چند سو خاندان ہر جگہ قابض ہیں
بد معاش، اس کے بدن کے ہر حصے میں سخت درد ہونے لگا
فرانس کے ادیب Alexandra Dumas نے کہا تھا '' روحوں پہ لگنے والے گھاؤ میں ایک خاصیت ہوتی ہے یہ چھپ تو جاتے ہیں لیکن کبھی بھرتے نہیں ، نہ ہی ختم ہوتے ! یہ ہمیشہ درد ناک ہوتے اور رہتے ہیں ان کو جب بھی چھو ا جائے تو ان سے خون رستا ہے یہ گھاؤ ہمیشہ ترو تازہ رہتے اور انسان کے دل میں کہیں موجود ہوتے ہیں۔''
موپساں اپنے افسانے''روٹی کے گناہ '' میں لکھتا ہے۔''رینڈل بھوکا تھا ، ایک جنگلی جانورکی طرح بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا ، اس کی اس بھوک کی وہ ہی کیفیت تھی جو بھیڑیے کو انسان پر حملے کے لیے مجبورکر دیتی ہے۔
اس نے اپنی لاٹھی اپنے ہاتھوں میں اس خواہش کے ساتھ مضبوط پکڑ لی کہ جو آدمی بھی اپنے گھرکھانا کھانے جاتا ہوا اسے ملے گا وہ اپنی پوری طاقت سے اس کا سر پھوڑ دے گا۔
وہ اپنے دل میں کہنے لگا مجھے بھی حق ہے کہ میں کھاؤں پیوں اور زندہ رہوں لیکن یہ کمینے انسان مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں ان رزیلوں نے مجھے بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ مجھے کام دو ، میں محنت کر کے پیٹ بھرنا چاہتا ہوں۔
بد معاش ، اس کے بدن کے ہر حصے میں سخت درد ہونے لگا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور درد کی وجہ سے اس کا سر پھٹنے لگا ، اس پر بے ہوشی سی طاری ہونے لگی،اس کے دماغ میں صرف یہ خیال گونج رہا تھا کہ میں بھی اس دنیا میں رہتا، اس ہوا میں ، میں بھی سانس لیتا ہوں پھر جب ہوا کسی کی ملکیت نہیں ، ہوا پرکوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی تو روٹی پرکیوں پابندی لگائی ہے ؟
میرا بھی حق ہے کہ میں بھی سب کی طرح کھاؤں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مجھ سے روٹی چھین لے۔'' ایک بڑا سوال جو آ ج سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان 75سال بعد بھی اپنے شہریوں کو پیٹ بھرکے روٹی کیوں نہیں دے پا رہا ہے۔
ملک سے مہنگائی ، غربت ، کرپشن ، لوٹ مار، بد امنی ، بے روزگاری کیوں نہیں ختم ہو پا رہی ہے۔ بجلی ، گیس ، پانی کے بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ملک میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ نہیں رہی اور ادارے مستحکم کیوں نہیں ہو رہے۔ آخر صرف چند سو خاندان ہی پارلیمنٹوں پر کیوں قابض ہیں۔ حکمرانی کا حق عام لوگوں کے لیے کیوں حرام دے دیا گیا ہے۔
فاقے ، بیماریاں ، خوف، مایوسیاں، بے سکونی کیوں عام لوگوں کا مقدر بنادی گئی ہیں۔ سقراط نے عدالت میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا ''میرے لیے مشکل کام موت سے بچنا نہیں بلکہ بے ایمانی اور غیر حق سے بچنا ہے یہ بات کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ بے ایمانی موت سے زیادہ خطرناک ہے اور موت سے زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔
میں بوڑھا اور سست ہوں لہذا مجھے آہستہ رو یعنی موت نے آ لیا ہے جب کہ میرے مدعی زیادہ چالاک اور سبک رفتار ہیں اس لیے انھیں تیز رو یعنی شر نے پکڑ لیا ہے'' سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے '' کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کر کے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی چاہیے۔
