تحفّظ ماحولیات
ہمارے گرد و نواح میں پائی جانے والی ہر چیز ہمارا ماحول کہلاتی ہے
اسلام ایک ہمہ جہت دین ہے۔ اس میں زندگی کے ہر مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہدایات و تعلیمات موجود ہیں۔ دورِ حاضر میں انسان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک ماحولیات کا ہر قسم کی آلودگی سے تحفظ بھی ہے۔
یہ مسئلہ جس قدر اہم، حساس اور توجہ طلب ہے ہمارے اہل علم احباب نے اس قدر ہی اس سے بے اعتنائی برتی ہے اور اسے اپنی تحریروں کا موضوع نہیں بنایا۔ ہمارے گرد و نواح میں پائی جانے والی ہر چیز ہمارا ماحول کہلاتی ہے۔
دنیا کے ماحولیاتی نظام کو تشکیل دینے والے بنیادی عناصر میں ہَوا، پانی، زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، دریا، جنگلات، نباتات اور حیوانات کی مختلف قسمیں شمار ہوتی ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ زندگی کی ضمانت:
روئے زمین پر موجود تمام جان داروں کی زندگی کا بالعموم اور انسانوں کی زندگی کا بالخصوص انحصار جن باتوں پر ہے ان میں ایک آلودگی سے پاک ماحول بھی ہے۔ ماحولیاتی نظام کے عناصر کو اسی توازن، ترتیب اور خوب صورتی پر برقرار رکھنا جس پہ خالق کائنات نے انھیں تخلیق کیا ہے، انسانی زندگی کی صحت و بقاء اور افزائش و نشو و نما کے لیے لازم ہے۔
اگر خدا نہ خواستہ ان تمام عناصر یا ان میں سے کچھ میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو ماحولیات کا پورا نظام شدید متاثر ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی کے اسباب:
ویسے تو ماحول اور آب و ہوا کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر دور میں رہی ہیں، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے اگر ایک طرف زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو اوج ثریا تک پہنچایا ہے تو دوسری طرف آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والے نت نئے اسباب بھی پیدا کیے ہیں۔
فیکٹریوں اور مختلف کارخانہ جات سے بلاتعطل نکلنے والے فضلات اور سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب یہاں کی فضا ہمیشہ گرد آلود رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں لوگ کھانا کم اور گرد و غبار زیادہ کھاتے ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ میں اسلامی تعلیمات:
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی حرص و ہوس اور نمود و نمائش کے بہ جائے اعتدال اور میانہ روی سے گزاری جائے۔
ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ''کھاؤ، پیو، البتہ حد سے تجاوز نہ کرو۔'' (الاعراف)
رسول کریم ﷺ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے:
''اپنے اعمال کے اندر درستی اختیار کرو، اور میانہ روی اپناؤ۔'' (بخاری)
اگر اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے دنیا ترقی کی راہ پر گام زن رہے تو ماحولیاتی نظام میں توازن بھی برقرار رہے گا اور ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا اور ساتھ ہی ترقی بھی حاصل ہوتی رہے گی۔
شجرکاری کی اہمیت:
ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ زیادہ شجرکاری کی جائے۔ فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ''اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر چیز کی روئیدگی نکالی ، پھر ہم نے اس سے سر سبز شاخیں ابھاریں۔'' (الانعام)
یہ آیت ہمیں سبزے کے اسباب یعنی درخت لگانے کی طرف توجہ دلا رہی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گھنے جنگلات ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ درختوں اور پودوں سے ایک طرف تو انسانوں کو پھل، اناج ، سایہ، ایندھن اور فرنیچر کے لیے لکڑی حاصل ہوتی، اور دوسری طرف یہی درخت ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل کو اپنے اندر جذب کرتے اور انسانوں و دیگر جان داروں کو صاف شفاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جنگلات کا یہ قدرتی تحفہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھیں اور ماحول کا توازن بھی برقرار رہے۔
جانوروں و پرندوں کا تحفّظ:
ماحولیات کے لازمی عناصر میں سے ایک عنصر جانور و پرندے بھی ہیں ۔ اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ انہیں بھی ناحق ہلاک نہ کیا جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو کسی پرندے کو بلا وجہ قتل کرے گا، وہ قیامت کے دن اﷲ کے سامنے فریاد کرتے ہوئے کہے گا کہ اے رب! فلاں نے مجھے تفریح کے طور پر قتل کیا اور کسی فائدہ کی خاطر قتل نہیں کیا۔'' ( نسائی)
