فلپائن حکومت اور مسلمانوں میں حتمی امن معاہدہ

فلپائن کی حکومت اور حریت پسند مسلمانوں میں 17 برسوں تک امن مذاکرات جاری رہے اور ملائیشیا ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا،

معاہدے کے تحت ’’مورو اسلامک لبریشن فرنٹ‘‘ کے جنگ جو مسلح جدوجہد ترک کردیں گے اور مسلم اکثریتی صوبے کو نیم خودمختاری مل جائےگی۔ فوٹو : فائل

انسانی تاریخ میں یہ امر طے شدہ ہے کہ جنگوں اور تنازعات کا پائیدار حل آخر کار مذاکرات سے ہی سامنے آتا ہے۔مذاکرات میں دیر سویر ہوسکتی ہے لیکن اس کے سوا انسانی تاریخ کے دامن میں اور کوئی حل نہیں ہے۔ اس پس منظر میں چند دن پہلے جب فلپائن میں ایک تاریخی امن معاہدہ طے پایا اور پورے ملک میں جشن کا سماں نظر آیا تو یہ امر حقیقت کا روپ دھارتا ہوا دکھائی دیا ۔

اس سمجھوتے پر جہاں عمومی طور پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے وہاں بعض حلقوں کے مطابق یہ بہت ہی نازک معاملہ بھی بن چکا ہے جو ہلکی سی ٹھیس لگنے سے کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے لیکن فلپائن کی حکومت اور مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے اب جس دانش مندی کا ثبوت دیا ہے اس کو خطے میں بے حد سراہا جارہا ہے جس کے نتیجے میں پائیدار امن قائم ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ عالمی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی جنگ جو گروپوں کو فلپائن کے مسلمانوں کی تقلید کرتے ہوئے آئین و ضابطے کو تسلیم کرنا چاہیے تا کہ یہاں بھی امن قائم ہو سکے۔ یاد رہے ایشیائی ممالک میں فلپائن کا تنازعہ طویل ترین اور انتہائی خوف ناک تنازعے کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا ۔

فلپائن کی حکومت اور وہاں کے آزادی پسند مسلمانوں کے درمیان گزشتہ 17 برسوں سے جو امن مذاکرات جاری رہے اور ملائیشیا کی حکومت ان مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرتی رہی، بل آخر یہ مذاکرات حتمی امن معاہدے کی شکل میں ڈھل گئے ۔ فلپائن کی حکومت اور مسلمان کی سب سے بڑی تنظیم کے درمیان جوامن معاہدہ طے پایا ہے، اس کے تحت ''مورو اسلامک لبریشن فرنٹ'' کے جنگ جو اب مسلح جدوجہد ترک کرکے ہتھیار ڈال دیں گے اور فلپائن کی حکومت ملک کے مسلمان اکثریتی جنوبی صوبے کو نیم خودمختاری دے گی۔ 27 مارچ 2014 کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں فلپائن کی حکومت اور ایم آئی ایل ایف کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کی تقریب ہوئی جس میں فلپائن کے صدر بینجنو اکینو اور ملائیشیا کے وزیرِاعظم نجیب رزاق نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ امن معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں منیلا میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں، اعلیٰ حکام، اراکینِ پارلیمان اور مسلمان رہنماوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔



معاہدے کے بعد امکان ظاہر کیا گیا کہ اس حتمی امن معاہدے سے مسلمانوں کی 45 سال سے جاری مسلح مزاحمت کا خاتمہ ہوجائے گا، جس میں اب تک ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔ حتمی امن معاہدے میں فلپائن حکومت اور باغیوں کے درمیان ماضی میں ہونے والے تمام عبوری معاہدوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ امن معاہدے کے تحت نیم خود مختار مسلمان علاقوں کی حکومت اپنے معاشی اور ثقافتی معاملات کا فیصلہ کرنے میں بڑی حد تک آزاد ہوگی۔ معاہدے کے تحت فلپائن کے جنوبی جزیرے منڈانو کا نام تبدیل کرکے بنگسامارو رکھا جائے گا۔ معاہدے میں نیم خود مختار صوبے کے قیام کے طریقہ کار، وفاق اور صوبے کے درمیان دولت کی تقسیم اور پولیس فورس کے قیام سے متعلق تفصیلی شقیں بھی موجود ہیں۔