اعلیٰ و عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور ذاتی مفادات اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کرسکتے۔
اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائدے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کر دیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل ، جعل و فریب ، استحصال ، غبن ، چور بازاری ، لوٹ مار ظہور میں آتے ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا ، کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے جو ہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے۔'' یاد رکھیں ، اخلاقی مجرموں کے ذہن، دل اور روح میں ایسے ناسور پیدا ہوجاتے ہیں ، جو ہمیشہ رستے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اپنے ناسور چاٹتے رہتے ہیں۔
ایسے سماج جو اخلاقی مجرموں کے قبضے میں ہوں تو وہ جنگل میں تبدیل ہوجاتے ہیں ایسے جنگل جہاں غلاظت سے بھرے جانوروں کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوتا۔ جہاں عقل و دانش ، تہذیب و تمدن ، تعلیم ، قانون ، انصاف، اخلاق اور شرافت کی ننگی لاشیں درختوں پر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں جہاں عزت و وقار ، معصومیت ، سادگی ، شائستگی کی لاشوں کو گدھ کھا رہے ہوتے ہیں اور طاقتور ، با اختیار ، غلیظ جانور نوٹوں کے ڈھیر پر وحشت ناک رقص کررہے ہوتے ہیں اور ایک دوسروں کو نوچ اور چیر پھاڑ رہے ہوتے ہیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ آج پاکستان کا یہ ہی حال نہیں ہوگیا ہے ، کیا پاکستان مکمل طور پر اخلاقی مجرموں کے قبضے میں نہیں چلا گیا ہے۔ کیا ہر جگہ اخلاقی مجرم قابض نہیں ہوگئے ہیں۔ کیا شر کی قوتوں عام لوگوں کو نہیں رلا رہی ہیں۔
کیا عام لوگ ان مجرموں سے ڈر کے ایک گوشے تک محدود نہیں ہوگئے ہیں۔ کینیڈا کے ادیبYann Martel کے ناول ''Life of Pi'' میں پائی نامی لڑکا ایک شیر جس کا نام رچرڈ پارکر ہوتا ہے کہ ساتھ پیسیفک سمندر میں تن تنہا ایک ساتھ227 دنوں تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے جہاں شیر اس کی جان کے پیچھے ہوتا ہے۔
ذرا تصور کریں آپ ایک بہت بڑے سمندر کے بیچ میں ایک کشتی میں سوار ہیں ، نیچے ہر طرف شارک مچھلیاں گھوم رہی ہیں اور کشتی میں ایک خونخوار کئی دنوں کا بھوکا شیر آپ کی جان کے درپے ہے اور آپ کہیں بھاگ بھی نہیں سکتے۔
بالکل اس ناول کی طرح کا منظر آج پاکستان کا بن چکا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ لوگ ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں جہاں صدیوں کے بھوکے ، دنیا بھر کی تمام بیماریوں اور خرابیوں کے مالک ، انسان نما بھیڑئیے بھی اس کشتی میں سوار ہیں جو 22 کروڑ انسانوں کو چیر پھاڑنے کے لیے بے تاب ہیں اور دوسری طرف22کروڑ انسانوں کو مہنگائی ، غربت ، پانی ، بجلی ، گیس کے بحران آہستہ آہستہ نگل رہے ہیں اور ان انسانوں کے لیے ان عفریتوں سے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں باقی بچا ہے۔ فاقوں ، ناقص خوراک ، مایوسیوں ، پریشانیوں، خوف اور ڈرنے پہلے ہی ان کو ادھ موھا کر رکھا ہے ۔
