پاکستان ریلوے بہتری کی طرف ایک قدم
افسران کی فوج ظفر موج میں کمی کرکے پروفیشنل انجینئر اور ٹیکنیکل آفیسر مقرر کیے جائیں
ریلوے کی کارکردگی میں بتدریج بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہوگئے ہیں، پچھلے دس برس میں ریلوے بدانتظامی کا شکار رہی۔ میرا پاکستان ریلوے سے گہرا تعلق رہا ہے بحیثیت ریلوے اسٹور بکنگ ریزرویشن کلرک ٹکٹ چیکر کی حیثیت سے 35 سال سے زائد ملازمت کی۔ میں نے ریلوے کو بہت بہتر حالات میں دیکھا جب ٹرینیں وقت پر آتی اور جاتی تھیں بڑے بڑے ویٹنگ روم، ریفریشمنٹ روم، مسافروں کے لیے ریٹایٹرنگ روم، ہر ٹرین میں پانی پلانے کا نظام، ہر ٹرین میں سرونٹ کا الگ ڈبہ، بہترین ڈائننگ کاریں، کھانے پینے کا بہتر نظام، کراچی کیماڑی ایسٹ وہارف اور ویسٹ وہارف سے اندرون ملک گڈز ٹرینوں کی روانگی، ان مال گاڑیوں میں 65 یا پھر 72 ڈبے ہوا کرتے تھے اور یہ مال گاڑیاں کراچی سے 15 تا 16 ٹرینیں روزانہ کی بنیاد پر چلا کرتی تھیں۔ اس وقت صرف کیماڑی سے تقریباً ایک کروڑ روپے کی ارننگ (آمدنی) روزانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی میں بحیثیت گڈزکلرک کام کرتا تھا۔ ریلوے کی زیادہ تر آمدنی کا انحصار فریٹ ٹرینوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔ یہ ادارہ 1975-76 تک منافعے میں چل رہا تھا ملازمین کو بھی سہولتیں میسر تھیں۔
مسافر حضرات بھی ریلوے میں ہی سفر کو ترجیح دیتے تھے انھیں بھی سہولتیں حاصل تھیں۔ ریلوے کی پہلی تباہی کی بنیاد ضیا الحق کے دور میں ان کے ایک وفاقی وزیر ریلوے سعید قادر کے دور سے شروع ہوئی جس نے ریلوے کے فریٹ سسٹم کا بیڑہ غرق کیا اور اس کے مقابلے کے لیے ایک لاجسٹک سیل کو لاکھڑا کیا۔ اس طرح مال گاڑیوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ ریلوے کا بجٹ قومی بجٹ سے الگ ہوا کرتا تھا حکومت بھی مدد کرتی تھی پھر ریلوے بجٹ کو قومی بجٹ میں ضم کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ریلوے میں ہر 10 یا 20 سال کے بعد نئے انجن امریکا، جرمنی یا جاپان سے آیا کرتے تھے۔ سو ریلوے چلتی رہتی تھی۔ بعد میں آنیوالی محترمہ بے نظیربھٹو کی دو حکومتیں اور پھر بعد کی حکومتوں میں ریلوے مزید تباہی کی طرف چل پڑی نئے انجن نہیں آئے۔ گاڑیاں لیٹ ہونا شروع ہوگئیں انجنوں کی کمی ہونے لگی، کرپشن اور لوٹ مار بڑھ گئی، ریزرویشن ملنا مشکل ہوگیا، حکومتی امداد بند ہو گئی اور ریلوے اسٹیٹ بینک سے 20 ارب کا مقروض ہو گیا۔
1999 میں پھر پرویز مشرف آگئے۔ خیر انھوں نے ریلوے پر خصوصی توجہ دی اور کئی ارب روپے ریلوے کو ٹھیک کرنے کے لیے دیے۔ مگر ان کے ہی ایک ساتھی جاوید اشرف قاضی کو پہلے ریلوے کا چیئرمین بنایا گیا۔ بعد میں وہ ریلوے کا وزیر بن گیا جو اپنے ساتھ ویجیلنس اور مانیٹرنگ کی ٹیمیں لے کر آگیا اور مکمل طور پر ریلوے پر اس کے حامیوں نے قبضہ کرلیا۔ انھوں نے ریلوے کا مزید بیڑہ غرق کردیا۔ چین سے 69 ناکارہ انجن خرید لیے گئے اور 75 انجنوں کا آرڈر دے دیا گیا 175 پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ پلیٹ فارم کاٹے گئے۔ 40 انجن ایک سال بعد خراب ہوگئے، ورکشاپوں میں کام روک دیا گیا۔ کرپشن اور لوٹ مار کا سلسلہ زور شور سے جاری کردیا گیا۔ بھرتیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ 1990 سے 10 سالوں میں 38 ہزار ملازمین ریٹائرڈ ہوگئے تھے یہ پوسٹیں ختم کردی گئیں۔ ملازمین کو جبری برطرف جبری ریٹائرڈ کردیا۔ ریلوے مزید خراب ہونا شروع ہوگئی بعد میں 75 انجن بھی چین سے نہ آسکے حکومت اور ریلوے انتظامیہ کی جانب سے ناقص انجنوں کی خریداری پر مقدمہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت پر 27 دسمبر 2007 میں تین دن تک ریل گاڑیاں بند رہیں ریلوے کے 65 اسٹیشن جلا دیے گئے18 انجنوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ 150 بوگیوں کو نذر آتش کیا گیا اس طرح ریلوے کو 11 ارب کا نقصان ہوا۔ ریلوے کا وزیر غلام احمد بلور کو بنایا گیا جس نے ریلوے کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا اور 400 انجن منگوانے کا اعلان کردیا ۔ 400 انجن کبھی ریلوے کے پاس نہیں آئے۔اس طرح ریلوے میں انجنوں کا بحران پیدا ہوگیا۔ کئی مسافر ٹرینیں بند کردی گئیں مال گاڑیاں برائے نام رہ گئیں بلکہ بند کردی گئیں۔ ریلوے ڈیزل تیل کا بحران بھی آیا۔ انجن فیل ہونا شروع ہوگئے۔ ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن ملنا بھی دشوار ہوگئیں۔ قصہ مختصر کہ پاکستان ریلوے ایک مرتبہ پھر سست روی کا شکار ہوگئی اب ہم تازہ صورتحال کی طرف آتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت نے قومی اداروں کی تباہی کا نوٹس لیا۔ PIA، پاکستان اسٹیل، پاکستان ریلوے کے بارے میں غور کیاگیا اور ریلوے کا وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو بنادیا گیا۔
انھوں نے تباہ حال ریلوے کو بہتر بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ میں ریلوے کو تین سال میں پاؤں پر کھڑا کرکے منافع بخش ادارہ بنادوں گا اور کسی بھی صورت میں ریلوے کی نجکاری نہیں ہونے دوں گا۔ اگر ایسا نہ کرسکا تو استعفیٰ دے کر سیاست سے ریٹائرڈ ہوجاؤں گا۔ یہ اچھا اعلان ہے ریلوے ملازمین کے علاوہ پاکستان کے شہریوں کے لیے بھی اب ریلوے بہتر ہوجائے گی۔ انجن آنا شروع ہوگئے ہیں۔ 10 انجن کوریا سے آگئے ہیں جو ریلوے کے تحت مال گاڑیاں چلائیں گے۔جب کہ 58 انجن نئی کمپنی کے تحت چائنا سے اسی سال 2014 میں آجائیں گے جس کی پہلی کھیپ 5 اپریل کو آنا شروع ہوجائے گی جس میں 5 انجن آئیں گے بعد میں 15 انجن اپریل کے آخر تک آجائیں گے اس طرح 58 انجن آجائیں گے جس کی وجہ سے مال گاڑیاں چلنا شروع ہوجائیں گی۔
ریلوے کی آمدنی بڑھ جائے گی جب کہ 150 انجن امریکا سے بھی منگوائے جارہے ہیں۔ اگر 10 انجن کوریا، 50 انجن چین سے اور 150 انجن امریکا سے آگئے اور پھر 150 انجن ہمارے ملک میں مرمت کے بعد آگئے تو ریلوے چل پڑے گی اور ریلوے اب بھی چل رہی ہے اب مسافر ٹرینیں وقت پر جا رہی ہیں وقت ہی پر آرہی ہیں۔ گھنٹوں تاخیر کا ہدف ختم ہوگیا ہے۔ خسارہ کم ہو رہا ہے کرائے بھی 40 فیصد کم کردیے گئے ہیں سروس بہتر ہو رہی ہے کرپشن میں کمی آرہی ہے۔ سیاسی مداخلت بھی رک گئی۔ نئی بھرتی بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ اچھے تجربہ کار چیف آفیسرز مقرر کیے جارہے ہیں۔ ریلوے زمینوں کی بندربانٹ ختم کردی گئی ہے۔ ناجائز قابضین سے زمینیں خالی کرانے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی بزنس ایکسپریس ٹرین جوکہ 40 کروڑ کی مقروض ہے اس کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کی شنید ہے۔ ایک لاجسٹک کمپنی کو مال گاڑیاں (فریٹ ٹرین) چلانے سے روکنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تازہ ترین خبروں میں مسافروں کی انشورنس پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ نئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ دیکھیں ان پر عمل درآمد ہوجائے۔
آیندہ ماہ تک مال گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا جس سے ریلوے مزید بہتر ہوگی اس سلسلے میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے کہیں گے کہ وہ ریلوے کا چیئرمین کسی ایسے شخص کو بنائیں جس کو ریلوے کا تجربہ ہو۔ ریلوے کے تمام پروجیکٹ ختم کیے جائیں۔ جن میں پراکس نامی ادارہ، ریل کوپ، Rehabilitation ، ریلوے زمینوں کی خرید و فروخت کا ادارہ، ریلوے سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ، نج کاری کا خاتمہ ان اداروں خاص کر پراکس کے ملازمین اور افسران کو ریلوے میں ضم کردیا جائے، ریلوے از خود پورے ملک میں بکنگ ریزرویشن کرے، کمیشن مافیا کا خاتمہ، بلیک مافیا کا خاتمہ، ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانچ پڑتال، ریلوے واچ اینڈ وارڈ قائم کیا جائے ، ریلوے پولیس کا بوجھ ختم کیا جائے۔
افسران کی فوج ظفر موج میں کمی کرکے پروفیشنل انجینئر اور ٹیکنیکل آفیسر مقرر کیے جائیں ہر ڈویژن میں ایک ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ D.S ایک جنرل منیجر، ایک چیئرمین ایک وزیر مقرر کیا جائے۔ ریلوے کا اپنا بجٹ مقرر کیا جائے۔ بند کی گئی تمام مسافر ٹرینیں چلائی جائیں، برانچ لائن پر ٹرینوں کو حرکت میں لایا جائے۔ اس طرح ریلوے کی شہری اور دیہی زمینوں کو بھی حرکت میں لایا جائے۔ ریلوے میں ملازمین کی یونین ریفرنڈم کے ذریعے منتخب کی جائے دو یونینوں کا نظام رائج کیا جائے۔ ریلوے کے 50 ایماندار افسر اہم عہدوں پر لگائے جائیں ریلوے کے 80 ہزار ملازمین دن رات محنت کر کے ریلوے کو ایک فعال، مضبوط اور منافع بخش ادارہ بنا دیں گے۔
مسافر حضرات بھی ریلوے میں ہی سفر کو ترجیح دیتے تھے انھیں بھی سہولتیں حاصل تھیں۔ ریلوے کی پہلی تباہی کی بنیاد ضیا الحق کے دور میں ان کے ایک وفاقی وزیر ریلوے سعید قادر کے دور سے شروع ہوئی جس نے ریلوے کے فریٹ سسٹم کا بیڑہ غرق کیا اور اس کے مقابلے کے لیے ایک لاجسٹک سیل کو لاکھڑا کیا۔ اس طرح مال گاڑیوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ ریلوے کا بجٹ قومی بجٹ سے الگ ہوا کرتا تھا حکومت بھی مدد کرتی تھی پھر ریلوے بجٹ کو قومی بجٹ میں ضم کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ریلوے میں ہر 10 یا 20 سال کے بعد نئے انجن امریکا، جرمنی یا جاپان سے آیا کرتے تھے۔ سو ریلوے چلتی رہتی تھی۔ بعد میں آنیوالی محترمہ بے نظیربھٹو کی دو حکومتیں اور پھر بعد کی حکومتوں میں ریلوے مزید تباہی کی طرف چل پڑی نئے انجن نہیں آئے۔ گاڑیاں لیٹ ہونا شروع ہوگئیں انجنوں کی کمی ہونے لگی، کرپشن اور لوٹ مار بڑھ گئی، ریزرویشن ملنا مشکل ہوگیا، حکومتی امداد بند ہو گئی اور ریلوے اسٹیٹ بینک سے 20 ارب کا مقروض ہو گیا۔
