مقامی حکومت کے نظام کے چند بڑے چیلنجز
سب کا رویہ مقامی حکومتوں کو مربوط، مضبوط اور خود مختار بنانے کے برعکس ہے
پاکستان میں سیاست کا تماشہ دیکھنا ہو تو اس کی ایک شکل ہمیں مقامی حکومتوں کے حوالے سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ جمہوریت کی یہ نرسریاں عدم تسلسل اور آئینی و قانونی پیچیدگیوں، عدم اختیارات کی وجہ سے اپنی اہمیت کھوبیٹھی ہیں۔
آج بھی ملک میں مقامی حکومتیں فعال نہیں ہیں۔ یہ حکومت کی عدم ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔کوئی بھی حکومت ہو، سب کا رویہ مقامی حکومتوں کو مربوط، مضبوط اور خود مختار بنانے کے برعکس ہے۔پاکستان میں اگر جمہوریت کا مقدمہ کمزور ہے تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک بڑی وجہ مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی ہے۔
پنجاب میں مقامی حکومتو ں کے انتخابات کئی برسوں سے تعطل کا شکار ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تمام تر دعووں کے باوجود انتخابات کرانے میں بدستور ناکام ہے۔
سندھ میں کراچی اور حیدرآباد کے مقامی انتخابات چھ بار پہلے ملتوی ہوچکے ہیں اور اب ساتویں بار پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت انتخابی عمل سے انکاری ہے۔ایم کیو ایم کے بقول نئی حلقہ بندیوں کے بغیر انتخاب قبول نہیں۔ پیپلزپارٹی او رایم کیو ایم انتخاب میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کا مقامی نظام بدستور تشکیل نہیں دیا جاسکا۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے انتخاب تاحال ملتوی ہیں اور اسی بنیاد پر وہاں بھی نظام نہیں چل رہا۔
خیبر پختونخوا میں مقامی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں مگر تاحال صوبائی حکومت اور مقامی حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم کی جنگ کی وجہ سے نظام عدم فعالیت کا شکار ہے۔اسلام آباد کے انتخابات بھی جو 31دسمبر کو ہونے والے تھے وہ بھی ملتوی کردیے گئے ہیں ۔
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام مقامی حکومتوں کی عدم فعالیت اور عدم موجودگی کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے جو نامکمل جمہوری نظام کا نقشہ کھینچتی ہے۔صوبائی حکومتیں مقامی نظام کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اس نظام کی موجودگی میں وسائل کی تقسیم سے وہ خود کو عملاً کمزور محسوس کریں گی۔
کیونکہ جب تک قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کا مسئلہ ترقیاتی فنڈز کا حصول ہوگا تو اس وقت تک مقامی حکومت کا نظام مضبوط نہیں ہوگا۔ اگر مقامی انتخابات ہو بھی جائیں تو ان کے او رصوبائی حکومتوں یا ارکان اسمبلی کے درمیان ٹکراؤ اور بداعتمادی کا ماحول برقرار رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے لیے وفاقی سطح پر آئین پاکستان میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں۔
کیونکہ اس نظام کی خودمختاری اور تسلسل کے لیے اسے قانونی تحفظ بھی دینا ہوگا اور آئین میں بھارت کی طرز پر واضح طور پر ایک علیحدہ سے باب ہونا چاہیے جس میں تمام نکات کی وضاحت ہو۔
اس نظام کی مضبوطی کے لیے اگرچہ یہ صوبائی معاملہ ہے مگر اس میں وفاق کا بھی کوئی کردار ہونا چاہیے تاکہ صوبائی حکومتوں کو جوابدہ بنایا جائے کہ وہ نہ صرف شفاف مقامی نظام کی تشکیل ، بروقت انتخابات ، اور ان اہم اداروں کو آئین کی شق 140-Aاور 32کے تحت مکمل سیاسی ، انتظامی او رمالی اختیارات دیے جائیں۔
جو بھی صوبائی حکومت اس نظام میں رکاوٹ پیدا کریں ان کو وفاقی سطح پر جوابدہ بنایاجائے۔ 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی وفاق سے صوبوں ا ور صوبوں سے اضلاع او راضلاع سے تحصیل تک ممکن بنایا جائے۔
وفاق صوبوں کو پابند کرے کہ چند بنیادی اصول جس کی عملا وفاق وضاحت کرے اسے نظرانداز کرکے کوئی بھی صوبائی حکومت مقامی قانون سازی نہیں کرسکے گی۔
اسی طرح ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ملک میںوفاقی یا صوبائی انتخابات کے ساتھ ہی مقامی انتخابات ہوں یا جو بھی عام انتخابات کے نتیجے میں صوبائی حکومت بنے وہ 120 دن کے اندر اندر مقامی انتخابات کو یقینی بنائے گی۔ اس کے لیے وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کا دورانیہ ایک ہونا چاہیے چاہے وہ چار یا پانچ برس پر محیط ہو۔
الیکشن کمیشن مقامی انتخابات میں تاخیر پر خود کو بے بس محسو س کررہا ہے اس کی وجہ خود الیکشن کمیشن کا کمزور ہونا یا وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے سامنے سیاسی سمجھوتوں سے جڑا ہوا ہے۔
ہم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصرہیں کہ اس ملک میں جو حکمرانی سے جڑے مسائل کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اس کی وجہ مقامی نظام کی عدم موجودگی اور جمہوریت ، سیاست ، حکمرانی اور مقامی حکومت کے باہمی تعلق کی نفی کرنا ہے۔ رہی سہی کسر بیوروکریسی کرتی ہے جو خود تک طاقت رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ موجودہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کی پالیسی یا طرز عمل کے بعد ملک میں قومی سطح پر مقامی نظام کی خودمختاری کے لیے ایک نئے سیاسی ، انتظامی ، قانونی اور مالیاتی فریم ور ک پر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔
یہ مسئلہ محض کسی ایک صوبائی حکومت کا نہیں بلکہ یہ مسئلہ وفاقی بھی ہے اور ریاست پاکستان کے بحران کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے ۔
کیونکہ ملک کا سنگین مسئلہ گورننس کے بحران کا ہے اور ہم صوبائی خود مختاری کو ضلعی خود مختاری کے بغیر ممکن نہیں بناسکتے ۔ہماری جو نیشنل سیکیورٹی پالیسی ہے اس میں بھی ایک اہم نقطہ عام آدمی کے مفادات سے جڑے فیصلوں، گورننس کے نظام کی بہتری اور داخلی سیاسی مسائل میں کمی سے جڑا ہوا ہے ۔
یہ تینوں اہم نکات کا تعلق بھی براہ راست مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے ۔ اس لیے ہماری نیشنل سیکیورٹی پالیسی بھی داخلی بحران کے حل کے لیے اختیارات کی نچلی سطح پر منصفانہ منتقلی ، سیاسی ، انتظامی او رمالی خود مختاری سمیت مرکزیت کے نظام کے خاتمہ اور عدم مرکزیت پر مبنی نظام پر توجہ دلاتا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی و قانونی ادارے ، سیاسی جماعتیں ، حکمران طبقہ اور فیصلہ سازی سے جڑے افراد یا ادارے اپنی پہلے سے موجود مرکزیت پر مبنی پالیسی کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تو جواب نفی میں ملتا ہے ۔