجانا کہ وہ اپنے استعفے جیبوں میں لے کر پھر رہے ہوں، ان حقائق سے روگردانی کا ایک نتیجہ ہے جو اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی ایک قیادت ماننے سے کتراتی رہی ہے۔اگر معاملہ اتحادی جماعتوں کا ہوتا تو صوبائی اسمبلی کے ممبران کے شکوے اور شکائتیں ضرورت سے زیادہ اہمیت اختیار نہ کرتے۔ اتحادی نظریاتی دوست نہیں ہوتے، واقعاتی، حادثاتی، اتفاقی یا وقتی ضرورت کے تحت ساتھ مل کر اپنا فائدہ حاصل کرنے والے یہ حلقے کسی وقت بھی ہتھے سے اکھڑ سکتے ہیں۔ رویہ تبدیل کرنے میں کسی اصول کی موجودگی ضروری نہیں۔ تبادلے، ٹھیکے، وزارتیں، عہدے حتیٰ کہ بعض اوقات دفتر کے کمرے کا سائز بھی اتحادیوں کے دلوں میں غصہ ڈال لیتا ہے۔ مگر یہاں پر مسئلہ ان افراد کا ہے جن کو اس جماعت نے اپنی طرف سے سوچ سمجھ کر ٹکٹ جاری کیے اور جن کے پاس عمران خان کی نظریے سے اتفاق کرنے کی غیر معمولی قابلیت موجود تھی۔
ان جوشیلے جیالوں کا نو ماہ کے اندر آگ بگولہ ہو جانا، پارٹی کے نظم و نسق کو پس پشت ڈال کر ذرایع ابلاغ کے ذریعے اندرونی اختلافات کی ہر طرف منادی کرنا اور جس قیادت کے لیے کٹ مرنے کی قسم کھائی تھی اس کو اپنی شکایتوں کی وجہ قرار دینا وہ تنظیمی ناکامی ہے جس کے بارے میں، میں ہمیشہ لکھتا رہا ہوں۔ مگر جس پر عمران خان سمیت کور کمیٹی تلملاتے ہوئے کم عقلی کی چٹ چسپاں کراتی رہی۔ پارٹیاں پریس ریلیز سے نہیں چلتیں نہ سیاسی حلقے کسی فرد کے کہے کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں کہ اُن کی اپنی رائے مکمل طور پر غیر ضروری ہو جائے۔ آج کل کے دور میں سیاسی کارکنان اور مقامی لیڈران کا شکوہ آسمان سے باتیں کرتا ہے۔ وہ لیڈر کی طرف سے جاری کیے ہوئے ہدایت نامے کو ہر وقت قبول کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ روز مرہ کے معاملات کو سنبھالنے اور شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے اس قسم کا جدید نظام پاکستان تحریک انصاف کو بنانا چاہیے تھا۔
وہ اس وقت حقیقت میں موجود نہیں ہے۔ عمران خان کے اکا دکا دورے خیبر پختونخوا میں گھمبیر صورت حال کو احسن طریقے سے سنبھالنے کے لیے کبھی بھی کافی نہیں تھے اور آج کل کے جب وزیر اعلی پرویز خٹک کی محدود صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی بنی گالہ میں مقیم قیادت نے خیبر پختونخوا کی سیاست کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کی جو کاوش کی ہے وہ بہت حد تک ناکام ثابت ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ سکائپ اور گوگل کے ذریعے کنوں اور آم کے باغات اور فارم ہائوسز تو چل سکتے ہیں سیاست نہیں۔ سیاست کے لیے مقامی سوجھ بوجھ اور، ثقافتی تدبر کا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسا مقامی پارٹی ڈھانچہ بھی چاہیے جو ایک مربوط اور جامع منصوبے پر عمل در آمد کرنے اور کروانے کی استطاعت رکھتا ہو۔
اندرونی انتخابات اس قسم کا نظام بنانے کی طرف ایک قدم ہے۔ انتخابات کے نتائج کے بعد تنظیم سازی کی جس مسلسل اور با مقصد کوشش کی ضرورت تھی عمران خان وہ نہ کر پائے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ منتخب ممبران کے ساتھ ساتھ پارٹی کے عہدیداران جگہ جگہ مرکزی قیادت کو کوستے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یقینا یہ ایک قابل افسوس منظر ہے۔ پاکستان کو مستحکم بنانے میں سیاسی جماعتوں کا کردار ناقابل بیان حد تک اہم ہے۔ مسائل زدہ لوگ امید کے پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر اپنی منفیت کو مثبت قوت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔بندوقیں، چھریاں اور ہینڈ گرینیڈ اٹھانے سے یہ کہیں بہترہے کہ نوجوان اپنی پسندیدہ جماعتوں کے منشور اور جھنڈے ہاتھ میں لیے ایک ایسی منزل کی طرف گامزن رہیں جو اپنی تصوراتی شکل میں بھی حقیقت جیسی ہو۔
پاکستان تحریک انصاف نے ایسے ہی مارچ کا کام شروع کیا تھا۔ جواں جذبوں کی آتش وہ توانائی تھی جس نے کروڑوں کے دلوں کو گرمایا اور لاکھوں کو ووٹ دینے پر مائل کیا۔ خیبرپختونخوا کی حکومت ملنے کے بعد ان توقعات اور خواہشات کو حقیقت کا رنگ دینے کا وقت آ گیا تھا جن کو بڑھانے میں عمران خان نے خود اپنے الفاظ اور وعدوں کے ذریعے حصہ ڈالا۔ مگر بد قسمتی سے جماعت کی مرکزی فیصلہ سازی محدود ہو کر ملتان ڈویژن کے ہاتھوں میں رہ گئی۔ انتخابات سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا میں بالخصوص اور دوسری جگہوں پر عمومی طور پر تحریک انصاف کے بڑھتے ہوئے مسائل کے تمام ذرایع وہ لوگ ہیں جو اس وقت پارٹی کو چلا رہے ہیں۔ عمران خان تو ہر وقت یہ باور کرواتے رہتے ہیں کہ ان کے پاس سیاسی شعور کے ایسے سند یافتہ چیتے موجود ہیں جو ہر مشکل کو ایک پنجہ رسید کرکے فنا کر دیں گے۔
عمران خان اپنی باتوں سے خوش ہوتے ہوئے خود پر ہونے والی تمام تنقید کو سازش اور ذاتی عناد کہہ کر دور کر دیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت اندرونی مسائل کا شکار ہے۔ یہ مسائل ابھی بحر ان کی شکل میں تبدیل نہیں ہوئے مگر ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں ہو گی اگر عمران خان خود کو حالت فریب میں رکھیں گے۔ جو جماعت ملک کو سنوارنے کے لیے نکلی تھی فی الحال خود کو سنوار لے تو بڑی بات ہو گی۔ تحریک انصاف کے پاس موقع بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔ ملک کو متبادل قیادت اور ایک تگڑی حزب اختلاف کی ضرورت بھی ہے۔ مگر یہ سب کچھ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی خوبصورتی اور جلو و ں پر فریفتہ ہونے سے نہیں ہو گا۔ زمینی حقائق جماعت کو جو آئینہ دکھا رہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