اتحاد و اتفاق

موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

فوٹو : فائل

ارشادِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم پر اسلام ہی کی حالت میں موت آنی چاہیے۔

سب مل کر اﷲ کی رسّی کو تھام لو، پھوٹ نہ پیدا کرو اور اپنے اﷲ کے اس انعام کو یاد کرو کہ تم آپس میں دشمن تھے، پھر اﷲ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اﷲ کے کرم سے بھائی بھائی بن گئے، تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، تو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نکالا، اﷲ تعالیٰ اسی طرح تم لوگوں کو احکام بتاتا رہتا ہے، تاکہ تم ہدایت پر قائم رہو۔'' (سورہ آلِعمران)

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ''تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے دو بھائیوں کے درمیان میل ملاپ کرا دیا کرو۔'' (سورۃ الحجرات)

یہ نہایت ہی اہم فریضہ ہے، افسوس! اس کی اہمیت اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمے داریوں کا ادراک ہے اور نہ احساس۔ حضرت ابودردائؓ سے مروی ہے، مفہوم: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ ہم لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرنا۔

موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، قرآن مقدس اور سنت رسول اﷲ ﷺ نے جا بہ جا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، آج پوری دنیا میں اختلاف و انتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو ظلم و تعدیب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اور تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دُور ہیں، ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے، آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔

اس دور میں سیاسی انتہاء پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کم زور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہماری وقعت نہیں رہی۔ پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا پھر ہم ادب و احترام کا رشتہ ہی بھول گئے، جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جب کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے۔

دین اسلام میں اختلاف رائے جہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو کہ تم کم زور ہو جاؤ، اور تمہاری ہوا نکل جائے، اور صبر کرو بے شک! اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''

ان آیات سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ رب العزت نے ہمیں کس اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کم زور ہوجانا اور ان کی اس طاقت کا جو اتحاد امت کی وجہ سے تھی ختم ہو جانا ہے۔

تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کے عروج میں اقبال مندی و سربلندی، ترقی اور خوش حالی میں اتفاق و اتحاد، باہمی اخوت و ہم دردی اور تنزل میں آپسی اختلافات و انتشار، تفرقہ بازی، اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


قرآن و سنت اور تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بہ خوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کام یابی و کام رانی سے ہم کنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق و اتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار کا شکار ہوئے تب سے شکست اور ناکامی ان کا مقدر بن گئی۔

امت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں، نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گم راہ نہیں ہوگے ایک اﷲ کی کتاب اور دوسری میری سنّت ہے۔

بے شک! اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی و اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخ روئی کے لیے بہت اہم اور ضروری ہے۔ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم، رسول اکرم ﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بے حد احساس رہتا تھا، اتحاد کے لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔

علاقے، نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان، حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر، تحریر یا عمل سے عصبیت کی بُو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی تباہی ہے، دیا سلائی کی ایک تِیلی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے کیوں کہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقاء و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے، یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج کرتی ہے، یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی ہے۔

اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے، عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم ﷺ نے سخت الفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے۔

حدیث شریف میں وارد ہُوا ہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا اور جو عصبیت کا علم بردار ہو وہ ہم میں سے نہیں، اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو، جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضاء بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

امت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضور ﷺ نے ایک عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا، مفہوم: ''ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے پھر آپؐ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا۔'' اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ہر ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔

اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔

اﷲ تعالی ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے اور آپس میں اخوت و محبت و ہم دردی اور ملکی و ملی اور سماجی و سیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطاء فرمائے، خدا کرے کہ ہمارا کھویا ہوا شان دار ماضی ہمیں دوبارہ مل جائے اور ہم پھر سے ایک بار سربلندی و سرخ روئی سے اس دنیا میں جئیں اور جب اس دنیا سے جائیں تو اخروی کام یابی بھی ہمیں عنایت ہو۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
Load Next Story