اسلام ہوا و فضا کی آلودگی سے حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ مثلاً اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ ُمردوں کی تدفین کی جائے۔ اس تعلیم کا دیگر مقاصد کے ساتھ ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ُمردہ آدمی کے جسم سے پیدا ہونے والی نجاست اور بدبو سے ہوا و فضا زہر آلود نہ ہو۔
گندگی پھیلانے کی ممانعت:
اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ سرعام گندگی، بلغم ، تھوک یا قابل تنفر اشیاء وغیرہ نہ ڈالے جائیں کیوں کہ اس سے فضا مکدر اور مسموم ہو جاتی ہے۔ مسلم شریف کی حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے بلغم وغیرہ پر مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دینے کا حکم دیا ہے۔
پانی آلودہ کرنے کی ممانعت:
ہماری زندگی میں پانی کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے۔ اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ اسے آلودہ نہ کیا جائے کیوں کہ اس کے سبب سوزش جگر و معدہ جیسے بہت سے موذی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ آج پانی کی آلودگی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
صوتی آلودگی سے تحفظ:
موجودہ دور میں صوتی آلودگی بھی ماحولیات کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ صوتی آلودگی پر قابو پانے کے سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آواز نکالنے میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے اور ہر حال میں بہ قدر ضرورت ہی آواز نکالی جائے۔ موقع و محل اور ضرورت سے زیادہ آواز نکالنے کو گدھے کی آواز کی مثل مذموم قرار دیا گیا ہے۔
حرف آخر: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک ماحول دوست مذہب ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بے شک آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ماحول کی اِس قدر آلودگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن اسلام نے پھر بھی ماحولیات کے تحفظ کے لیے اپنے ماننے والوں کو قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر واضح ہدایات دی ہیں۔ جن پہ صحیح معنوں میں عمل کر کے ہم ماحولیاتی آلودگی پر بڑی آسانی سے قابو پا سکتے ہیں۔
یہ مسئلہ جس قدر اہم، حساس اور توجہ طلب ہے ہمارے اہل علم احباب نے اس قدر ہی اس سے بے اعتنائی برتی ہے اور اسے اپنی تحریروں کا موضوع نہیں بنایا۔ ہمارے گرد و نواح میں پائی جانے والی ہر چیز ہمارا ماحول کہلاتی ہے۔
دنیا کے ماحولیاتی نظام کو تشکیل دینے والے بنیادی عناصر میں ہَوا، پانی، زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، دریا، جنگلات، نباتات اور حیوانات کی مختلف قسمیں شمار ہوتی ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ زندگی کی ضمانت:
روئے زمین پر موجود تمام جان داروں کی زندگی کا بالعموم اور انسانوں کی زندگی کا بالخصوص انحصار جن باتوں پر ہے ان میں ایک آلودگی سے پاک ماحول بھی ہے۔ ماحولیاتی نظام کے عناصر کو اسی توازن، ترتیب اور خوب صورتی پر برقرار رکھنا جس پہ خالق کائنات نے انھیں تخلیق کیا ہے، انسانی زندگی کی صحت و بقاء اور افزائش و نشو و نما کے لیے لازم ہے۔
اگر خدا نہ خواستہ ان تمام عناصر یا ان میں سے کچھ میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو ماحولیات کا پورا نظام شدید متاثر ہوگا۔
ماحولیاتی آلودگی کے اسباب:
ویسے تو ماحول اور آب و ہوا کو آلودہ کرنے والی چیزیں ہر دور میں رہی ہیں، لیکن جدید صنعتی انقلاب نے اگر ایک طرف زندگی کے مختلف شعبہ جات میں انسان کو اوج ثریا تک پہنچایا ہے تو دوسری طرف آب و ہوا اور ماحول کو آلودہ کرنے والے نت نئے اسباب بھی پیدا کیے ہیں۔
فیکٹریوں اور مختلف کارخانہ جات سے بلاتعطل نکلنے والے فضلات اور سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے ماحولیاتی آلودگی میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کے سبب یہاں کی فضا ہمیشہ گرد آلود رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وطن عزیز میں لوگ کھانا کم اور گرد و غبار زیادہ کھاتے ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ میں اسلامی تعلیمات:
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ زندگی حرص و ہوس اور نمود و نمائش کے بہ جائے اعتدال اور میانہ روی سے گزاری جائے۔
ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ''کھاؤ، پیو، البتہ حد سے تجاوز نہ کرو۔'' (الاعراف)
رسول کریم ﷺ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے:
''اپنے اعمال کے اندر درستی اختیار کرو، اور میانہ روی اپناؤ۔'' (بخاری)
اگر اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہوئے دنیا ترقی کی راہ پر گام زن رہے تو ماحولیاتی نظام میں توازن بھی برقرار رہے گا اور ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا اور ساتھ ہی ترقی بھی حاصل ہوتی رہے گی۔
شجرکاری کی اہمیت:
ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے میں اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ زیادہ شجرکاری کی جائے۔ فرمان الٰہی کا مفہوم ہے: ''اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر چیز کی روئیدگی نکالی ، پھر ہم نے اس سے سر سبز شاخیں ابھاریں۔'' (الانعام)
یہ آیت ہمیں سبزے کے اسباب یعنی درخت لگانے کی طرف توجہ دلا رہی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گھنے جنگلات ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ اور انسان کو صاف و شفاف ہوا فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ درختوں اور پودوں سے ایک طرف تو انسانوں کو پھل، اناج ، سایہ، ایندھن اور فرنیچر کے لیے لکڑی حاصل ہوتی، اور دوسری طرف یہی درخت ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے عوامل کو اپنے اندر جذب کرتے اور انسانوں و دیگر جان داروں کو صاف شفاف ہوا فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم جنگلات کا یہ قدرتی تحفہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھیں اور ماحول کا توازن بھی برقرار رہے۔
جانوروں و پرندوں کا تحفّظ:
ماحولیات کے لازمی عناصر میں سے ایک عنصر جانور و پرندے بھی ہیں ۔ اسلام کی تعلیم یہ بھی ہے کہ انہیں بھی ناحق ہلاک نہ کیا جائے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جو کسی پرندے کو بلا وجہ قتل کرے گا، وہ قیامت کے دن اﷲ کے سامنے فریاد کرتے ہوئے کہے گا کہ اے رب! فلاں نے مجھے تفریح کے طور پر قتل کیا اور کسی فائدہ کی خاطر قتل نہیں کیا۔'' ( نسائی)
اسلام ہوا و فضا کی آلودگی سے حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ مثلاً اس کی ایک تعلیم یہ ہے کہ ُمردوں کی تدفین کی جائے۔ اس تعلیم کا دیگر مقاصد کے ساتھ ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ُمردہ آدمی کے جسم سے پیدا ہونے والی نجاست اور بدبو سے ہوا و فضا زہر آلود نہ ہو۔
گندگی پھیلانے کی ممانعت:
اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ سرعام گندگی، بلغم ، تھوک یا قابل تنفر اشیاء وغیرہ نہ ڈالے جائیں کیوں کہ اس سے فضا مکدر اور مسموم ہو جاتی ہے۔ مسلم شریف کی حدیث کے مطابق آپ ﷺ نے بلغم وغیرہ پر مٹی ڈال کر اسے ڈھانک دینے کا حکم دیا ہے۔
پانی آلودہ کرنے کی ممانعت:
ہماری زندگی میں پانی کی بہت زیادہ اہمیت ہے بلکہ یوں کہیں کہ اس پر انسانی زندگی کا دار و مدار ہے۔ اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ اسے آلودہ نہ کیا جائے کیوں کہ اس کے سبب سوزش جگر و معدہ جیسے بہت سے موذی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ آج پانی کی آلودگی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
صوتی آلودگی سے تحفظ:
موجودہ دور میں صوتی آلودگی بھی ماحولیات کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ صوتی آلودگی پر قابو پانے کے سلسلے میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ آواز نکالنے میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے اور ہر حال میں بہ قدر ضرورت ہی آواز نکالی جائے۔ موقع و محل اور ضرورت سے زیادہ آواز نکالنے کو گدھے کی آواز کی مثل مذموم قرار دیا گیا ہے۔
حرف آخر: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک ماحول دوست مذہب ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بے شک آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ماحول کی اِس قدر آلودگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن اسلام نے پھر بھی ماحولیات کے تحفظ کے لیے اپنے ماننے والوں کو قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر واضح ہدایات دی ہیں۔ جن پہ صحیح معنوں میں عمل کر کے ہم ماحولیاتی آلودگی پر بڑی آسانی سے قابو پا سکتے ہیں۔