پیپلزپارٹی نے مسلح گروہ کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کردی

آئین کے اندر سب سے بات چیت ہوسکتی ہے، کسی مسلح گروہ یا جتھے سے کی حمایت نہیں کی جائے گی، پی پی سی ای سی کا فیصلہ

فوٹو اسکرین گریپ

پاکستان پیپلزپارٹی نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کو لازمی قرار دتیے ہوئے مذاکرات کی مخالفت کردی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس کے بعد سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اجلاس میں دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے لازمی اقدامات لازمی ہے، شہید محترمہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہوئی تھیں، ملک میں ایک بار پھر دہشت گرد سر اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس میں متفقہ طور پر قرار داد منظور کی گئی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو جوڈیشل قتل لکھا جائےاور گیارہ سال سے جاری اس کیس کا فیصلہ جلد از جلد سنایا جائے۔

فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ سی ای سی میں خیبرپختونخوا اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت اور ان پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جبکہ فیصلہ کیا گیا کہ مسلح لوگوں کے ساتھ کسی صورت بات نہیں کی جائے گی اور نہ ہی پیپلزپارٹی کبھی مذاکرات کی حمایت کرے گی۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ کے باہر کسی بات چیت کے حامی نہیں ہے جبکہ پی پی کی سی ای سی نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیانات کی مذمت بھی کی جس میں وہ اداروں کے خلاف الزام تراشی کررہے ہیں۔

فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے چارٹرآف ڈیموکریسی کی حمایت کی تھی اور آج بھی سیاسی و معاشی بحران کے خاتمے کے لئے اسٹیک ہولڈرز سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے درمیاں بات چیت کی حمایت کرتے ہیں، آئین کے اندر رہتے ہوئے کردار ادا کرنے کے حامی ہیں اور سیاست میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی حوصلہ شکنی کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ آج شہید بھٹوکی 96ویں سالگرہ تھی، ہم نے سی ای سی اجلاس میں شہید بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا، شہید بھٹو نے متفقہ آئین دیا، اس پرعملدرآمد اور بحالی کے لئے محترمہ بینظیربھٹو نے کردارادا کیا، یہ سال 73 کے آئین کا گولڈن جوبلی سال ہے، جس کے لیے ہم چاروں صوبوں میں تقاریب رکھیں گے'۔


اُن کا کہنا تھا کہ ہم نئی نسل کو بتائیں گے کہ اس آئین کے لئے ہماری پارٹی نے کتنی جدوجہد کی، صوبوں کوکیسے حقوق دیئے، ہم نے عوامی مارچ کرنے کافیصلہ کیا تھا، پچھے سال کے فیصلوں پر عملدرآمد ہوا، ہم نے اٹھارویں ترمیم ون یونٹ سلیکٹڈ وزیراعظم کوگھربھیجا، ان کامیابیوں میں پیپلزپارٹی نے صف اول میں کام کیا جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے غیرسیاسی رہنے کااعلان کیا جس کا ہم نے خیر مقدم کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں سب سے زیادہ خطرہ تقسیم کی سیاست سے محسوس ہورہا ہے، پیپلزپارٹی کوتقسیم کی سیاست سے نفرت ہے، ہم تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کرایک کوڈ آف کنڈکٹ پردستخط چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان میں سب مسائل رکھیں اوراس کے ذریعے ہی یہ معاملات و مسائل حل ہوں، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مجھے نہیں کھیلنے دو گے تو میں بھی نہیں کھیلنے دوں گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ آج نفرت کو ہر جگہ پہنچایا جا رہا ہے، ساری جہموری قوتوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ بنانا ضروری ہے اور پھر اس میں رہتے ہوئے تمام سیاسی جماعتیں اپنا مہم چلائیں، اسی کے ذریعے ملک کو ترقی بھی ملے گی، پیپلز پارٹی اس سلسلے میں تمام جماعتوں سے رابطہ کرے گی۔

چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں دہشت گرد اور انتہا پاکستان کے دشمن ہیں، ہمیں دہشت گردوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا ہوگا جو ایک مجرم کے ساتھ کیا جاتا ہے، اسپیکر راجہ پرویز اشرف سے مطالبہ ہے کہ وہ پارلیمان میں قومی سلامتی کا اجلاس بلائیں اور پھر ہم بیٹھ کر دہشت گردی ، انتہا پسندی کے خلاف ایک لائحہ عمل طے کریں۔

بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہم جلد انتخابات کے مخالف ہیں البتہ انتخابات اگر مقررہ وقت پر نہ ہوئے تو پھر ہم کھل کر اس کی مخالفت کریں گے اور یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ سوچ ہے تو وہ اس کو نکال دے کیونکہ پی پی ہر فورم پر انتخابات میں التوا کی کھل کر مخالفت کرے گی۔

بلاول بھٹو نے کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے دی جانے والی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں اور آئین کی مضبوطی کیلیے اپنا کام کرتے رہیں، میں ایسے کسی بھی شخص کو انسان نہیں سمجھتا جس نے ہمارے بچوں اور معصوم لوگوں کو قتل کیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم موت سے ڈرنے والے نہیں اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرتے رہے ہیں، ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے میرے ملک، مذہب کو دنیا بھر میں بدنام کیا اور عمران خان نے ان کے سہولت کار کا کردار ادا کیا، انہیں این آر او دے کر رہا کروایا اور اے پی ایس کے دہشت گرد کو بھی رہائی دلوائی۔

 
Load Next Story