ہندو برادری کے خدشات
سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو اس ضمن میں قائد اعظم کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے
سندھ میں اقلیتی برادری مشکل میں پڑ گئی ہے۔ نامعلوم افراد نے حیدرآباد میں ایک مندر کو نذرِ آتش کر دیا۔ چند ہفتے پہلے لاڑکانہ میں ایک دھرم شالہ کو حملہ کر کے نقصان پہنچایا گیا تھا۔ پھر مِٹھی کے ایک مندر سے قدیم مورتی بھی چوری کر لی گئی۔ کراچی میں سرکاری تعمیرات کی بناء پر ایک قدیم مندر کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ ان واقعات میں سے لاڑکانہ کا واقعہ زیادہ خوفناک تھا۔ لاڑکانہ میں بعض افراد نے مبینہ طور پر قرآن مجید کے اوراق کو جلانے کے مبینہ واقعے کے بعد دھرم شالہ پر حملہ کر دیا تھا۔ حکام کی مداخلت اور عوام کے تعاون کی بناء پر لاڑکانہ میں ہونے والا تشدد کا واقعہ اپر سندھ کے امن کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکا مگر ہندو برادری خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ اس سال کے شروع میں پینگریو کے علاقے بھورو بھیل کی لاش حاجی فقیر قبرستان سے نکال کر پھینک دی گئی۔
سندھ مذہبی اعتبار سے ایک پر امن صوبہ ہے۔ یہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے آباد ہیں مگر دونوں مذہبی برادریوں کے درمیان تعلقات مثالی رہے ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے اثرات سندھ میں بھی محسوس ہونے لگے ۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہندو لڑکیوں کے اغواء اور ان سے جبری مذہب تبدیل کرانے کی خبریں اخبارات میں شایع ہونے لگیں۔ ان میں سے کچھ مقدمات سپریم کورٹ تک گئے مگر اعلیٰ عدالتیں اقلیتی برادری کے تحفظات دور نہیں کر سکیں۔ سندھ میں ہندو برادری متوسط اور نچلے متوسط طبقے میں منقسم ہے۔ کچھ ہندو خاندانوں کا تعلق امراء کے طبقے سے بھی ہے۔ یہ زیادہ تر جاگیردار ہیں یا چند بڑے تاجر ہیں مگر اکثریت متوسط طبقے پر مشتمل ہے۔ متوسط طبقے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، استاد، سرکاری ملازم او ر تاجر وغیرہ شامل ہیں۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی تعلیم یافتہ ہیں اور لڑکیوں کی خاصی تعداد بھی ڈاکٹر، وکیل اور استاد کے پیشے سے وابستہ ہے۔
ہندو برادری کی اکثریت کا تعلق دلت طبقے سے ہے۔ یہ غریب لوگ زیادہ تر تھرپارکر میں آباد ہیں۔ غربت و افلاس کی بناء پر ان کے حالاتِ کار سب سے زیادہ برے ہیں۔ تھر میں حالیہ خشک سالی میں دلت طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ کم غذائیت اور حکومت کی عدم توجہ کی بناء پر بیماریوں کے باعث تھر میں چھوٹے بچوں کی اموات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تھر میں غریب خاندانوں کی اکثریت کا تعلق دلت اور دوسرے نچلے طبقوں سے ہے۔ تھرپارکر میں ریاستی ادارے اقلیتی برادری کے افراد کو ہراساں کرنے کے معاملات میں ملوث نظر آتے ہیں۔ ان کے بارے میں خبریں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی سالانہ رپورٹوں میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔ سندھ میں تاجروں کی اکثریت کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں ہندو تاجر برادری اغواء برائے تاوان، قتل،چوری اور ڈاکے کی وارداتوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہندو تاجروں کو چھوٹے شہروں میں اغواء کر لیا جاتا ہے، پھر ڈاکو انھیں بھاری تاوان لے کر رہا کرتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ با اثر وڈیرے ان وارداتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یوں پولیس والے دباؤ اور رشوت کی بناء پر متاثرین کو تحفظ فراہم نہیں کر پاتے۔ اس خوف و ہراس کی فضاء کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ سال کئی خاندان بھارت ہجرت کر گئے۔ بھارت سے آنے والی رپورٹوں میں ہندو خاندانوں کے بھارت منتقل ہونے کی خبروں کی تصدیق کی گئی مگر ان خاندانوں کی زبوں حالی کی خبریں بھی شایع ہوئیں۔ پھر گزشتہ چند برسوں سے ہندو لڑکیوں کے اغواء کا معاملہ بھی ذرایع ابلاغ میں نمایاں ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو پر اس بارے میں الزامات عائد کیے گئے۔ ہندو برادری کے سر کردہ لوگوں کا کہنا تھا کہ صرف ہندو لڑکیاں ہی کیوں مذہب تبدیل کرتی ہیں، کوئی ہندو لڑکا آخر اپنے مذہب کو تبدیل کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوتا؟ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہندو لڑکیوں کے معاملے میں شفافیت اور غیر جانبداری کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ لڑکیاں اپنے اور اپنے خاندانوں کی زندگی کے تحفظ کی خاطر کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں۔
اگر ان لڑکیوں کو خود ان کی اور ان کے خاندان کے تحفظ کی ضمانت دی جائے تو حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ مگر معاملہ صرف لڑکیوں اور تاجروں کے اغواء تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر بھی حملے ہونے لگے۔ حیدرآباد، لاڑکانہ اور مٹھی کے بعد کراچی میں کلفٹن کے علاقے میں واقع قدیم مندر کو انڈر بائی پاس بننے کی بناء پر منہدم ہونے کے خدشے پر بھی ہندو برادری کو تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال کراچی کے سولجر بازار کے علاقے میں لینڈ مافیا نے ایک قدیم مندر کو مسمار کر دیا تھا مگر سپریم کورٹ کی مداخلت پر یہ مندر دوبارہ بحال ہو گیا۔ اسی طرح بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر نے ہندو برادری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کلفٹن میں واقع مندر کو انڈر بائی پاس کی تعمیر کے باوجود مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ حکومتی اہلکاروں کی یقین دہانیوں کے باوجود اقلیتی برادری میں بڑھتا ہوا خوف اس معاملے کی گہرائی کی عکاسی کر رہا ہے۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سنجیدہ دانشور سمجھتے ہیں کہ ہندو برادری کو فیاضی کے کاموں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ ہندو برادری نے گزشتہ 250 سالوں میں سندھ میں تعلیم، صحت اور دوسری رفاعی منصوبوں پر کثیر رقم خرچ کی مگر اب اس صورتحال میں فرق پڑ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو برادری فیاضی کے ذریعے کشیدہ صورتحال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اس صورتحال پر پریشان نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ کے قدیم باشندوں کو لڑانے کی سازش ناکام بنا دی جائے گی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کا اس صورتحال کا نوٹس لینا ایک مثبت عمل ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی بھی ہندو برادری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔ سول سوسائٹی کی دوسری تنظیمیں بھی ہندو برادری کے خلاف امتیازی سلوک پر احتجاج کر رہی ہیں یوں سندھ میں صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے پرامن معاشرے کو مذہبی انتہا پسندی کا جنون پیدا کر کے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو اس ضمن میں قائد اعظم کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب کراچی میں اینٹی ہندو فسادات ہوئے تو جناح صاحب فساد زدہ علاقوں کے دورے پر گئے۔ وہ ہندوؤں کی حالت دیکھ کر بے اختیار رونے لگے۔ قائد نے اس موقع پر کہا کہ انھوں نے ایسا کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔ قائد اعظم کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جناح صاحب عوام کے سامنے دوسری مرتبہ بِلک بِلک کر روئے تھے۔ وہ پہلی مرتبہ اپنی اہلیہ رتی کے انتقال کے بعد ان کی تدفین کے وقت سرِ عام رو پڑے تھے۔ قائد اعظم کے ان جذبات سے اقلیتوں کے ساتھ غیر جمہوری سلوک کا کوئی جواز نہیں ملتا۔ اقلیتوں کو تحفظ نہ دے کر ہم معاشرے میں مذہبی جنونیت کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ سب کچھ قائد اعظم کی تعلیمات کے خلاف ہو گا۔ سندھ میں مذہبی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں مزید تیز ہونا چاہئیں۔