روایات اورقوانین

ہم ہزاروں روپے خرچ کر کے سنگ مر مر کی سبیلیں بناتے ہیں لیکن سبیل کے گلاس زنجیر سے باندھ کر۔۔۔


S Nayyer April 05, 2014
[email protected]

بس میں سوار چاروں نو عمر طالب علم بھاری بیگ اپنی کمر پر لادے ہوئے نویں یا دسویں جماعت کے اسٹوڈینٹس دکھائی دیتے تھے ۔ دو لڑکے بس کی سیٹوں پر بیٹھے تھے اور دو ان کے نزدیک کھڑے آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے ۔ کھڑے ہوئے لڑکے سیٹ پر بیٹھے لڑکوں کا ہاتھ پکڑ کر بار بار کھینچتے وہ ان سے مطالبہ کر رہے تھے کہ اب انھیں بیٹھنے کا موقع دیا جائے ۔ ان کی اس معصومانہ ہاتھا پائی اور آپس میں ہنسی مذاق کے باعث دیگر کھڑے ہوئے مسافروں کو پریشانی ہو رہی تھی ۔ ایک دو مسافروں نے انھیں ڈانٹا بھی اور اس '' چھچھور پنے ''سے باز آنے کی تلقین بھی کی ۔ چاروں لڑکے کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتے لیکن چند لمحوں کے بعد ہی وہ مسافروں کی جانب سے خود کو پڑنے والی ڈانٹ ڈپٹ کو بھول کر پھر آپس میں کھینچا تانی شروع کردیتے ۔

سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں لڑکے کسی طرح بھی اٹھنے کو تیار نہ تھے اور کھڑے ہوئے دونوں طالبعلم ہر صورت میں اپنے دوستوں کو سیٹ سے اٹھاکر خود بیٹھنے پر تلے بیٹھے تھے ۔ انھیں کسی کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ ان کی حرکتوں کے باعث دوسرے مسافروں کو کتنی تکلیف اٹھانا پڑ رہی تھی ، ظاہر ہے یہ عمر ہی ایسی تھی ان کے جسم میں موجود توانائی انھیں نچلا بیٹھنے ہی نہیں دے رہی تھی ۔ اچانک دو بزرگ بس میں سوار ہوئے ، دونوں سفید ریش تھے ایک بزرگ مسافر نے سہارے کے لیے بڑی خوبصورت سی اسٹیک بھی پکڑی ہوئی تھی ۔ سیٹ پر بیٹھے ہوئے دونوں طالبعلموں کی نظر جیسے ہی ان دونوں بزرگوں پر پڑی وہ اپنی سیٹ چھوڑ کر یکدم کھڑے ہوگئے اور بزرگ مسافروں کو مخاطب کر کے بولے '' یہاں آجائیں انکل '' بوڑھے مسافروں نے ہاتھ کے اشارے سے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور انھیں اپنی سیٹ پر بیٹھے رہنے کی تلقین بھی کی لیکن دونوں طالبعلم اپنی اپنی سیٹ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے اور اصرار کر کے ان دونوں نے اپنی سیٹ پر ان دونوں بزرگوں کو بٹھایا اور اپنے ساتھیوں کے پاس جا کر کھڑے ہوگئے ، ان کے دونوں کھڑے ہوئے ساتھی طالبعلم بھی اس اصرار میں ان کا ساتھ دیتے رہے تھے۔

دونوں نے دائیں بائیں ہٹ کر ان بزرگوں کو راستہ دیا اور سیٹ پر بیٹھنے میں ان کی مدد بھی کی ۔ اب چاروں دوست کھڑے ہو کر آپس میں پھر چہلیں کرنے میں مصروف ہوگئے تھے ۔ یہ منظر دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ یہ میرے شہر کراچی کی روایت تھی اور اب یہ روایت اتنی مضبوط ہوچکی تھی کہ کراچی کی کسی بھی بس میں کوئی کمزور ، بوڑھا اور ضعیف مسافر اگر سوار ہو جائے تو بیک وقت کئی نوجوان مسافر اپنی سیٹ چھوڑ کر اس بزرگ کو اپنی سیٹ پیش کردیتے ہیں۔ یہ کراچی شہر کی ایک شناخت بن چکی ہے اور کراچی کے شہریوں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہوگا ۔ روایات رفتہ رفتہ اپنی جڑیں پکڑتی ہیں خواہ اچھی ہوں یا بری لیکن کوئی بھی معاشرہ اپنی انھی روایات کے ستون پر ہی کھڑا ہوتا ہے۔ اور یہ روایات اور اخلاقی اقدار ہی کسی معاشرے کی خوبصورتی اور مضبوطی کی عکاس ہوتی ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار اور روایات قانون سے بھی زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور کسی بھی قوم کی شناخت کہلاتی ہیں۔

