آئی ایم ایف یا گلے کی ہڈی

اس بار بھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر ہمارا معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی


ذکیہ نیئر زکی January 06, 2023
آئی ایم ایف کی شرائط ماننا حکومتی کارکردگی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

کابینہ میں نت نئے وزیروں مشیروں کی بھرتیوں کا عمل رکنے نہیں پارہا، اتحادیوں پر حکومتی خرچے اور اس ملک میں غریب کی بے بسی کے چرچے سبھی جانتے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان سفید پوشوں کا بھرم بھی ساتھ اڑا لے گئی، رہی سہی کسر آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے کے فیصلے نے پوری کردی ہے۔

چین اور سعودیہ سے آس لگائے بیٹھی حکومت دلاسے دے رہی ہے کہ قرضے ملنے پر معیشیت کی سانس میں سانس آئے گی لیکن اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کوئی اور ہی قصہ سنارہے ہیں۔ دوست ملک قرضہ دے بھی دیں تو جو ادائیگیاں پہلے قرض داروں کو کرنی ہیں ان کا کیا بنے گا؟

آئی ایم ایف ایک آخری سہارا ہے لیکن اس کی شرائط ماننا حکومتی کارکردگی کے گلے سڑے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی خوف سے تو وزیر خزانہ نے فنڈ کی طرف لپکتے قدم روک رکھے ہیں۔ مہنگا پٹرول، مہنگی بجلی، اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ، یہ اقدامات معیشت کا پہیہ تو شاید چلا لیں لیکن عوام اس پہیے کے گھن چکر میں پستی ہی چلی جائے گی۔ پھر کیا ہوگا؟ یہیں ناں کہ اگلی بار ایک نہیں، دو نہیں، بلکہ ساری کی ساری حکومتی جماعتوں کو ہی عوام کی طرف سے لال بتی دیکھنی پڑے گی۔

آئی ایم ایف سے بھی تو حکومت در حکومت ہمارا رشتہ چلا آرہا ہے۔ یہ اب ایسی ہڈی بن چکی ہے کہ اگر نگلتے ہیں تو بھی سانسیں اکھڑتی ہیں، اگلتے ہیں تب بھی گزارا ممکن نہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اس بار بھی اس کی کڑی شرائط کی دھوپ میں ہی ہمارا معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کی غلط معاشی پالیسیوں، کورونا وبا کی وجہ سے بگڑتے حالات اور عوام کی بہتری کےلیے کچھ کر گزرنے کے بجائے انتقامی کارروائیوں میں سر دھنتی حکومت نے پاکستانی معیشت کی کھال ادھیڑ کر رکھ دی۔ مہنگائی کا نعرہ لگا کر آنے والی اس مخلوط حکومت نے بھی عوام کو سوائے مایوسی کے کچھ نہ دیا۔ اب تو حالات بتا رہے ہیں کہ پیسہ نہ آیا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ جبکہ عوام کےلیے دو وقت کی روٹی کا حصول آزمائش بن چکا ہے۔

سفید پوش کےلیے اس دور میں گھر چلانا مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے۔ آمدنی بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور اخراجات ہیں کہ قابو میں ہی نہیں آرہے۔ آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آٹا بنیادی ضرورت ہے لیکن حکومت کی غلط درآمدی پالیسی کی وجہ سے اب اس کا بحران بھی سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ ہم نے روس یوکرین تنازعے کے دنوں میں مہنگی گندم خرید کر گوداموں میں پڑی اپنی گندم کے بھی ریٹس دُگنے کروا دیے۔ جس کا فائدہ ذخیرہ اندوزوں نے اٹھایا۔

بلوچستان جیسے بڑے صوبے میں گندم کے سرکاری ذخائر ختم ہوگئے ہیں، جس کی وجہ سے 20 کلو آٹے کا تھیلا 23 سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ لوگ سارا سارا دن لائنوں میں لگ کر چند کلو آٹا خرید پاتے ہیں۔ گندم نایاب تو روٹی بھی مہنگی ہوگئی۔ پندرہ روپے کی روٹی اب کہیں بیس تو کہیں پچیس روپے میں مل رہی ہے۔ جبکہ پورے پاکستان میں آٹے کے نرخ سن کر آسمان جیسے سر پر آن گرتا ہے۔ پنجاب کے کئی شہروں میں تو قیمت 150 سے 160 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے جبکہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں اگلی پچھلی نیندیں پوری کرنے میں مصروف ہیں۔

ایک وقت تھا جب یوٹیلٹی اسٹورز کو غریب اور سفید پوش اشیائے خورونوش کی خریداری کےلیے نعمت مانتے تھے لیکن اب حالات وہاں بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ نام حکومتی سبسڈی کا ہے لیکن قیمتیں وہاں بھی آئے روز بڑھائی جارہی ہیں۔ نئے حکم نامے کے مطابق یوٹیلٹی اسٹور پر 20 کلو آٹے کا تھیلا 1296 روپے اور درجہ دوم کا گھی 3 سو روپے کے بجائے 375 میں فروخت ہوگا اور چینی کی قیمت 75 روپے فی کلو کے بجائے 89 روپے کلو ہوگی۔