1999 میں پھر پرویز مشرف آگئے۔ خیر انھوں نے ریلوے پر خصوصی توجہ دی اور کئی ارب روپے ریلوے کو ٹھیک کرنے کے لیے دیے۔ مگر ان کے ہی ایک ساتھی جاوید اشرف قاضی کو پہلے ریلوے کا چیئرمین بنایا گیا۔ بعد میں وہ ریلوے کا وزیر بن گیا جو اپنے ساتھ ویجیلنس اور مانیٹرنگ کی ٹیمیں لے کر آگیا اور مکمل طور پر ریلوے پر اس کے حامیوں نے قبضہ کرلیا۔ انھوں نے ریلوے کا مزید بیڑہ غرق کردیا۔ چین سے 69 ناکارہ انجن خرید لیے گئے اور 75 انجنوں کا آرڈر دے دیا گیا 175 پیسنجر کوچز خریدی گئیں۔ پلیٹ فارم کاٹے گئے۔ 40 انجن ایک سال بعد خراب ہوگئے، ورکشاپوں میں کام روک دیا گیا۔ کرپشن اور لوٹ مار کا سلسلہ زور شور سے جاری کردیا گیا۔ بھرتیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ 1990 سے 10 سالوں میں 38 ہزار ملازمین ریٹائرڈ ہوگئے تھے یہ پوسٹیں ختم کردی گئیں۔ ملازمین کو جبری برطرف جبری ریٹائرڈ کردیا۔ ریلوے مزید خراب ہونا شروع ہوگئی بعد میں 75 انجن بھی چین سے نہ آسکے حکومت اور ریلوے انتظامیہ کی جانب سے ناقص انجنوں کی خریداری پر مقدمہ سپریم کورٹ میں چلا گیا۔
بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی محترمہ بے نظیربھٹو کی شہادت پر 27 دسمبر 2007 میں تین دن تک ریل گاڑیاں بند رہیں ریلوے کے 65 اسٹیشن جلا دیے گئے18 انجنوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ 150 بوگیوں کو نذر آتش کیا گیا اس طرح ریلوے کو 11 ارب کا نقصان ہوا۔ ریلوے کا وزیر غلام احمد بلور کو بنایا گیا جس نے ریلوے کو مزید تباہی کی طرف دھکیل دیا اور 400 انجن منگوانے کا اعلان کردیا ۔ 400 انجن کبھی ریلوے کے پاس نہیں آئے۔اس طرح ریلوے میں انجنوں کا بحران پیدا ہوگیا۔ کئی مسافر ٹرینیں بند کردی گئیں مال گاڑیاں برائے نام رہ گئیں بلکہ بند کردی گئیں۔ ریلوے ڈیزل تیل کا بحران بھی آیا۔ انجن فیل ہونا شروع ہوگئے۔ ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن ملنا بھی دشوار ہوگئیں۔ قصہ مختصر کہ پاکستان ریلوے ایک مرتبہ پھر سست روی کا شکار ہوگئی اب ہم تازہ صورتحال کی طرف آتے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت نے قومی اداروں کی تباہی کا نوٹس لیا۔ PIA، پاکستان اسٹیل، پاکستان ریلوے کے بارے میں غور کیاگیا اور ریلوے کا وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کو بنادیا گیا۔
انھوں نے تباہ حال ریلوے کو بہتر بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ میں ریلوے کو تین سال میں پاؤں پر کھڑا کرکے منافع بخش ادارہ بنادوں گا اور کسی بھی صورت میں ریلوے کی نجکاری نہیں ہونے دوں گا۔ اگر ایسا نہ کرسکا تو استعفیٰ دے کر سیاست سے ریٹائرڈ ہوجاؤں گا۔ یہ اچھا اعلان ہے ریلوے ملازمین کے علاوہ پاکستان کے شہریوں کے لیے بھی اب ریلوے بہتر ہوجائے گی۔ انجن آنا شروع ہوگئے ہیں۔ 10 انجن کوریا سے آگئے ہیں جو ریلوے کے تحت مال گاڑیاں چلائیں گے۔جب کہ 58 انجن نئی کمپنی کے تحت چائنا سے اسی سال 2014 میں آجائیں گے جس کی پہلی کھیپ 5 اپریل کو آنا شروع ہوجائے گی جس میں 5 انجن آئیں گے بعد میں 15 انجن اپریل کے آخر تک آجائیں گے اس طرح 58 انجن آجائیں گے جس کی وجہ سے مال گاڑیاں چلنا شروع ہوجائیں گی۔