امریکی عوام ہر چار سال کے بعد نومبر کے پہلے منگل کو اپنا صدر منتخب کرنے کے لیے اپنے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں ، خواہ نومبر کی کوئی بھی تاریخ ہو لیکن پہلے منگل کا دن ہونا ضروری ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ تاریخ یکم نومبر سے 7 نومبر تک کوئی بھی ہوسکتی ہے لیکن نومبر کا پہلا منگل ہونا ضروری ہے ۔ نومبر کے پہلے منگل کو پولنگ کے بعد امریکی صدر 20 جنوری کو اپنی صدارت کا حلف اٹھاتا ہے یہ صدر کی دوسری اور آخری مدت ہو یا پھر نیا صدر ہو وہ حلف 20 جنوری کو ہی اٹھاتا ہے ۔ نومبر سے جنوری تک پچھلا صدر اپنا سامان باندھتا ہے اور نیا صدر اپنی کابینہ کے ارکان منتخب کر کے ملک چلانے کی تیاری کرتا ہے اور پرانا صدر 20 جنوری کو وہائٹ ہاؤس خالی کر کے نئے صدر کے حوالے کردیتا ہے ۔ اس مرتبہ نومبر کے پہلے ہفتے میں امریکا کی کئی ریاستوں میں طوفان نے زبردست تباہی مچادی تھی اور دنیا کے کئی ممالک اور خود متاثرہ ریاستوں کے امریکی عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ شائد امریکی انتخابات نومبر کے پہلے منگل کو نہ ہوسکیں کیونکہ بڑا مضبوط جواز موجود تھا لیکن صدر اوباما نے یہ نہ ہونے دیا ۔

انھوں نے متاثرہ ریاستوں میں موبائل پولنگ بوتھ قائم کیئے اور پولنگ نومبر کے پہلے منگل کو ہی کروا کر اس امریکی روایت کو ٹوٹنے سے بچا لیا ۔ برطانیہ کی ملکہ کو آئین کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہماری اٹھاون ٹوبی کی ' 'مرحوم '' آئینی شق کے تحت جب چاہے برطانوی پارلیمنٹ کو تحلیل کرسکتی ہے لیکن آج تک ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ برطانوی عوام اور ملکہ کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر یہ اقدام درست ہوگا لیکن اخلاقی طور پر غلط ہو گا یعنی کسی بھی قوم کے لیے آئین اور قانون سے زیادہ اہم ان کی اخلاقی اقدار ہوتی ہیں یہ اخلاقی اقدار اور روایات ہی کسی قوم کے مہذب ہونے یا نہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ اب آئیے اپنی اخلاقی اقدار اور مغرب کی روایات کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ ہماری سب سے بڑی اور مضبوط اخلاقی اور معاشرتی قدر ہمارا جوائنٹ فیملی سسٹم ہے جس سے مغرب محروم ہے ہم اپنے والدین کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں جب کہ مغرب کے نوجوان شادی کرتے ہی اپنے بزرگوں کو ریاست کی ذمے داری پر چھوڑ کر علیحدہ ہوجاتے ہیں ۔

یہ جوائنٹ فیملی سسٹم ہماری ایسی روایت یا پھر اخلاقی قدر ہے جس پر ہم اپنا سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی روایات بھی موجود ہیں جو ہمارا سر شرم سے جھکا دیتی ہیں مثلاً مغرب میں خواہ ائر پورٹ ہو یا پھر بس اسٹاپ ، اگر دو مسافر بھی موجود ہوں تو وہ قطار بنا لیتے ہیں لیکن ہم قطار بنانے سے الرجک ہیں ۔ مہذب ممالک میں صبر و تحمل کے ساتھ ٹریفک جام کے دوران گاڑیوں کی قطار آگے بڑھنے کا انتظار کیا جاتا ہے لیکن ہم لوگ قطار توڑ کر سب سے پہلے نکل جانے کی کوشش میں غلط سائڈ پر آکر آمنے سامنے کی گاڑیوں کا منہ سے منہ ملادیتے ہیں جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں مزید تاخیرکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور جو ٹریفک منٹوں میں کھل سکتا ہو وہ گھنٹوں کے لیے جام ہوجاتا ہے ۔

ہم ہزاروں روپے خرچ کر کے سنگ مر مر کی سبیلیں بناتے ہیں لیکن سبیل کے گلاس زنجیر سے باندھ کر عملاً یہ اعلان کردیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اور ہماری قوم ایک '' چور '' قوم ہے جو پلاسٹک کے گلاس بھی چوری کرنے سے باز نہیں آتی ۔ کبھی آپ نے اس پر غور کیا کہ ایسا کیوں ہے ؟ ہمارے یہاں رشوت ، سفارش اور طاقت کو قانون اور اخلاقی اقدار پر بالادستی کیوں حاصل ہے ؟ سوائے دو چار اچھی اخلاقی اقدار کے ہمارا چہرہ دنیا کے سامنے ایک بد دیانت ، بے ایمان اور چور قوم کا عکاس کیوں ہے ؟ اس کی وجوہات پر اگلے کالم پر گفتگو کریں گے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں