پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم مگر…
آیندہ بجٹ میں حکومت کو ان ملازمین کی اشک شوئی کے لیے مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا چاہیے
TUNIS:
بات سیدھی سی ہے کہ جب ڈالر ایک سو گیارہ روپے تک جا پہنچا تھا پھر اس میں کمی واقع ہوئی 106 روپے تک پہنچنے کے بعد چند ہفتوں میں ہی ڈالر کی قیمت پاکستانی کرنسی میں 98 روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اور یوں اس میں زیادہ حساب کتاب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ یعنی ڈالر کی قیمت میں 13 روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اب اس سیدھی بات کا مطلب یہ ہونا چاہیے تھا کہ آٹا، پٹرول، بجلی، گیس سمیت ہر شے کی قیمت میں دس تا بارہ فیصد کمی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن بجلی کی قیمتوں میں ان ہی دنوں فوری اضافہ کردیا گیا تھا جیسے ہی روپے کی قدر میں اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ دنوں چکی کا آٹا 50 روپے فی کلو سے بڑھ کر 52 روپے فی کلو تک جا پہنچا تھا۔ چند دن قبل ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں صرف دو روپے 90 پیسے کی کمی کی گئی ہے جس پر ٹرانسپورٹرز سے کرایوں میں کمی کا مطالبہ کیا جسے ٹرانسپورٹرز نے رد کرتے ہوئے ڈیزل کی قیمت میں کمی کو انتہائی کم قرار دیا ہے۔
دوسری طرف ''اپٹما'' نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید 5 فیصد کمی کی تجویز دی ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ پٹرولیم قیمتوں میں مزید کمی کے ساتھ بجلی گیس کی قیمتوں میں بھی کمی کی جائے۔ تاکہ ملک کا برآمدی شعبہ دنیا کے دیگر ملکوں کے ساتھ بلحاظ لاگت مسابقت کے قابل ہوسکے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ آیندہ تین ماہ میں افراط زر کی شرح بھی 9 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ آیندہ مالی سال کے دوران بجلی اور گیس کے نرخوں میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ جہاں تک مٹی کے تیل کی قیمت کا تعلق ہے جوکہ غریب کے گھر میں روشنی کا ذریعہ ہے جہاں اندھیرے کا راج ہوتے ہی لالٹین جلالی جاتی ہیں۔ کروسین تیل کی قیمت میں 5 روپے 61 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں محض ایک روپے 72 پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ لیکن اس معمولی کمی کے مثبت اثرات معیشت پر مرتب نہیں ہو رہے اور نہ ہی توقع کی جارہی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان پایا جا رہا ہے۔ لہٰذا ان دونوں باتوں کو یکجا کرلیا جاتا تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں باآسانی 10 تا 15 فیصد اضافہ کیا جاسکتا تھا۔ تب کہیں جاکر صنعتکار بھی اس بات پر اطمینان کا اظہار کرسکتے تھے کہ ان کے کارخانوں اور صنعتوں میں زیر استعمال نقل و حمل کے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرنے پر ہی ٹرانسپورٹرز، رکشہ وٹیکسی والے، بسوں، مزدا، ویگنوں والے، ٹرک، بس والے اپنے کرایوں میں کمی کرچکے ہوتے۔ فی الحال حکومت معمولی کمی کرنے کے بعد یہ سمجھتی ہے کہ ہر شے کی قیمت میں کمی واقع ہوجائے گی یہ خام خیالی ہے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی کے بجائے انتہائی لازمی جزو زندگی آٹا، (چکی کا) جس کی قیمت 50 روپے فی کلو سے بڑھ کر 52 روپے فی کلو ہوگئی۔
ملک کے بعض علاقوں کے یوٹیلیٹی اسٹورز میں آٹا ہی دستیاب نہیں ہے۔ تھر کے علاقے میں آنے والے المیے کا اصل سبب خوراک کی قلت تھی جس میں آٹے کا انتہائی بنیادی کردار ہے۔ اگر آٹے کی قیمت میں کمی لائی جاتی ہے تو اس کے اثرات دیگر اشیائے خورونوش پر بھی مرتب ہوں گے۔ جس ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ ٹن گندم کی پیداوار ہو اور کسانوں کو فی من بارہ سو روپے ادا کیے جاتے ہوں۔ بعض علاقوں کے کسان اس سے بھی کم قیمت پر گندم فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن عوام کو 18 سو سے لے کر دو ہزار روپے فی من آٹا فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کم وزن کی روٹی بھی 8 روپے کی مل رہی ہے۔ روپے کی قدر میں اضافے کے واضح اور خوش گوار اثرات جب ہی محسوس ہوسکتے ہیں جب دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ روٹی کی قیمت میں بھی خاصی کمی واقع ہونا چاہیے۔
روپے کی قدر میں اضافے کے باعث پٹرولیم مصنوعات بجلی گیس کے نرخ میں کمی لاکر حکومت ملک کی معاشی افزائش میں باآسانی اضافہ کرسکتی تھی۔ کیونکہ جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد یورپی یونین کے ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوتا لیکن بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے ان مثبت اثرات کو کم کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ان رعایتوں سے ملکی صنعتکار یا برآمد کنندگان اسی وقت مستفید ہوسکتے ہیں جب مصنوعات کی لاگت خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت کے قابل ہوں۔ لہٰذا اس صورتحال میں حکومت کو ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ بجلی گیس کے نرخوں میں مزید کمی کرکے برآمدات میں اضافے کی کوششوں میں معاونت کرنی چاہیے۔ کیونکہ روزگار کے نئے مواقع اسی صورت میں پیدا کیے جاسکتے ہیں جب سستی اور معیاری مصنوعات تیار کرکے برآمد کیے جائیں۔ 10 سال کے لیے اگر یہ رعایت ملی ہے تو اس سے جب ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ لاگت میں کمی کی صورت میں برآمدات میں بھی اضافہ ممکن ہوسکے گا۔
وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے یہ کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کریں۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کرائی جائے۔ لیکن کئی روز گزرنے کے بعد بھی ٹرانسپورٹرز اس بات پر آمادہ نہیں ہیں کہ وہ کرایوں میں کمی لے کر آئیں گے۔ لیکن ان باتوں کے باوجود صوبائی حکومتیں اگر اس بات پر کمر بستہ ہوجاتیں کہ کرایوں اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں کو کم رکھا جائے گا تو صوبائی حکومتوں کے اس عزم کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ کیونکہ صوبائی حکومت کے قیمتوں پر سخت کڑی نگرانی نہ ہونے کے باعث بہت سی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کے باعث ملک کی آبادی کی اکثریت غربت کا شکار ہوکر رہ گئی ہے غربت کے باعث لاکھوں بچے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اپنے گھر کا خرچ چلانے کے لیے کام کاج کرنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران گروتھ ریٹ میں شاندار اضافے کا بھی چرچا کیا جاتا رہا۔
لیکن پٹرولیم مصنوعات، بجلی گیس سے لے کر آٹا اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی بے تحاشا اضافہ ہی ہوا ہے، لوگوں کی قوت خرید گھٹتی چلی گئی اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ معاشی منصوبہ ساز یہی سمجھتے رہے کہ معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن ملک میں جہاں غربت بڑھ رہی تھی وہیں صحت کی سہولیات کا فقدان ہوتا چلا جا رہا تھا۔ صحت و صفائی کی ناقص سہولتیں بڑھتی چلی جا رہی تھیں، بھوک اپنے پنجے گاڑھ رہی تھی۔ صاف پانی کی قلت بڑھتی چلی جا رہی تھی، ملک میں تھر اور چولستان جیسے المیے جنم لے رہے تھے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک سبب یہ تھا کہ مختلف مد کے تحت حکومت پٹرول فروخت کرکے ٹیکس بھی اکٹھا کر رہی تھی۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت میں کمی کے باوجود حکومت اپنے خزانے کو بھرنے کی خاطر پٹرول کی عالمی قیمت کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا رہی تھی۔
ملک میں غربت کا منحوس چکر اسی لیے چل پڑا تھا کہ جہاں ایک طرف بے روزگاری بڑھتی جا رہی تھی جس کے باعث بیروزگاروں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا ان کی جیب خالی تھی اور جو لوگ چھوٹا موٹا روزگار کے ذریعے محدود یا کم آمدن حاصل کر رہے تھے مہنگائی کے باعث ان کی قوت خرید جواب دے رہی تھی اور ان کی جیبیں خالی ہو رہی تھیں۔ ملک میں غربت کے منحوس چکر کے باعث لوگوں کی آمدنیاں بھی کم ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ ملک میں آمدنی کی تقسیم میں ناہموار بڑھتی چلی گئی۔ امیر طبقہ اپنی بچتوں کو صنعتوں کارخانوں میں نہیں لگا رہا تھا۔ صنعتی پیداوار کم ہو رہی تھی کیونکہ آئی ایم ایف کے دباؤ کے تحت بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پیداواری لاگت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ لہٰذا ملکی صنعتکار اپنی صنعتیں بیرون ملک شفٹ کر رہے تھے یا پھر اپنی بچتوں کو غیر پیداواری کاموں میں صرف کر رہے تھے۔
صنعتکاری کے بجائے تجارت سٹہ بازی پلاٹوں زمینوں کی خرید غیر ملکی کرنسیوں کی خریداری اور بانڈز وغیرہ کی خریداری میں اپنی بچت صرف کرتے چلے جا رہے تھے۔ اور کم آمدن والوں کی معمولی بچت بھی اب ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ بچت کے بجائے ان پر قرض کا بار بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ ہر صاحب خانہ جوکہ کم آمدن یا محدود آمدن یا تنخواہ دار طبقہ سے تعلق رکھتا تھا اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہر ماہ قرض حاصل کرنے لگ گیا تھا۔ ان میں سرکاری ملازمین کی بھی حالت ناگفتہ تھی۔ کیونکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات اور مسلسل بڑھتے ہوئے ٹرانسپورٹ کے اخراجات کرایہ مکان جوکہ ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔ میڈیکل کے اخراجات میں مسلسل اضافہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے ان کو بھی مسلسل مقروض بنا کر رکھ دیا ہے۔
آیندہ بجٹ میں حکومت کو ان ملازمین کی اشک شوئی کے لیے مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی قوت خرید میں اضافہ ہو۔ کیونکہ قوت خرید میں اضافہ ہوگا تو طلب میں اضافہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تنخواہ دار طبقہ چاہے وہ سرکاری ملازمین ہوں یا پرائیویٹ اداروں کے ملازمین ہوں ان کی تنخواہوں میں لازمی اضافہ ہونا چاہیے تاکہ غربت میں اضافے کو کسی حد تک روکا جاسکے۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت پٹرولیم مصنوعات آٹا، بجلی گیس کی قیمتوں میں کمی لے کر آئے تاکہ مہنگائی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوسکے۔