سیاسی بصیرت کی ضرورت

سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور دہشتگردی کے بڑھتے واقعات جیسے چیلنجز سے نمٹنا ضروری ہوگیا ہے

ملکی مسائل کے حل کےلیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

2022 اپنی تمام تر ہنگامہ خیزی کے ساتھ اختتام پذیر ہوچکا ہے مگر نئے سال یعنی 2023 میں کیا ہوگا، واضح جواب سامنے نہیں آرہے۔ گزشتہ برس اگر حکومتی تبدیلی، بدلتے بیانیوں کا سال تھا تو 2023 چیلنجر کا سال ہے۔

ملک میں اس وقت سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے مذاکرات کرنے کےلیے تیار نظر نہیں آرہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیے اور دھمکیاں دینے کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف فوری اور قبل از وقت انتخابات کےلیے مختلف حربے آزما رہی تو دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت عمران خان کے حربوں کا مقابلہ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ حکومت مقررہ وقت پر بھی الیکشن کرانے کے حق میں نہیں۔ ایسے میں ٹیکنو کریٹ حکومت لانے کی بھی بازگشت سنی جارہی ہے۔

دوسری طرف ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ قومی زرمبادلہ ذخائر 9 سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ ماہرین کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کی گھنٹی بجائی جارہی ہے۔ مہنگائی کا نعرہ لگا کر عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے والی شہباز حکومت موجودہ حالات میں بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ جن سے معیشت سنبھل رہی ہے، نہ گورننس میں کوئی بہتری ہورہی ہے۔ مفتاح اسماعیل کے بعد اسحاق ڈار کی انٹری بھی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں کر پا رہی۔ ملکی کرنسی روپیہ روز بہ روز ڈالر کے سامنے بے توقیر ہورہا ہے۔ مہنگائی پہلے ہی مسلم لیگ ن کو سیاسی طور پر نقصان پہنچا چکی ہے، جس کی وجہ سے شہباز حکومت سخت اور مشکل فیصلے لینے سے کترا رہی ہے مگر اس فیصلہ سازی کی تاخیر کا ملک کو نقصان ہورہا ہے۔ عمران خان کی بڑھتی مقبولیت سے خائف ن لیگ چاہتی ہے کہ پارٹی قائد نواز شریف اور سینئر نائب صدر مریم نواز وطن واپس آئیں۔ ان دونوں کی واپسی سے کوئی کرشمہ ہوسکتا ہے۔

ایسے میں جو سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے وہ یہ کہ پاکستان میں ایک بار پھر ٹوٹی کمر والے دہشتگردوں کی کارروائیوں میں تیزی آتی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بڑھتی دہشتگردی اور اس کی وجوہات پر غور کیا گیا، مگر کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آسکا۔ کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کی طرح کوئی تیسرا بڑا آپریشن لانچ کرنا ہے۔ قوم کو انتظار ہے کہ قومی اور عسکری قیادت اس بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ سال کے اختتام پر آرمی چیف عاصم منیر نے خستہ حال معیشت اور سیکیورٹی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کےلیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا۔ اشاروں سے کڑیاں جوڑنے والے آرمی چیف کے بیان کو موجودہ سال کےلیے قرارداد اور لائحہ عمل بھی قرار دے رہے ہیں۔


ملکی مسائل کے تدارک کےلیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ معیشت کی بہتری اور امن وامان کی خراب ہوتی صورتحال ملک میں سیاسی استحکام لائے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے میں کون ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ٹیبل پر لاسکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام نادیدہ قوتیں ہی کرسکتی ہیں مگر عسکری ادارہ گزشتہ برس سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرچکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی عسکری قیادت کیسے ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرتی ہے، کیسے ادارے کی گرتی ساکھ کو بحال کرتی ہے۔ کیونکہ کپتان تاحال میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے کو چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ عمران خان کے جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ کے خلاف الزامات میں تیزی آتی جارہی ہے۔ اس کا حل باجوہ صاحب نے یہ نکالا ہے کہ وہ آج کل صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ لمبی نشستوں میں اپنا دل ہلکا کرکے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کے بیانیے کی نفی کررہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سوچنا ہوگا کہ پروجیکٹ عمران خان کتنا کامیاب رہا اور کتنا ناکام ہوا؟ اس سے سبق سیکھتے ہوئے مقتدرہ قوتوں کو آگے بڑھنا چاہیے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک اس وقت نازک موڑ سے گزر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے بعد سے پاکستان مسلسل اس نازک موڑ سے آگے کیوں نہیں بڑھ پارہا؟ کیوں ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے ان کو دہرائے جارہے ہیں؟

نئے سال میں سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت اور دہشتگردی کے بڑھتے واقعات ایسے چیلنجز ہیں جن سے نمٹنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ مشکل صورتحال ڈیمانڈ کر رہی ہے کہ سیاست دان سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک کا سوچیں۔ میثاقِ معیشت اور میثاقِ انسدادِ دہشتگردی کےلیے آگے بڑھیں، کیونکہ اب تاخیر کی گنجائش باقی نہیں۔ اگر معیشت بہتر نہ ہوئی اور دہشتگردی کنٹرول نہ ہوئی تو ملک میں انتخابات کیسے ہوسکتے ہیں؟ کون حکومت کرسکے گا؟ اگر ہم نے اب بھی کچھ معاملات پر سنجیدگی نہ دکھائی تو تشویش کے بادل مزید گہرے ہوتے جائیں گے۔ نئے سال میں نئی شروعات کی ہی ملک کو ضرورت ہے۔ سیاستدانوں کی سیاسی بصیرت ہی ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ اگر ہوش مندی سے فیصلے ہوتے ہیں تو یہ سال ملکی سمت کا تعین بھی کرے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story