معاہدے پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلمان گروپ کے سربراہ الحاج ابراہیم مراد نے اسے پرعزم جدوجہد کی فتح قرار دیتے ہوئے مسلمان کی دوسری تنظیموں ، بہ شمول مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کو بھی معاہدے کا حصہ بننے کی دعوت دی، کیوں کہ مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما اب بھی امن معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ امن معاہدے کی خوشی میں منڈانو کے مختلف علاقوں میں ہزاروں مسلمانوں نے جلوس نکالے اور خوشیاں منائیں۔ فلپائن کے صدر نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ہر صورت معاہدے پر عمل درآمد کرکے اپنی قوم کو امن کا تحفہ دیں گے۔ معاہدے کی رو سے مورو اسلامک لبریشن فرنٹ نے تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے علاقے کی خود مختاری کے مطالبہ کے لیے ہتھیاروں کا استعمال ترک کر دیں گے۔ 2016 تک ملک کے جنوبی علاقے کو خود مختاری دے دی جائے گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنوبی علاقے میں سیکولر طرز کی حکومت قائم کی جائے گی لیکن یہ اسلامی ریاست نہیں ہو گی، دفاع' خارجہ ،کرنسی اور شہریت کے شعبے بدستور مرکزی حکومت کے پاس ہی رہیں گے۔



فلپائن کی اکثریتی آبادی کیتھولک ہے تاہم اب اس خطے کا دس فی صد رقبہ مسلمانوں کو دے دیا جائے گا جہاں پرمسلمان اکثریت میں ہوں گے ۔ یاد رہے مسلمانوں کی جدوجہدکا آغاز 1970 کے عشرے کے میں ہوا تھا، وہ ملک کے جنوبی جزیروں پر اپنے حق کے دعوے دار تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہاں تیرھویں صدی عیسوی میں عرب تاجر آئے اور وہی ان کے اصل آباؤ اجداد ہیں۔ بدامنی کی وجہ سے یہ علاقہ غربت و ناداری کا شکار ہوا اور فلپائنی فوج کا اندازہ ہے کہ ایم آئی ایل ایف کے پاس اب بھی جنگ جوؤں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے مخدوش صورت حال پیدا ہوئی۔

رواں سال کے آغاز میں جب فلپائن نے مورو اسلامی لبریشن فرنٹ کو معافی دینے کی مختلف تجاویز پر غوروخوض شروع کیا تھا تو اس وقت امن کی امید نہیں کی جارہی تھی لیکن دونوں فریقین کی دانش مندی سے یہ معرکہ آخر کار سر ہو ہی گیا۔ ان تجاویز میں یہ شامل تھا کہ فرنٹ کے جیلوں میں بند اراکین کو رہا کر دیا جائے گا اور فعال اراکین کے خلاف مقدمات کیے جائیں گے ۔ اس کے بعد جنوری 2014 کے آخر میں ملائشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں حکومت اور فرنٹ کے اراکین کے درمیان معافی سے متعلق پروٹوکول پر دستخط ہوئے تھے، اب یہ ہی پروٹوکول فلپائن کی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہوگا اور اس پروٹوکول کی رْو سے معافی صرف مورو اسلام لبریشن فرنٹ کے اراکین کا احاطہ کرے گی۔ معاہدے کی رْو سے مورو اسلام لبریشن فرنٹ اپنی 11 ہزار افراد پر مشتمل مسلح فورس کو منتشر کر کے سالوں سے جاری جنگ کو ختم کر دے گی۔


حکومت اور مسلمانوں کے درمیان سمجھوتے کی کوششیں کا مختصر احوال
فلپائن میں حکومت اور مسلمانوں کے سب سے بڑے گروپ کے درمیان گذشتہ سترہ برسوں سے امن کے سمجھوتے کی مسلسل کوششیں ہو رہی تھیں۔ کبھی یہ کوششیںکام یاب نظر آتی تھیں تو کبھی امیدیں ٹوٹ جاتیں ، ستمبر2011 میں بھی امید پیدا ہو ئی تھی کیوں کہ اس وقت مورو اسلامک لبریشن فرنٹ مکمل آزادی کے مطالبے سے دست بردار ہو گیا تھا اور حکومت نے بھی انہیں زیادہ خود مختاری کی پیش کش کی تھی لیکن اس کے باوجود تعطل جاری رہا اور یوں طویل عرصے سے جاری بغاوت کے اس عمل سے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہا ۔



فلپائن کے مسلمان اکثریت والے علاقے منداناؤ کے بارے میں عالمی بنک کے ایک تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا تھا کہ 2005 تک اس تنازع میں بیس لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر اور ایک لاکھ بیس ہزار ہلاک ہوچکے تھے ۔ اس وقت باغیوں نے بانگسامورو کی اصطلاح وضع کر رکھی تھی جس میں مسلمان، قدیمی باشندے، اور علاقے میں رہنے والے آباد کار بھی شامل تھے۔ جنوب میں رہنے والے مسلمانوں نے پندرھویں صدی میں اسپین کے آبادکاروں اور اٹھارویں صدی کے آخر میں امریکیوں سے جنگ لڑی تھی ان جنگوں میں وہ اپنی زمینوں اور اپنے طرزِ حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بیسویں صدی میں وہ مسلسل یہ کوشش کرتے رہے کہ جو کچھ انھوں نے کھودیا ہے وہ واپس مل جائے۔ 2008 تک انہیں یہ مسئلہ درپیش رہا کہ زمین پر ان کے دعوے کو مجوزہ عدالتی نظام (سپریم کورٹ) نے غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے دو کمانڈر اس فیصلے سے خوش نہیں تھے،انہوں نے جب حملے شروع کیے تو اس کے نتیجے میں حکومت کے ساتھ مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں مگر اس دوران مورو اسلامک لبریشن فرنٹ کے نائب چیئر مین غزالی جعفر یہ بھی کہتے تھے کہ امن سمجھوتے کے بغیر جتنا وقت گذرے گا، اتنا ہی اس بات کا امکان ہے کہ مسلح کمانڈرز کو فرنٹ پر اعتماد نہیں رہے گا اور وہ اس سے الگ ہوجائیں گے۔

اگر وہ مورو اسلامک لبریشن فرنٹ اور فلپائن کی حکومت کے درمیان سمجھوتوں اور جنگ بندی کے سمجھوتے کے پابند نہیں رہتے تو یہ خطرناک صورتِ حال ہوگی۔ اسی طرح ستمبر2013 میں فلپائن کے صدر بینگنو اکینو نے اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہا تھا کہ مسلم باغی ہتھیار ڈال دیں۔ انہوں نے ملک کے جنوبی شہر زمبوآنگا میں موجود بچے کچھے مسلم باغیوں پر زور دیا تھا کہ وہ مزید خون خرابے سے بچیں اور ہتھیار ڈال دیں۔ کیوں کہ اس وقت جھڑپوں میں مورو نیشنل لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والے آٹھ باغی اور فلپائن کا ایک فوجی ہلاک ہو چکا تھا اور مسلمان باغیوں کے حملے سے زمبوآنگا شہر پر جزوی قبضہ چھڑانے کے لیے فلپائن کی حکومت نے فوجی دستے طلب کیے ہوئے تھے۔ باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی کے نتیجے میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے تھے اور شہر سے ایک لاکھ سے زائد افراد محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کرگئے تھے۔ جب کہ فوج باغیوں کی تلاش میں چھاپے مار رہی تھی لیکن اس کے باوجود فلپائنی صدر نے شہر کی تعمیرِ نو کی غرض سے قائم کیے جانے والے فنڈ کے لیے نو کروڑ ڈالر بھی مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فلپائن میں اسلام
اسلام فلپائن کا سب سے قدیم توحیدی مذہب ہے۔ 14ویں صدی میں خلیج فارس، جنوبی بھارت، اور ملائی سلطنتوں کی طرف سے مسلمان تاجروں کی آمد کے ساتھ اسلام فلپائن میں پہنچا تھا۔ امریکی محکمہ برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی 2010 کی رپورٹ کے مطابق، فلپائن میں مسلم آبادی 5 سے 9 فی صد کے درمیان ہے جب کہ آبادی کی اکثریت رومن کیتھولک ہے جب کہ کچھ نسلی گروپوں میں پروٹسٹنٹ، غیر مذہبی، بدھسٹ اور مْظاہِر پَرَست بھی آباد ہیں۔1380 میں شیخ کریم المخدوم نامی عرب تاجر نے پورے فلپائن میں تجارت کے ساتھ تبلیغ کا کام شروع کیا اور سْولو مجمع الجزائر اور جولو میں اسلام کی ترویج کی ۔ 1390 میں منانگ کاباو کے ولی عہد راجہ باگوئندہ اور ان کے پیروکاروں نے ان جزائر پر اسلام کی تبلیغ شروع کی۔



فلپائن میں پہلی مسجد شیخ کریم المخدوم کے نام سے چودہویں صدی میں قائم ہوئی بعد میں ملائیشیا اور انڈونیشیا کے عرب قافلوں کی طرف سے فلپائن میں اسلام کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملی۔ فلپائن میں قائم اسلامی صوبے سلطنت ماگوئندانو، سلطنت سولو، سلطنت لاناؤ اور جنوبی فلپائن کے دیگر حصوں پر بھی مشتمل تھے۔ پندرہویں صدی تک، لوزون (شمالی فلپائن) اور جنوب میں منڈاناؤ کے جزائر نے اسلام قبول کیا۔ تاہم وسایا میں زیادہ تر آبادی ہندو بدھ مت طرف راغب تھی، یہاں راجاؤں نے سختی سے اسلام کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اسی دوران اسلام سولو جزائر میں پہنچ چکا تھا اور وہاں سے منڈاناؤ پہنچا، 1565ء میں منیلا کے علاقے میں بھی پہنچا مگرمقامی آبادی کی طرف سے کہیں کہیں مزاحمت تھی۔ ہسپانویوں نے فلپائنی مسلمانوں اور منڈاناؤ کے قبائلی گروہوں کو مورو کا (ہسپانویMoors) نام دیا ۔ یہ نام ہسپانوی کے لفظ مورو کے ساتھ ایک پرانا ملائی لفظ بنگسا ملانے سے وجود میں آیا ہے جس کے معنی قوم یا ریاست کے ہیں۔

مورو قبائل کا ایک اور مطالبہ سْبا علاقائی تنازعہ سے متعلق بھی ہے۔ فلپائن میں مسلم صوبوں پر مستقل علاقے کو منڈاناؤ خودمختار مسلم علاقہ (ARMM) کہا جاتا ہے۔ جن میں باسیلان، لاناؤ، مگونداناؤ، سولو، اور توی توی اور مسلم اکثریتی شہر مراوی بھی شامل ہیں۔ یہ واحد فلپائنی خطہ ہے جہاں اس کااپنا نظام حکومت قائم ہے۔ علاقائی دارالحکومت کوتاباتو شہر ہے، گو یہ شہر اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے لیکن 2007 کی مردم شماری کے مطابق مراوی شہر کو شہری علاقہ کا درجہ دیا گیا اور یہ علاقہ 177,391 افراد پر مشتمل ہے۔ مراوی شہر مسلم اکثریت والا علاقہ ہے جہاں 90 فی صد مسلم آبادی ہے۔یہاں نشہ آور اشیاء اور جوا قانوناً منع ہے، تاہم غیر مسلم آبادی اس قانون سے مستثنی ہے۔
Load Next Story