جنوبی ایشیائی مزدوروں کے مسائل
محنت کش طبقات کی محنت ہی سے دنیا ترقی کے منازل طے کرتی ہے
نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ نو آزاد ملکوں کے حکمران محنت کش طبقات پر ماضی میں ہونے والے مظالم کا ازالہ کریں گے لیکن یہ امید تو پوری نہ ہوئی بلکہ اس کے برخلاف محنت کش طبقات پر مظالم میں اضافہ ہو گیا۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگرچہ مزدور طبقے کے حالات نسبتاً بہتر ہیں لیکن یہ بہتری ان کی بنیادی ضروریات تک محدود ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی مزدور طبقہ خوشحالی کی منزل سے ابھی تک دور ہے، جب کہ پسماندہ ملکوں میں مزدور کا حال صنعتی غلاموں جیسا اور کسان کا حال زرعی غلاموں جیسا ہے۔
مزدوروں کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے بعد مزدور طبقے کے حالات میں بہتری لانے کے لیے کچھ لیبر لاز تشکیل دیے گئے تھے، ترقی یافتہ ملکوں میں بہرحال لیبرلاز کا کسی نہ کسی حد تک خیال کیا جاتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں تو حال یہ ہے کہ خود حکومت کے منظور کردہ لیبرلاز پر سرے سے عمل ہی نہیں ہوتا۔ لیبر لاز کو منظور کرانے میں اگرچہ کہ مزدور طبقے کو طویل عرصے جدوجہد کرنی پڑی لیکن لیبر لاز کے نفاذ سے خود صنعتکاروں کا مفاد بھی وابستہ تھا۔ صنعتکار محنت کشوں کے حقوق کی پامالی اور بے جا مظالم کی وجہ سے اس خوف کا شکار رہتا تھا کہ ظلم و جبر سے تنگ آئے ہوئے مزدور اگر سڑکوں پر آ گئے تو اس کی صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہو جائے گا اس ممکنہ صورتحال سے بچنے کے لیے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں نے ایسے لیبر لاز متعارف کرائے جو محنت کشوں کے حقوق کو قانون کی زنجیروں میں باندھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
جنوبی ایشیا کے ملکوں میں مزدور طبقے کی تعداد 600 ملین (ساٹھ کروڑ) بتائی جاتی ہے جس میں 100 ملین وہ مزدور ہیں جنھیں غریب تر کہا جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں مزدوروں کی تعداد کو دنیا کے مزدوروں کی کل تعداد کا ایک چوتھائی حصہ مانا جاتا ہے۔ OECD ڈیولپمنٹ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس خطے میں مزدوروں کی بھاری اکثریت انفارمل سیکٹر میں کام کرتی ہے اس سیکٹر میں کام کرنے والے مزدور عموماً ٹھیکیدار نظام کے مزدور کہلاتے ہیں۔ مالکان نے مزدور حقوق اور مزدور قوانین سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام قائم کیا ہے جس میں نہ مزدور کے کوئی قانونی حقوق ہوتے ہیں نہ مزدور کی نوکری مستقل ہوتی ہے نہ اوقات کار کی کوئی پابندی ہوتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے مزدور طبقے کے مسائل کے حل کے لیے اور ایک جامع حکمت عملی کی تیاری کے لیے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ اور بھارت، ہالینڈ اور کینیڈا کی مزدور تنظیموں کے زیر اہتمام 25 سے 27 فروری 2014ء کو کٹھمنڈو میں سہ روز راؤنڈ ٹیبل کانفرنس منعقد ہوئی اس کے بنیادی مقاصد میں جنوبی ایشیا کی ٹیکسٹائل انڈسٹری وغیرہ میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ''جنوبی ایشیا فورم کا قیام، اس فورم کے لیے روڈ میپ کا تعین، عالمی لیبر فورس کو منظم کرنے کی مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا علاقائی اور عالمی سطح پر مزدور ایجوکیشن کا اہتمام، مختلف ٹھیکیداری نظاموں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد معلوم کرنا، مزدور مسائل کے حوالے سے مزدور تنظیموں کی موجودہ حکمت عملی کا جائزہ لینا'' شامل تھے اس حوالے سے کٹھمنڈو کانفرنس میں بنیادی نوعیت کے فیصلے کیے گئے ترقی پذیر ملکوں میں خاص طور پر زرعی معیشت کے حامل ملکوں میں کسان ایک بڑی ورک فورس کے طور پر موجود ہے اندازہ ہے کہ اگر مزدوروں میں کسانوں کو شامل کیا جائے تو ان کی مجموعی تعداد لیبر فورس کا 90 فیصد بنتی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ کسانوں کا حال انفارمل سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں سے بھی بدتر ہے۔
مارکس نے مزدور طبقے پر ہونے والی زیادتیوں کے حوالے سے سرپلس ویلیو کی تھیوری پیش کی تھی۔ اس تھیوری کے مطابق کسی کارخانے میں 500 مزدوروں کی محنت سے اگر 20 کروڑ مالیت کی پیداوار تیار ہوتی ہے تو مالک 500 مزدوروں کی اجرت ادا کرتا ہے جو مشکل سے 2 کروڑ بنتی ہے 20 کروڑ کی آمدنی میں سے 2 کروڑ روپے مزدوروں کو بطور اجرت ادا کرنے کے بعد جو 18 کروڑ روپے بچتے ہیں مارکس اسے سرپلس ویلیو قرار دیتا ہے جو مالک کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ مارکس کا کہنا ہے کہ مزدوروں کی محنت کی اس کمائی پر صنعتکار اور سرمایہ دار کا قبضہ قطعی ناجائز ہے جسے ختم ہونا چاہیے۔ اس ناانصافی کا عملی مظاہرہ ہم ان غریب مزدوروں کی عمر بھر کی محنت سے لگا سکتے ہیں جس کا حاصل دو وقت کی روٹی ہوتی ہے جب کہ لامحدود منافع یا سرپلس ویلیو کے استعمال سے مالک کارخانے پر کارخانے بناتا چلا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ناانصافی کیسے ختم ہو گی؟
اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جب تک سرمایہ دارانہ نظام ختم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ ناانصافی ختم نہیں ہو سکتی اور ہشت پہلو سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا آسان نہیں۔ دنیا میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بے شمار تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن ان تنظیموں کے اہداف عموماً مزدور اصلاحات تک محدود ہوتے ہیں جب کہ مزدور طبقات سے ہونے والی ناانصافیوں کے خاتمے کے لیے اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ مزدور طبقے کے ساتھ ہونے والے مظالم میں سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مزدور طبقے کی بھاری اکثریت انفارمل سیکٹر میں کام کرنے پر مجبور ہے جہاں اس کے سرے سے کوئی حقوق ہی نہیں ہوتے اسی حوالے سے مزدور طبقے کو صنعتی غلاموں کا نام دیا گیا ہے۔
محنت کش طبقات کی محنت ہی سے دنیا ترقی کے منازل طے کرتی ہے انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ معاشرے میں سب سے زیادہ قابل احترام طبقہ مزدور طبقہ ہی ہونا چاہیے لیکن ظلم یہ ہے کہ دنیا کو ترقی کی معراج پر پہنچانے والے اس طبقے کو معاشرے میں اچھوت بنا کر رکھا گیا ہے۔ یہی حال کسان کا ہے کسان کو کمی یعنی کمین کا نام دے کر اس کی بے توقیری کی جاتی ہے جب کہ زرعی پیداوار کسان کی روز و شب کی محنت کی مرہون منت ہوتی ہے۔ مزدوروں، کسانوں اور دوسرے محنت کش طبقات کو معاشرے میں ڈی گریڈ کر کے اس لیے رکھا جاتا ہے کہ یہ طبقات ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہیں اور اس معاشرے کی مساوات کی طرف ان کا خیال ہی نہ جائے۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں بلکہ اہل زر کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔
ہر ملک کی معاشی ترقی ناپنے کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ اس ملک میں صنعتی ترقی کی شرح کیا ہے اس حوالے سے یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ صنعتیں لگیں گی تو مزدور کو روزگار کے مواقع حاصل ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتی ترقی سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں لیکن اس مفروضے کا المیہ یہ ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں اب بھی لاکھوں بیروزگار موجود ہیں اور صنعتی ترقی ہو بھی رہی ہے تو اس کا سارا فائدہ سرمایہ دار لے جاتا ہے مزدور کا پیٹ پھر بھی خالی رہتا ہے۔