سردیوں میں گیس بھی چولہوں سے غائب ہوچکی ہے جبکہ ایل پی جی کے سلنڈروں کی قیمت بھی 1200 سے 2500 تک جا پہنچی ہے۔

مہنگائی کا پہلا زینہ تو مہنگا پٹرول ہی ٹھہرا، جہاں سے عوام کو مفلوج کرنے کی شروعات ہوتی ہے، پھر مہنگی بجلی نے ساری کسر نکال کر رکھ دی ہے۔ اوپر سے ستم یہ کہ کئی شہروں میں تو میٹر ریڈنگ کے بغیر بھاری بل بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ضروریات زندگی کی ہر شے لوگوں کی پہنچ سے دور کردی گئی ہے۔ ان دو برسوں کے دوران بڑے شہروں کے متوسط علاقوں میں مکانات کے کرایوں میں تقریباً 30 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور پوش علاقوں میں رہائش تو اب خواب بن کر رہ گئی ہے۔ مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ، جہاز اور ریل کے کرائے بھی اسی عرصے میں خوب بڑھائے گئے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ حکومتی شاہ خرچیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کروڑوں کی گاڑیاں، لمبے چوڑے پروٹوکول، مشیروں، وزیروں کی بریگیڈ اور بیرونی سیر سپاٹے دھڑلے سے جاری ہیں لیکن کفایت شعاری کے امتحانی ہال میں بھی زبردستی عوام کو پکڑ کر بٹھا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں کاروبار کا آغاز ہی رات گئے ہوتا ہے۔ کمزور معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے سے نالاں کاروباری طبقہ اب مزید مشکل میں گرفتار ہوچکا ہے۔

وزیر خزانہ بدل دیا، نہ بدلی تو مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں لٹتے عوام کی تقدیر نہ بدلی۔ اسحاق ڈار کو معاشی تجربہ کاری کے قصیدوں کی گونج میں لاکر عوام کے سر پر بٹھا دیا گیا لیکن ان موصوف سے بھی نہ ڈالر پکڑا گیا، نہ وہ سسکتی معیشت کو وینٹی لیٹر سے اتار سکے۔ وہی انتقامی سیاست، الزام تراشیاں اور اقتدار کی رسہ کشی سے فرصتیں ہی نہیں کہ معیشت کو سنبھالنے کےلیے کوئی مضبوط لائحہ عمل تشکیل دیا جاسکے۔

دوسری طرف سیلاب سے لُٹے پٹے عوام ابھی تک سڑکوں پر ہیں۔ کڑاکے کی اس سردی میں چھتوں سے محروم ان بے بس لوگوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ایک الگ چیلنج ہے۔ جس سے فی الحال تو صوبائی ہوں یا وفاقی، کوئی حکومت نمٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ ملکی معیشت کی بدحالی پر کوئی ایک جماعت سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی، نہ ہی کسی کے پاس کوئی ایسا روڈ میپ موجود ہے جس سے ملک سنبھل پائے۔

مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔ اب اسے کنٹرول کرتے ہیں تو ملک دیوالیہ ہوگا، نہیں کرتے تو عوام اس کے بوجھ تلے دبتے ہیں۔ حکومت منی بجٹ لانے کےلیے پر تول رہی ہے، دہرے خسارے بھی معاشی استحکام کےلیے خطرہ بن چکے ہیں۔ ان حالات میں شرح نمو بڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ بے روزگاری کا یہ عالم کہ ایک سرکاری نوکری کےلیے ہزاروں نوجوان لائنوں میں لگے کھڑے ہیں۔ ایک طرف حکومت الزام لگاتی ہے کہ سب کیا دھرا پچھلی حکومت کا ہے، تو سرکار! پچھلی حکومت کی غلطیوں کو گود لینے سے بہتر تھا انہیں ان کی غلطیوں کے ساتھ ہی مدت پوری کرنے دیتے تاکہ اگلے انتخابات میں بری کارکردگی ان کی اپنی شکست کی وجہ بن پاتی۔ لیکن حضور آپ نے تو سارے مسئلے مسائل اپنے سر لے کر خود کو ہی امتحان میں ڈال رکھا ہے۔ پچھلوں کو عوام ناتجربہ کار کہہ کر نظر انداز کردیتی لیکن آپ کی تو بار بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر ملک چلانے کی تاریخ بھی گواہ رہی ہے۔ اب اگر آپ کی سرکار میں روٹی بیس روپے کی اور پیاز 260 روپے کلو ہوگا تو عوام کے پاس آپ سب کیا بیانیہ لے کر جائیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں