تعلیمی بجٹ میں دوگنا اضافہ
تعلیمی معیار میں اضافے کی تاریخ رقم کرنے والا ادارہ ایچ ای سی بھی آج ایڑیاں رگڑ رہا ہے ۔۔۔
اس وقت سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون، یو این اوکے سیکریٹری تعلیم کے خصوصی ایلچی برائے تعلیم و تربیت و اعلیٰ تعلیم، ورلڈ بینک کی ایم ڈی اور دیگر قومی اور بین الاقوامی شخصیات پاکستان میں موجود ہیں جن کا فوکس پاکستان میں تعلیم پر ہے۔ وزیراعظم نے ملک بھر میں تعلیم کے لیے نئے حکومتی منصوبے کے آغاز کا اعلان کردیا ہے، اسلام آباد میں منعقدہ عالمی تعلیمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم کے لیے قومی آمدنی کا 4 فیصد مختص کرنے کا اعلان کیا جو انتہائی خوش آیند اقدام ہے۔ ''تعلیم کا نا مکمل ایجنڈ ترقی کا زینہ'' کے عنوان سے اس کانفرنس کا انعقاد وزارت تعلیم و تربیت اور اعلیٰ تعلیم نے کیا تھا کانفرنس میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندہ برائے تعلیم اور سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن برائون کے علاوہ وزیراعظم، وزارت تعلیم اور خزانہ کے وزرا اور اعلیٰ شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہاکہ میرا یہ خواب ہے کہ پاکستان کا ہر شہری حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ ہو اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
تعلیم سرمایہ کا زیاں نہیں بلکہ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے، انھوں نے کم تعلیمی بجٹ، اسکولوں سے بچوں کے انخلا، کم شرح خواندگی اور تعلیم سب کے لیے کے اہداف پر عمل نہ ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو آگے لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریںگے، خواندگی کی موجودہ شرح 58 فیصد کو آیندہ تین سالوں میں 100 فیصد تک پہنچایا جائے گا، یو این او کے خصوصی نمایندہ برائے تعلیم اور گورڈن برائون نے کہا کہ پاکستان میں کروڑوں بچوں کا اسکول نہ جانا تشویشناک ہے۔ 2015 تک ''تعلیم سب کے لیے'' کی پالیسی پر عمل ہونا چاہیے، انھوں نے کہاکہ تعلیم کے لیے یورپی یونین 10 کروڑ، امریکا 14 کروڑ اور اقوام متحدہ 15 کروڑ ڈالر دے گی۔ اگلے تین چار سال میں پاکستان کو تعلیم کے لیے عالمی برادری کی طرف سے کئی ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 60 سالوں میں ایک فیصد سے 1.8 فیصد تک پہنچنے والے تعلیمی بجٹ میں اچانک دوگنا سے زیادہ اضافہ یقینا ایک انقلابی اقدام ہے اور عالمی اداروں کی جانب سے ملنے والی خطیر رقوم بھی تعلیم کے شعبے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم پر توجہ کی ضرورت ہے تاکہ فارغ التحصیل علمی صلاحیتوں کے بھی مالک ہوں۔
تعلیمی معیار کو قائم کرنے کے لیے ان عوامل کا تدارک کرنا ہوگا جو ناسور کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور جنھیں قابو کرنے میں تمام حکومتیں ناکام رہی ہیں بلکہ ان کی صفوں میں موجود افراد ان کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کرتے اور خود بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں گھوسٹ اسکولوں کا مسئلہ کافی پرانا اور لا علاج ہوچکا ہے۔ کاغذوں میں اسکول اساتذہ و عملہ موجود ہے لیکن حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کافی تعداد میں اسکول وڈیروں کی اوطاقیں بن چکی ہیں، جن کی طرف شکایتوں کے باوجود کسی ارباب اختیار کی نظر اٹھانے کی جرأت نہیں ہے۔ بہت سے اسکول خستہ حال اور خال ہونے کی وجہ سے نشیوں اور دیگر سماج دشمن عناصر کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ سرکاری ڈیوٹیاں بھی تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور عملے سے لی جاتی ہیں جس کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کے طلبا کی تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اسی بنا پر لوگوں کا رجحان ٹیوشن سینٹر اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی جانب بڑھ رہا ہے جنھوں نے تعلیم کے شعبے کو خدمت کی بجائے لوٹ مار اور تجارت کا ذریعہ بنالیا ہے ان میں سے اکثر میں سرکاری اسکولوں کے برابر سہولیات بھی نہیں ہوتیں ان کے اساتذہ کا تعلیمی معیار سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ سے بہت کم ہوتاہے۔ یہ تعلیمی ادارے محکمہ تعلیم کے قواعد اور ضوابط کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اگر طلبا، والدین یا خود اساتذہ محکمہ تعلیم کو ایسے اداروں کی شکایت کریں تو اس پر متعلقہ ادارے کوئی تادیبی کارروائی نہیں کرتے بلکہ شکایت کنندہ کو ہی اتنا زچ کردیا جاتاہے کہ وہ خود اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے۔ ان نجی تعلیمی اداروں کا نصاب، معیار، فیس سب سے مختلف ہوتے ہیں ان کے امتحانات بھی مختلف تعلیمی بورڈوں سے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف سطحی اور طبقاتی تعلیمی نظام جڑ پکڑ چکا ہے جو طلبا کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کی حق تلفی کے مترادف ہے لیکن ان مسائل کی طرف ارباب اقتدار اور اختیار کبھی متوجہ نہیں ہوئے کیوں کہ شاید ان کی نظر میں تعلیم کی اہمیت ان کی اپنی ذات کے لیے بھی نہیں ہے جبھی تو دو سو اراکین پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی پائی گئیں جن میں خود وفاقی وزیر تعلیم بھی شامل تھے۔
اراکین اسمبلی کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کرنے والوں کے درمیان محض میٹرک تعلیم کے حامل کو وزارت تعلیم کا قلم دان سونپ دیاگیا اور ایسا ایک سے زائد بار ہوچکا ہے، اقربا پروری، سیاسی اثر و رسوخ اور قانون سے بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ جعلی اسناد کے حامل کئی پائلٹ سامنے آنے پر کوئی ان کا بال بیکا نہ کرسکا، پچھلے سال سی ایس ایس کے امتحانات کے حوالے سے ایک سنسنی خیز اسکینڈل سامنے آیا تھا جس کے مطابق سی ایس ایس امتحانات میں شامل بعض امیدواروں نے پوسٹ آفس کے اہلکاروں کی ملی بھگت اور بھاری رشوت کے ذریعے امتحانی پرچوں کا پارسل لے لیا تھا اور ان کی مہر توڑ کر جوابی کاپیوں میں تبدیلی کرکے اور درست جواب لکھ کر واپس بھجوا دیا تھا۔ جس کی وجہ سے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں اس واقعے کی تصدیق بھی ہوگئی تھی اور اس معاملے کو ایف آئی اے کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا تھا۔
تعلیمی معیار میں اضافے کی تاریخ رقم کرنے والا ادارہ ایچ ای سی بھی آج ایڑیاں رگڑ رہا ہے جسے پچھلے دور حکومت میں ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور دیگر قومی اداروں کی طرح قومی افق پر اس کا وجود سپریم کورٹ کا مرہون منت ہے اس ادارے کی فعالیت اور بقا کے لیے ڈاکٹر عطا الرحمن بلاشبہ ایک معلم، ایک مبلغ اور ایک مجاہد کا کردار ادا کر رہے ہیں انھوں نے ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے علاوہ پی ٹی آ ئی اور ایم کیو ایم اور سپریم کورٹ کی مدد سے اس ادارے کو ختم ہونے سے بچانے کی بھرپور کوششیں کیں اور اب پھر نواز حکومت سے اس ادارے کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کی اپیل کی ہے اور اس سلسلے میں اپنی ماہرانہ تجاویز پیش کی ہیں۔
اب جب کہ وزیر اعظم نواز شریف نے تعلیم کے لیے انقلابی قسم کا اقدام اٹھایا ہے اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان کا ہر شہری حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ ہو اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے تو انھیں تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنے سے زیادہ اس بجٹ کو صحیح طور پر اور قومی ترجیحات کے مطابق استعمال کرنے کے پہلو پر غور کرنا چاہیے اور تعلیم کے شعبے میں سرگرم مافیا کی سرکوبی کرنے کے ساتھ ساتھ ان قدیمی برائیوں اور کوتاہیوں کے تدارک کی سبیل نکالنی چاہیے جو تعلیم اور طالب علموں دونوں کا استحصال کر رہی ہیں ورنہ تعلیمی بجٹ میں دو گنا اضافے کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوپائیں گے۔