شو پنہارکہتا ہے '' انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مز ا لینا ہے'' اب صرف دیکھنا یہ باقی رہ گیا ہے کہ معصوم ، بے گناہ انسان ان عفریتوں سے کب تک بچ پاتے ہیں۔
موپساں اپنے افسانے''روٹی کے گناہ '' میں لکھتا ہے۔''رینڈل بھوکا تھا ، ایک جنگلی جانورکی طرح بھوک سے بے تاب ہو رہا تھا ، اس کی اس بھوک کی وہ ہی کیفیت تھی جو بھیڑیے کو انسان پر حملے کے لیے مجبورکر دیتی ہے۔
اس نے اپنی لاٹھی اپنے ہاتھوں میں اس خواہش کے ساتھ مضبوط پکڑ لی کہ جو آدمی بھی اپنے گھرکھانا کھانے جاتا ہوا اسے ملے گا وہ اپنی پوری طاقت سے اس کا سر پھوڑ دے گا۔
وہ اپنے دل میں کہنے لگا مجھے بھی حق ہے کہ میں کھاؤں پیوں اور زندہ رہوں لیکن یہ کمینے انسان مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں ان رزیلوں نے مجھے بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور میں کہتا ہوں کہ مجھے کام دو ، میں محنت کر کے پیٹ بھرنا چاہتا ہوں۔
بد معاش ، اس کے بدن کے ہر حصے میں سخت درد ہونے لگا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور درد کی وجہ سے اس کا سر پھٹنے لگا ، اس پر بے ہوشی سی طاری ہونے لگی،اس کے دماغ میں صرف یہ خیال گونج رہا تھا کہ میں بھی اس دنیا میں رہتا، اس ہوا میں ، میں بھی سانس لیتا ہوں پھر جب ہوا کسی کی ملکیت نہیں ، ہوا پرکوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی تو روٹی پرکیوں پابندی لگائی ہے ؟
میرا بھی حق ہے کہ میں بھی سب کی طرح کھاؤں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مجھ سے روٹی چھین لے۔'' ایک بڑا سوال جو آ ج سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان 75سال بعد بھی اپنے شہریوں کو پیٹ بھرکے روٹی کیوں نہیں دے پا رہا ہے۔
ملک سے مہنگائی ، غربت ، کرپشن ، لوٹ مار، بد امنی ، بے روزگاری کیوں نہیں ختم ہو پا رہی ہے۔ بجلی ، گیس ، پانی کے بحران کا خاتمہ کیوں نہیں ہو پا رہا ہے ملک میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ نہیں رہی اور ادارے مستحکم کیوں نہیں ہو رہے۔ آخر صرف چند سو خاندان ہی پارلیمنٹوں پر کیوں قابض ہیں۔ حکمرانی کا حق عام لوگوں کے لیے کیوں حرام دے دیا گیا ہے۔
فاقے ، بیماریاں ، خوف، مایوسیاں، بے سکونی کیوں عام لوگوں کا مقدر بنادی گئی ہیں۔ سقراط نے عدالت میں اپنے آخری خطاب میں کہا تھا ''میرے لیے مشکل کام موت سے بچنا نہیں بلکہ بے ایمانی اور غیر حق سے بچنا ہے یہ بات کہیں زیادہ مشکل ہے کیونکہ بے ایمانی موت سے زیادہ خطرناک ہے اور موت سے زیادہ تیزی سے پیچھا کرتی ہے۔
میں بوڑھا اور سست ہوں لہذا مجھے آہستہ رو یعنی موت نے آ لیا ہے جب کہ میرے مدعی زیادہ چالاک اور سبک رفتار ہیں اس لیے انھیں تیز رو یعنی شر نے پکڑ لیا ہے'' سسرو اپنے بیٹے مارکس کو لکھتا ہے '' کسی دوسرے کے نقصان سے فائدہ اٹھانا موت ، مفلسی اور دکھ سے زیادہ المناک اور غیر فطری فعل ہے ہمیں ہرکلیس کی طرح دکھ درد اور مصائب و تکالیف برداشت کر کے دوسروں کی خدمت اور حفاظت کرنی چاہیے نہ کہ ایک گوشے میں بیٹھ کر لطف و راحت کی زندگی چاہیے۔
اعلیٰ و عظیم کردار کے لوگ اپنی زندگی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور ذاتی مفادات اور آرام کو بالکل ترک کردیتے ہیں یہ ہی لوگ فطرت کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ بدی نہیں کرسکتے۔
