ایک اجنبی سفر

لطف کی بات یہ ہے کہ زندگی کی یہ ریل ہمارے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نہیں کرتی

Amjadislam@gmail.com

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بار بھی سالِ نو کے حوالے سے سیکڑوں تہنیتی پیغامات، دعائیں اور اسی حوالے سے بہت سی دلچسپ اور خیال افروز وڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں،احباب کی ان انتہائی قیمتی اور خوبصورت دعاؤں کا اثر ہے کہ اس بے یقینی اور مایوسی کے موسم میں بھی نہ صرف دل کو حوصلہ ملا بلکہ ربِ کریم کا شکر بھی پورے زور شور سے لہو میں لہریں لینے لگا۔

سب سے زیادہ لطف عزیزی قمر رضا شہزاد کی زندگی اور ریل کے سفر کی مطابقتوں پر استوار ایک ایسی وڈیو نے دیا جس پر میں دو تین برس پہلے ایک کالم بھی لکھ چکا تھا مگر پتہ نہیں کیوں اس بار اس کے کئی ایک ایسے مطالب بھی سامنے آئے جو شاید اس سے پہلے نظر انداز ہوگئے تھے۔

لطف کی بات یہ ہے کہ زندگی کی یہ ریل ہمارے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نہیں کرتی بلکہ یہ محفوظ انسانی تاریخ سے بھی ہزاروں لاکھوں سال قبل سے اس سفر پر رواں دواں ہے سو ہم نہ تو اس کے پہلے مسافر ہیں اور نہ ہی ہمارے اترنے کے بعد اس کے سفر اور رفتار پر کوئی فرق پڑے گا جن سیٹوں پر آج ہم بیٹھے ہیں نجانے کب سے لوگ ان پر بیٹھتے اور اپنے ہم سفروں سے متعارف ہوتے چلے آرہے ہیں اور ایک دن ہم بھی اپنا اسٹیشن آنے پر ان کو نئے آنے والوں کے لیے خالی کردیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

اس کے آخری اسٹیشن اور مسافر کا علم کسی معمے سے کم نہیں کہ عملی طور پر جس طرح ہر مسافر کے لیے اس کے اُترنے کا اسٹیشن آخری ہے اُسی طرح ہر اسٹیشن کے لیے بھی ہر اُترنے والا مسافر اس اعتبار سے آخری ہوتا ہے کہ دونوں پھر کبھی ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گے صرف اُن کی یادیں چھوڑے ہوئے ڈبوں میں چکراتی رہیں گی یہ اور بات ہے کہ بعد میں آنے والوں کو نہ وہ دکھائی دیں گی نہ سنائی۔

زندگی کی اس ٹرین کی پٹری ، سگنل ، اسٹیشن ، رستوں کے مناظر، مسافر ، ہم سفر آگے گئے ہوئے ، بعد میں آنے والے سب ایک تحیر میں گم ہیں جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ہم آپ جو اس سارے عمل کو ایک عالم گیر حیرت کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک ایسی ہمہ گیر ذات پر یقین رکھتے ہیں جو اس پوری کائنات کے ساتھ ساتھ اس ریل کے سفر کی بھی موجد اور مالک ہے جو بیک وقت ماضی،حال اور مستقبل میں رواں دواں ہیں ہمارے پاس ان سب سوالوں کے علامتی نوعیت کے جواب موجود ہیں مگر وہ خلقِ خدا جو اسے محض ایک بے نام تحیرکی صورت میں دیکھتی اور جانتی ہے اُس کے لیے یہ ریل کا سفر یقیناً اس خوش نما پہیلی کی طرح ہے جسے اس وڈیو میں پیش کیا گیا ہے۔

یہ وڈیو کب بنی اس کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن آج سے تقریباً نصف صدی قبل میں نے ایک اجنبی سفر کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی اُسے اس وڈیو کے تناظرمیں دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا تو یوں لگا جیسے ان دونوں باتوں میں کوئی ایسا خفیہ تعلق ہے جس کا نہ مجھے تب پتہ تھا نہ اب ہے ۔

شعری اور تخیلاتی امیجز کس طرح زندگی کے غائب اور ظاہر مظاہر کو ایک ایسی شکل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو خود شاعر پر بھی پوری طرح سے روشن نہیں ہوتیں اس بات کی تائید اور وضاحت کے لیے آیئے! ایک بار پھر یہ نظم ایک ساتھ مل کر پڑھتے ہیں۔

ایک اجنبی سفر

یہ ریل گاڑی

جو جانے بوجھے ہوئے سفر پر رواں دواں ہے

اُسے پتہ ہے کہ اس کی منزل

اسی سفر میں کہیں نہاں ہے

یہ اپنے رستے پہ گامزن ہیں

اور اس میں بیٹھے ہوئے مسافر بھی

اپنے رستوں پہ جارہے ہیں

عجب قصہ ہے ایک گاڑی کے سب مسافر ہیں

پھر بھی اپنی جگہ پہ ہر ایک کارواں ہے

 

میں اپنی کھڑکی سے لگ کر بیٹھے، گزرتے پیڑوں کو

سبز کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسانوں کو جوہڑوں کو

بھرے ہوئے ا ور خشک نالوں کو ، بادلوں کو


مویشیوں اور پاس آتے ہوئے اسٹیشن کے

سرخ سگنل کو دیکھتا ہوں

یہی مناظر ہر ایک کھڑکی سے لگ کے بیٹھے

ہوئے مسافر کے واسطے ہیں

اگر وہ دیکھے!

میں چاند جیتے ہوئے زمانے کا آدمی ہوں

مگر میں اُن میں نہیں ہوں جن کے

قدم خلاؤں کو چھوکے آئے

(ہم اپنی دنیا کے آدمی ہیں مگر یہ دنیا

''ہماری'' دنیا سے مختلف ہے''

عجیب قصہ ہے

اپنے ہونے کو جانتے ہیں پر اجنبی ہیں

اسی طرح جیسے گِرد بیٹھے ہوئے مسافر

مرے سفر کے شریک بھی ہیں ، پر اجنبی ہیں

یہ اجنبیت کا زرد نقطہ

جو میری آنکھوں سے گِرد بیٹھے ہوؤں کی آنکھوں میں پھیلتا ہے

وہ دائرہ ہے

جو میرے ڈبے سے ریل گاڑی کے باقی ڈبوں

وہاں سے میرے اداس گھر تک وہاں سے شہروں

صغیر قوموں کبیر ملکوںکی بے نام وسعتوں تک چلا گیا ہے

کوئی نہیں جو مجھے بتائے

میں اجنبیت کے دائرے میں کہاں کھڑا ہوں؟
Load Next Story