ریلوے کی آمدنی بڑھ جائے گی جب کہ 150 انجن امریکا سے بھی منگوائے جارہے ہیں۔ اگر 10 انجن کوریا، 50 انجن چین سے اور 150 انجن امریکا سے آگئے اور پھر 150 انجن ہمارے ملک میں مرمت کے بعد آگئے تو ریلوے چل پڑے گی اور ریلوے اب بھی چل رہی ہے اب مسافر ٹرینیں وقت پر جا رہی ہیں وقت ہی پر آرہی ہیں۔ گھنٹوں تاخیر کا ہدف ختم ہوگیا ہے۔ خسارہ کم ہو رہا ہے کرائے بھی 40 فیصد کم کردیے گئے ہیں سروس بہتر ہو رہی ہے کرپشن میں کمی آرہی ہے۔ سیاسی مداخلت بھی رک گئی۔ نئی بھرتی بھی نہیں کی جا رہی ہے۔ اچھے تجربہ کار چیف آفیسرز مقرر کیے جارہے ہیں۔ ریلوے زمینوں کی بندربانٹ ختم کردی گئی ہے۔ ناجائز قابضین سے زمینیں خالی کرانے کے احکامات دیے جا رہے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی بزنس ایکسپریس ٹرین جوکہ 40 کروڑ کی مقروض ہے اس کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کی شنید ہے۔ ایک لاجسٹک کمپنی کو مال گاڑیاں (فریٹ ٹرین) چلانے سے روکنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں تازہ ترین خبروں میں مسافروں کی انشورنس پالیسی بنائی جا رہی ہے۔ نئے نئے اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ دیکھیں ان پر عمل درآمد ہوجائے۔
آیندہ ماہ تک مال گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا جس سے ریلوے مزید بہتر ہوگی اس سلسلے میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے کہیں گے کہ وہ ریلوے کا چیئرمین کسی ایسے شخص کو بنائیں جس کو ریلوے کا تجربہ ہو۔ ریلوے کے تمام پروجیکٹ ختم کیے جائیں۔ جن میں پراکس نامی ادارہ، ریل کوپ، Rehabilitation ، ریلوے زمینوں کی خرید و فروخت کا ادارہ، ریلوے سے ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ، نج کاری کا خاتمہ ان اداروں خاص کر پراکس کے ملازمین اور افسران کو ریلوے میں ضم کردیا جائے، ریلوے از خود پورے ملک میں بکنگ ریزرویشن کرے، کمیشن مافیا کا خاتمہ، بلیک مافیا کا خاتمہ، ریلوے ہاؤسنگ سوسائٹی کی جانچ پڑتال، ریلوے واچ اینڈ وارڈ قائم کیا جائے ، ریلوے پولیس کا بوجھ ختم کیا جائے۔
افسران کی فوج ظفر موج میں کمی کرکے پروفیشنل انجینئر اور ٹیکنیکل آفیسر مقرر کیے جائیں ہر ڈویژن میں ایک ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ D.S ایک جنرل منیجر، ایک چیئرمین ایک وزیر مقرر کیا جائے۔ ریلوے کا اپنا بجٹ مقرر کیا جائے۔ بند کی گئی تمام مسافر ٹرینیں چلائی جائیں، برانچ لائن پر ٹرینوں کو حرکت میں لایا جائے۔ اس طرح ریلوے کی شہری اور دیہی زمینوں کو بھی حرکت میں لایا جائے۔ ریلوے میں ملازمین کی یونین ریفرنڈم کے ذریعے منتخب کی جائے دو یونینوں کا نظام رائج کیا جائے۔ ریلوے کے 50 ایماندار افسر اہم عہدوں پر لگائے جائیں ریلوے کے 80 ہزار ملازمین دن رات محنت کر کے ریلوے کو ایک فعال، مضبوط اور منافع بخش ادارہ بنا دیں گے۔