اخلاقی کوتاہی روحانی طور پر موت ، مفلسی ، دکھ درد اور عزیزوں ، دوستوں اور بچوں سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے جو شخص ذاتی فائدے کی تلاش میں اسے حق سے جدا کر دیتا ہے وہ غلط کار ہی نہیں بلکہ ایک اخلاقی مجرم ہے کیونکہ اسی سرچشمہ سے تمام دوسرے جرائم یعنی قتل ، جعل و فریب ، استحصال ، غبن ، چور بازاری ، لوٹ مار ظہور میں آتے ہیں۔
اس بات کا امکان ہے کہ ایسا مجرم قانونی سزا سے بچ جائے لیکن اخلاقی سزا سے وہ کبھی نہیں بچ سکتا ، کیونکہ اخلاقی سزا عبارت ہے جو ہر اخلاقی مجرم کو فطرت کی طرف سے خود بخود پہنچ جاتی ہے۔'' یاد رکھیں ، اخلاقی مجرموں کے ذہن، دل اور روح میں ایسے ناسور پیدا ہوجاتے ہیں ، جو ہمیشہ رستے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت اپنے ناسور چاٹتے رہتے ہیں۔
ایسے سماج جو اخلاقی مجرموں کے قبضے میں ہوں تو وہ جنگل میں تبدیل ہوجاتے ہیں ایسے جنگل جہاں غلاظت سے بھرے جانوروں کے علاوہ اورکچھ نہیں ہوتا۔ جہاں عقل و دانش ، تہذیب و تمدن ، تعلیم ، قانون ، انصاف، اخلاق اور شرافت کی ننگی لاشیں درختوں پر لٹکی ہوئی ہوتی ہیں جہاں عزت و وقار ، معصومیت ، سادگی ، شائستگی کی لاشوں کو گدھ کھا رہے ہوتے ہیں اور طاقتور ، با اختیار ، غلیظ جانور نوٹوں کے ڈھیر پر وحشت ناک رقص کررہے ہوتے ہیں اور ایک دوسروں کو نوچ اور چیر پھاڑ رہے ہوتے ہیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ آج پاکستان کا یہ ہی حال نہیں ہوگیا ہے ، کیا پاکستان مکمل طور پر اخلاقی مجرموں کے قبضے میں نہیں چلا گیا ہے۔ کیا ہر جگہ اخلاقی مجرم قابض نہیں ہوگئے ہیں۔ کیا شر کی قوتوں عام لوگوں کو نہیں رلا رہی ہیں۔
کیا عام لوگ ان مجرموں سے ڈر کے ایک گوشے تک محدود نہیں ہوگئے ہیں۔ کینیڈا کے ادیبYann Martel کے ناول ''Life of Pi'' میں پائی نامی لڑکا ایک شیر جس کا نام رچرڈ پارکر ہوتا ہے کہ ساتھ پیسیفک سمندر میں تن تنہا ایک ساتھ227 دنوں تک زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے جہاں شیر اس کی جان کے پیچھے ہوتا ہے۔
ذرا تصور کریں آپ ایک بہت بڑے سمندر کے بیچ میں ایک کشتی میں سوار ہیں ، نیچے ہر طرف شارک مچھلیاں گھوم رہی ہیں اور کشتی میں ایک خونخوار کئی دنوں کا بھوکا شیر آپ کی جان کے درپے ہے اور آپ کہیں بھاگ بھی نہیں سکتے۔
بالکل اس ناول کی طرح کا منظر آج پاکستان کا بن چکا ہے۔ ملک کے 22 کروڑ لوگ ایک ایسی کشتی میں سوار ہیں جہاں صدیوں کے بھوکے ، دنیا بھر کی تمام بیماریوں اور خرابیوں کے مالک ، انسان نما بھیڑئیے بھی اس کشتی میں سوار ہیں جو 22 کروڑ انسانوں کو چیر پھاڑنے کے لیے بے تاب ہیں اور دوسری طرف22کروڑ انسانوں کو مہنگائی ، غربت ، پانی ، بجلی ، گیس کے بحران آہستہ آہستہ نگل رہے ہیں اور ان انسانوں کے لیے ان عفریتوں سے بچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں باقی بچا ہے۔ فاقوں ، ناقص خوراک ، مایوسیوں ، پریشانیوں، خوف اور ڈرنے پہلے ہی ان کو ادھ موھا کر رکھا ہے ۔
شو پنہارکہتا ہے '' انسان کی بدترین خاصیت دوسروں کی تکالیف سے مز ا لینا ہے'' اب صرف دیکھنا یہ باقی رہ گیا ہے کہ معصوم ، بے گناہ انسان ان عفریتوں سے کب تک بچ پاتے ہیں۔